کتنی بار ایسا ہوا ہوگا کہ آپ رات کا کھانا کھا چکے ہوں اور آپ کو کسی دوست کا میسج ملے کے اپنی انگلش کی اسائمنٹ جو کل جمع کروانے ہے وہ بھیج دو اور آپ کو یاد آئے کہ آپ نے تو اپنی اسائمنٹ بنائی ہی نہیں ابھی تک۔ آپ جلدی سے اپنا لیپ ٹاپ کھولیں گے، یا پھر اپنا فون اٹھائیں گے اور میل چیک کریں گے؟ عین ممکن ہے کہ آپ پہلے یوٹیوب پر اپنا پسندیدہ پروگرام دیکھنا پسند کریں، یا پھر آپ کوئی گیم کھیلنا چاہیں۔ اب ظاہر سی بات ہے کہ گیم کھیلنا یا یوٹیوب دیکھنے میں جو مزا ملتا ہے وہ اسائمنٹ کرنے میں تو ہرگز نہیں مل سکتا۔ لہٰذا آپ کوشش کریں گے کہ بس ایک گیم یا ایک ویڈیو اور کھیل یا دیکھ لوں۔ اسی ایک گیم اور ایک ویڈیو کے چکر میں وقت کیسے گزرتا ہے اس کا ہمیں اندازہ ہی نہیں ہوتا اور پھر یہ سوچ کر کہ اب صبح ہی اس اسائمنٹ کو دیکھیں گے لمبی تان کے سو جاتے ہیں۔

ہم سب بچپن سے یہ سنتے چلے آئیے ہیں کہ “آج کا کام کل پہ مت چھوڑو“۔ سب کو پتا ہے کہ ساتھ کے ساتھ کام مکمل کرنا ہی سب سے زیادہ فائدے مند ہوتا ہے، لیکن اس سب کے باوجود یہ جاننتے ہوئے کہ تاخیر کرنا ہمارے لیے نقصان دہ ہے،  ہم سے کام میں دیر ہوتی رہتی ہے۔ یہ دراصل تاخیر کا چکر ہے اور یقیناَ ہم سب اس کا شکار ہیں۔ آخر ہم یہ دیر کیوں کرتے ہیں؟

یہ واضح رہے کہ کسی کام کو روکنا، ہمیشہ تاخیرکرنا نہیں ہوتا- دراصل ہمیں وقت کی ترتیب کے لیے فیصلہ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے کہ کون سے کام زیادہ اہم ہیں جنھیں ابھی کرنا ضروری ہے اور کون سے کام بعد میں کئے جا سکتے ہیں۔ دیر یا تاخیر اس باعث ہوتی ہے کہ جو کام ہمیں کرنا چاہئے اسے کرنے کی بجائے ہم اس کے بارے میں سوچتے ہی رہتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ اس کو کسی نہ کسی بہانے سے ٹالتے جائیں۔ اب اس کام کو ٹالنے کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں مثلاً ہمیں وہ کام بہت مشکل  لگتا ہو، اس کو کرنے کے لئے بہت زیادہ وقت کی ضرورت ہو، یا شائد ہم اس کے ممکنہ منفی نتائج سےخوفزدہ ہوں۔

اب کسی نقصاندہ کام کو کرنا تو بالکل بے تکی اور نا معقول سی بات لگتی ہے۔  لیکن یہ بات ہمیں بے تکی کیوں لگتی ہے اس کی وجہ ہماری نفسیات میں پوشیدہ ہے۔ ہم زیادہ تر ایسے کاموں میں تاخیر کرتے ہیں جو منفی اثرات مثلاَ ، خوف، نااہلی اورخوداعتمادی کی کمی وغیرہ، کا سبب بنتے ہیں۔ لیکن سوال تو یہ ہے کہ اسائمنٹ میں ایسا کیا ہے کہ اس سے ہمیں ڈر لگے؟

لاشعوری طور پر اسائمنٹ بنانے کو ہمارا دماغ کسی آنے والے خطرے کی طرح شمار کرتا ہے۔ ہمارے دماغ کا ایک حصہ امیگڈالا، (جو جذباتی حرکات اور خطرات کی نشاندہی کرنے والے نیورانز کا مجموعہ ہے)، ایڈرینالین سمیت بہت سے دوسرے ہارمونز بناتا ہے۔  یہ ہارمونز خوف کے ردعمل کو شروع کرتے ہیں، اور  گھبراہٹ کی حالت میں ہمارے پیریفرل کورٹیکس سے آنے والی جبلی حرکات پر قابو پا لیتے ہیں۔ امیگڈالا کے مقابلے میں  پیریفرل کورٹیکس ہمارے طویل مدتی سوچنے اور جذبات کو کنٹرول کرتا ہے۔  یہ” فائٹ، فلایٹ یا فریز ” ردعوامل پر منحصر ہے کہ ہم خطرے سے گریزکرتے ہوئے کم دباؤ والے کام کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔

” فائٹ، فلایٹ یا فریز ” ہماری نفسیات میں پوشیدہ ایک ایسی سٹریٹیجک حکمتِ عملی ہے جو ہمیں کسی بھی مشکل صورتحال میں زیادہ سوچے بغیر فوری طور پہ فیصلہ کرنے میں مدد دیتا ہے۔ آپ نے قصوں کہانیوں میں پڑھا اور سنا ہوگا کہ کہانی کا کردار جب پیچھے مڑ کر دیکھتا  ہے تو پتھر کا بن جاتا ہے انسانی نفسیات کے مطابق پیچھے مڑ کر دیکھنے والا  شخص ڈراونے منظر کی تاب نہ لاسکنے کے باعث اپنی حالت میں ‘فریز’ ہو جاتا ہے۔ اب ہمارے بزرگوں نے اس حالت کو جادو سے تعبیر کیا  اور سمجھا کہ انسان واقعی پتھر کا بت بن جاتا ہے۔ اردو کا محاورہ ہے کہ  سر پہ پیر رکھ کر بھاگنا  محاورہ ایسی ہی کسی پریشان کن صورتِ حال سے فرار  یا ‘ فلایٹ’   ہوتی ہے، اسی طرح شیر کا جگر رکھنا  اور حالات کا مقابلہ کرنا   ‘ فائٹ’ کا نتیجہ ہوتا ہے۔

