پچھلے دنوں راقم کی نظروں سے ایک انگریزی جملہ گزرا کہ جو اس تحریر کا شان نزول ثابت ہوا۔۔ جملہ پیش خدمت ہے۔
“Your inability to grasp the science is not a valid argument against it”

سائنس دور حاضر میں سر پہ چڑھ کر بولنے والے جادو کی طرح بڑھتی چلی جا رہی ہے اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پچھلے تقریباً بیس سالوں میں سائنس نے چشم کشا ترقی کی ہے۔۔ لیکن جہاں سائنس بے حد ترقی کرتی رہی ہے اس حساب سے سائنس سمجھنے والوں کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ تو نہ ہوا بلکہ بغیر سائنسی طریقہ کار کو سمجھے سائنس پر تنقید کرنے والوں کی تعداد شاید دوگنی سے بھی زیادہ ہوگئی۔۔۔ اس عمل میں ہمارے مسلمان بھائیوں کی تعداد بھی بہت زیادہ رہی کیونکہ ہمیں کئی معاملات میں سائنس مذہب سے ٹکراتی محسوس ہوئی اور بغیر سوچے سمجھے ہم نے تنقید شروع کردی۔۔۔ ہماری بہت بڑی تعداد نے سائنس کو ایک غلط علم گرداننا شروع کردیا جس کی بنیادی وجہ سائنس کی بنیاد سے نابلد ہونا ہے۔۔۔
سائنس ایک ایسا علم ہے جس کے ماننے والے اسے ایک منطقی علم کہتے ہیں۔۔۔ یعنی ایسا علم جس کے پیچھے مشاہدوں کا ایک ضخیم سمندر ہو اور اسے جھٹلانے کے لیے آپ کو دلائل کا اتنا یا اس سے بڑا سمندر چاہیے ہو۔۔۔ سائنس ایسی کسی دلیل کو ماننے سے انکاری ہے جس کے پیچھے مشاہدات نا لاۓ جا سکیں یا مشاہدات کی تعداد کم ہو۔۔۔ یہاں تک تو ہمارے اہلِ علم مسلمان بھی کسی نا کسی حد تک سائنس کو سمجھتے ہیں۔۔۔ لیکن جہاں آ کر بہت بڑی تعداد سائنس سے انکاری ہوجاتی ہے وہ ہے مشاہدے کی حقیقت۔۔۔ مشاہدہ عام فہم میں ایک ایسے عمل کے کہتے ہیں جس میں پانچوں حواس خمسہ کو استعمال کرتے ہوۓ کسی بھی شے کی شماریات (stats) اکٹھی کی جائیں۔۔ لیکن یہیں ہمارے بھائیوں سے ایک بنیادی غلطی یہ ہوجاتی ہے کہ ہوا بھی نظر نہیں آتی، فورس بھی نظر نہیں آتی، وقت بھی نظر نہیں آتا، عقل بھی نظر نہیں آتی تو سائنس ان چیزوں کو ایک مشاہدے کے طور پر کیسے سامنے لے آتی ہے جب کہ یہ تو گنی بھی نہیں جا سکتیں، پھر ان کی شماریات کیسے ممکن ہیں؟ سائنس پڑھنے والوں کے لیے سمجھنے کا بنیادی اصول یہ ہے کہ حواس خمسہ کے علاوہ اگر ایسے آلات جن کے زریعے ہم ایک نا دِکھنے نا محسوس ہونے والی شے کو مشاہدے اور شماریات میں اس طرح ڈھال سکیں کہ ہر تجربہ کرنے والے شخص کو وہ آلات اس شے کا برابر ادراک دیں تو سائنس میں وہ بھی قابل قبول ہے۔۔ یعنی اگر کوئی شخص کہیں بھی ہوا ماپنے کی رفتار کا آلا استعمال کرے گا تو وہ آلہ ہر وقت اس کو ہوا کا پتہ دے گا۔۔۔ فورس اور وزن کو بھی ہم آلات کے ذریعے مانتے ہیں کیونکہ ہمیں ان کی شماریات بھی مل جاتی ہیں، ورنہ نا وزن کو دیکھا جا سکتا ہے نا فورس کو۔۔۔ جب عام مشاہدے یا آلات کی مدد سے مشاہدے کے بعد ہمیں کسی شے کی شماریات حاصل ہوجاتی ہیں تو وہ شے سائنس کا حصہ بن جاتی ہے۔۔۔ اگلی شرط یہ ہے کہ کسی جونئیر سائنسدان کو بھی ان تمام شماریات تک اتنی ہی رسائی ہو جتنی ایک سینیئر سائنسدان کو ہوسکتی ہے۔۔۔ تاکہ کوئی بھی سائنسدان اس کو غلط یا صحیح ثابت کر سکے۔۔۔ سائنس میں غلط یا صحیح کچھ نہیں ہوتا۔۔۔ سائنس میں ہر چیز کو Innovation کہا جاتا ہے۔۔۔ کسی شے کے غلط ثابت ہوجانے پر سائنس اپنی تصحیح کرلیتی ہے۔۔۔ یعنی سائنس بیک وقت ایک لچکدار اور مضبوط علم ہے۔۔۔ اگر بغیر دلیل کے بات کریں گے تو سائنسدان اس بات کو رد کردیں گے، اور دلیل آنے پر سائنس اپنے قوانین اور نظریات کو بھی بدل دیتی ہے (سائنس کی رو سے قوانین اور نظریات کیا ہوتے ہیں یہ پھر کبھی صحیح)۔۔۔
مشاہدہ کی حقیقت، اور سائنسی علم کی لچک جاننے کے بعد بھی اگر آپ کو سائنس سمجھ نہیں آتی تو نیچے موجود جملہ آپ ہی کے لیے ہے کہ
“Your inability to grasp the science is not a valid arguement against it”
میں اس میں کچھ یوں اضافہ کروں گا
“… Because science has its own rules and ways, and if you don’t understand, its your limitation, not science’s”

لیکن ٹھہریے۔۔۔ کیا یہی بات اسلام نہیں کرتا۔۔۔ اسلام میں ہر بات کو ماننے کے لیے اصول مقرر ہیں، کچھ فرائض ہیں، کچھ سنتیں ہیں۔۔۔ اسلام خدا کے وجود کو ماننے کا حکم دیتا ہے جبکہ خدا کی ذات اور ہر وہ شے سائنس کے “مشاہدے” سے باہر ہے جسے ہم غیب کہتے ہیں، سائنسی اصول کے مطابق مشاہدات ہر شخص کو برابر دستیاب ہونے چاہییں جبکہ خدا کی ذات کا ادراک کوئی سے دو اشخاص کو کبھی برابر نہیں ہوسکتا یہیں سے خدا کا وجود سائنس سے باہر ہوجاتا ہے۔۔۔ غیب کہتے ہی اسے ہیں جو (سائنسی) مشاہدے کے قابل نا ہو اور اسلام کا اصول ہے غیب کو مانے بغیر دین کا کوئی تصور نہیں رہتا۔۔۔ جس طرح سائنس کے بارے میں سائنسدان یہ کہتے ہیں کہ اسے آپ کے ماننے یا نا ماننے سے کوئی فرق نہیں پڑتا اسی طرح اسلام کو بھی آپ کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔ اسلام ایک عمل کا ضابطئہ حیات ہے جبکہ سائنس صرف ایک علم ہے۔۔۔ اگر ایک علم کو جاننے کے اصول ہو سکتے ہیں تو اسلام جیسے عمل کی ترغیب دینے والے دین کے اصول پہلے ہیں۔۔۔ کسی بھی شے کے “سائنسی مشاہدے” میں نا ہونے کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ وہ چیز موجود نہیں ہے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ سائنس اس چیز کی دلیل لانے سے قاصر ہے۔۔۔اور مشاہدے میں نا آنا اسلام کا قصور نہیں سائنس کا قصور ہے۔۔۔ سائنس میں ہر شے کچھ عرصے بعد بدل سکتی ہے اگر کوئی مضبوط دلیل آجاۓ جبکہ دین میں بدلنے کا تصور نہیں ہے۔۔۔ دین کے اصولوں میں قرآن اور حدیث کی بات بنیاد مانی جاتی ہے۔۔۔ اسلام ایک ایسا دین ہے جس میں ہر “ذی شعور” جاندار کو ایک ذات کا کہا ماننے کا حکم ہے۔۔۔ اور وہ ذات اللّٰه ہے۔۔۔ دین حکم دیتا ہے اللّٰه، اس کے پیغبروں، کتابوں، غیب اور آخرت پر ایمان رکھو۔۔۔ کیونکہ اسی میں تمہاری فلاح ہے, اور یہی اس کا اصول ہے۔۔۔ اگر وہ چیز سائنس کی سمجھ نہیں آتی تو یاد رکھیں، سائنس اسے رد بھی نہیں کرتی۔۔۔ کچھ نا سمجھ لوگ سائنس کے دائرہ کار سے باہر ہر چیز رد کرتے چلے جاتے ہیں لیکن مسلمان ہونے کے ناطے ہمیں یہ شے سمجھنی ہے کہ سائنس کسی چیز کا رد نہیں ہے، سائنس ریسرچ سے کسی بھی شے کی حقیقت کو بتانے کی کوشش کرتی ہے، اور اگر نا بتا سکے تو اسے سائنس سے باہر گردانتی ہے۔۔ (یاد رکھیں سائنس یہ بھی نہیں کہتی کہ جو شے سائنس سے باہر ہے وہ غلط ہے)۔۔۔ جبکہ اسلام جو کہ ایک عمل کا دین ہے، وہ اپنے اصولوں پر چلتا ہے۔۔۔ اگر آپ کو اسلام کے اصول سمجھ نہیں آتے تو نیچے موجود جملہ بھی اپ کے لیے ہے کہ
“Your inability to grasp the religion is not a valid argument against it, its your fault”

سائنس اور اسلام دو مختلف چیزیں ہیں، ایک عمل + علم کے، اور دوسری صرف علم ہے۔۔۔ عمل کو علم پر ہمیشہ فوقیت حاصل ہوتی ہے لیکن علم کی اہمیت اپنی جگہ موجود ہوتی ہے۔۔۔

اللّٰه ہمیں اشیاء کی حقیقت کو جاننے کی توفیق دے۔۔۔

راقم: حنان عبدالخالق

Hannan A. Khaliq

Zoology/Biology Lecturer Topics of interest: All Zoology/Biology but especially Evolution, Physiology, Genetics, Microbiology, Ecology M.Phil Zoology (Specialization in Ecology) from University of The Punjab Quaid E Azam Campus