اب اس فائٹ، فلایٹ یا فریز کے حساب سے تو اسائمنٹ میں  ایسی کوئی بھی چیز نہیں  جس  سے ڈر کر ہم  یا کوئی بھی طالب علم اسائمنٹ  نہ کرنے کا فیصلہ کر سکے تو پھر ہمارا دماغ کیوں اس کو خطرہ سمجھتا ہے؟ ایک تحقیق کے مطابق طلباء ان کاموں کو پسِ پشت ڈالتے ہیں جن کو وہ تناؤ کا باعث سمجھتے ہیں یا زبردستی کے طور پر لیتے ہیں۔ کوئی بھی کام جب اسے لٹکانا شروع کردیا جائے تو پھر وہ پہلے سے بھی زیادہ مشکل محسوس ہونے لگتا ہے۔ اسی تحقیق میں کئے گئے ایک تجربے کے مطابق ایک یونیورسٹی کے طلباء کو دن میں کئی بار پڑھنے کی یاد دہانی کروائی گئی، تجربہ کے اختتام پر ان میں سے بہت سے طلباء نے بتایا کہ دیا گیا سبق اتنا برا یا مشکل نہیں تھا۔ انہوں نے بتایا کے جب وہ تاخیر کر رہے تھے تب انہیں پڑھنا ایک مشکل کام لگتا تھا، جس وجہ سے اس کام کو شروع کرنا بہت مشکل تھا۔

چونکہ تاخیر کرنا ہماری منفی سوچ سے متاثر ہوتا ہے، اس لئےاس کا شکار اکثر وہ لوگ ہوتے ہیں جنہں اپنے جذبات کو کنٹرول کرنے میں مشکلات کا سامنا ہوتا ہےاور وہ لوگ جو خود اعتمادی کی کمی کے ساتھ جدوجہد کرتے ہیں، خواہ وہ وقت کو بہت اچھے طریقہ سے منظم کرتے ہوں۔ تاہم، یہ ایک غلط فہمی ہے کہ تمام تاخیر کرنے والے سست ہیں۔ سستی کی نشاندہی جسم اور دماغ میں انرجی کی کمی سے کی جاتی ہے۔ کاہلی کے احساس کے دوران ہم خود کو فارغ رکھنے کی بجائےغیر اہم کاموں میں مصروف کر لیتےہیں اور درحقیقت، تاخیر کرنے والے زیادہ پرواکرتے ہیں۔ تاخیر کرنے والے اکثرناکامی کے ڈر کا شکار ہوتے ہیں، وہ بہت سے کاموں کو روک دیتے ہیں کیونکہ وہ ڈرتے ہیں کے ان کا کام اعلی معیار کے مطابق نہیں ہو گا-

وجہ جو بھی ہو تاخیر کے نتائج ایک جیسے ہی ہوتے ہیں۔ مسلسل تاخیر کے شکار لوگوں کا اکثر پریشانی اور افسردگی، شرم کےمسلسل احساسات، اضطراب اوربہت سی دباؤ سے وابستہ جسمانی بیماریوں میں مبتلا ہونے کا امکان ہوتا ہے۔ سب سے بری چیز یہ ہے کہ ایک طرف تاخیر ہمیں ایک طویل مدت میں نقصان پہنچاتی ہے اور دوسری طرف یہ عارضی طور پر ہمارے پریشانی کے لیول کو کم کرتی ہے اور ہمارے جسم کو دباؤ والے کاموں سے نمٹنے کی صلاحیت دیتی ہے۔ روایتی طور پر، لوگوں کا خیال تھا کہ تاخیر کرنے والوں کو نظم و ضبط اور وقت کے سخت نظام پر عمل کرنے کی ضرورت ہے، تاہم آج کے محقق اس خیال کے برعکس سوچتے ہیں۔

خود پر سختی کرنا ہمارے کسی کام پر مزید برے اثرات مرتب کر سکتا ہے، جس سےخطرہ مزید بڑھ جاتا ہے۔ اس تناؤ کو شارٹ سرکٹ کرنے کےلیے ہمیں اپنے منفی جذبات کو حل کرنے اور کم کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے کچھ آسان حل موجود ہیں، جیسا کہ اپنےایک بڑے کام کو چھوٹے چھوٹے حصوں میں تقسیم کرنا یا اپنے خیالات اور احساسات کے بارے لکھنا کہ کون سی چیزیں پریشانی کا باعث ہیں اور اس کا کیا حل ہے۔ اس کے علاوہ کوشش کرنا کے اپنے ارد گرد سے دھیان بھٹکانے والی چیزوں کو دور کیا جاے،یہ یقینا زبردستی تاخیر کرنے کی عادت کو روکے گا۔ سب سے زیادہ بڑھ کر یہ کہ یہ خود اعتمادی اور ہمدردی، خود کو معاف کرنے اور اگلی بار بہتر حکمت عملی اختیار کرنے میں مدد دیتا ہے۔ ایک ثقافت جو اس تاخیر اور دباؤ کے چکر کو برقرار رکھتی ہے، ہمیں طویل مدت میں نقصان پہنچاتی ہے

Why you procrastinate even when it feels bad