برطانیہ کو نوآبادیاتی طاقت کے طور پر ابھرے  سو سال سے کچھ زیادہ کا عرصہ گزر چکا تھا جب سولہ سو ساٹھ میں رائل سوسائٹی آف لندن قائم ہوئی۔ یہ سوسائٹی آج بھی دنیا بھر کے بہترین سائنسدانوں اور ذہین ترین دماغوں کا مرکز سمجھی جاتی ہے۔ سولہ سو چوہتر کے ستمبر میں سوسائٹی کو ایک حیرت انگیز خط ملا۔ اس خط کے مندرجات اس حد تک ناقابل یقین تھے کہ اکثر سائنسدانوں نے اس کو درست ماننے سے ہی انکار کر دیا۔ سوسائٹی کے سربراہ رابرٹ ہک ایک انتہائی محتاط محقق اور مدبرانسان تھے جنہوں نے بذات خود اس موضوع پر تحقیق کرنے کی ٹھانی۔ یہ وہی رابرٹ ہک ہیں جن کی کتاب مائیکرو گرافیا شہرہ آفاق اہمیت کی حامل ہے اور جنہوں نے خلیہ یا سیل دریافت کیا تھا۔ رابرٹ ہک کی خوردبین (مائیکروسکوپ) اس وقت تک دنیا کی طاقتور ترین تصور کی جاتی تھی۔ تاہم اس آنے والے خط نے اس دعوے کی قلعی کھول دی تھی۔

یہ خط ہالینڈ سے کپڑے کی دکان میں کام کرنے والے ایک کلرک نے لکھا تھا۔ اس کے مطابق اس کو جھیل کے شفاف پانی میں مچھلی جیسے کچھ جاندار ملے تھے، جو پانی میں تیزی سے تیرتے ہیں لیکن آنکھ سے دیکھنے پر نظر نہیں آتے۔ یہ آئیڈیا اس کو کپڑے کی دکان میں کپڑے کی کوالٹی چیک کرنے والے عدسوں سے آیا تھا۔ وہ اپنے فارغ وقت میں شیشے کے ٹکڑوں کو پالش کر کے ان سے عدسے (لینز) بناتا تھا اور ان سے چیزوں کی ساخت کا مطالعہ کر رہا تھا۔ وہ پیشے کے اعتبار سے سائنسدان تو نہ تھا لیکن اس مشغلے نے اس کو ایک نئی دنیا کا راز بتا دیا تھا۔ اس کی بنائی مائیکروسکوپ دنیا کے امیر ترین سائنسدانوں کی مائیکرو سکوپس سے بہتر تھی۔ اس شوق کی وجہ سے وہ پوری دنیا میں مشہور ہو چکا تھا، یہاں تک کہ روس کا بادشاہ اور برطانیہ کی ملکہ چل کر اس کے گھر ہالینڈ آئے تاکہ اس کی مائیکرو سکوپ سے ان نہ نظر آنے والے جانداروں کی ایک جھلک دیکھ سکیں۔ اپنی زندگی کے اگلے پچاس سال لیون ہوک نے بارش کے پانی، تالابوں، جھیلوں، جانوروں کی رال، خمیر، سرکہ، دانتوں کے پیلے پن، خون، ٖغرض جو کچھ اس کے ہاتھ آیا اس میں مختلف طرح کے جاندار اور خلیے دریافت کرتے گزارے۔

جراثیم پر یقین کیسے کریں 1
اس سادہ سی ایجاد نے حیاتیات کی ایک نئی شاخ کو جنم دیا

رائل سوسائٹی لندن کے سائنسدان شدید تذبذب اور بے چینی کا شکار تھے۔ ایک طرف تو ہالینڈ کے غیر تربیت یافتہ کلرک کی دریافت نے ان کی راتوں کی نیند اڑا دی تھی اور دوسری طرف وہ شدید کوشش کے باوجود ایسی کوئی چیز نہیں ڈھونڈ پا رہے تھے۔ ان کی طاقتور ترین مائیکرو سکوپس میں بھی صاف پانی صاف ہی نظر آتا تھا۔ اگر ہالینڈ کی چھیل کے پانی میں ایسے جاندار موجود تھے تو برطانیہ میں کیوں نہیں؟ کیا یہ جاندار صرف ہالینڈ میں پیدا ہو سکتے تھے؟ کیا وہاں کا ماحول ان کے لئے زیادہ ساز گار تھا؟ کیا وہاں کے پانی میں کوئی خاص کیمیکل موجود تھا؟ غرض ہر طرح کے سوال جنم لے رہے تھے لیکن جواب دستیاب نہ تھے۔

قدرت میں مجھے جتنے کرشمے نظر آئے ہیں یہ ان میں سے سب سے شاندار ہے۔ کسی اور نظارے نے مجھے آج تک اتنی خوشی نہیں دی جتنی پانی کے ایک قطرے میں ان ہزاروں جانداروں کو آپس میں حرکت کرتے دیکھ کر ملتی ہے۔

لیون ہوک

لیون ہوک کی مائیکروسکوپ چیزوں کو پانچ سو گنا تک بڑا کر کے دکھا سکتی تھی۔ اس نے اڑھائی سو سے زیادہ مختلف قسم کی مائیکرو سکوپس بنائیں۔ اور ایک سو سال سے زیادہ عرصے تک کوئی اور اس جتنی طاقتور مائیکرو سکوپ بنانے کے قابل نہ ہو سکا۔ جب لوگ آسمان پر نئے سیارے، اور زمین پر نئے براعظم دریافت کر رہے تھے، عین اس وقت لیون ہوک نے ایک بالکل نئی خردبینی کائنات دیافت کر لی تھی۔ چونکہ اس کے پاس حیاتیات کا وہ علم دستیاب نہیں تھا جو آج ہمیں دستیاب ہے، اسلئے وہ ان جانداروں کی اصلیت سمجھنے میں غلطی کر گیا۔ اس کے خیال میں یہ چھوٹی چھوٹی چیزیں شاید کسی طرح بڑے جانداروں کے ‘بیج’ تھے جو وقت آنے پر بڑے ہو جاتے ہیں۔ تاہم اس دریافت سے سائنس میں ایک انقلاب کی شروعات ہوئی۔ آج ہم جانتے ہیں کہ یہ جانداروں کے دو بالکل مختلف گروہ، یک خلوی جاندار اور جراثیم تھے۔ اس نے پہلا زندہ خلیہ اور پہلا یک خلوی جاندار دریافت کیا تھا۔

رائل سوسائٹی لندن کا اولین نعرہ تھا کہ کسی کی بات پر بھروسہ نہ کرو، جب تک تحقیق سے ثابت نہ ہو جائے۔ اس سے تقریبا دس سال پہلے رابرٹ ہک اپنی کتاب میں پہلی دفعہ لکڑی کے ٹکڑے میں “خلیے” دریافت کر چکا تھا۔ تاہم اس کے دریافت شدہ خلیے اصل میں پودے کے مردہ سیل تھے۔ چنانچہ رابرٹ ہک نے اپنی مائیکرو سکوپ کو پہلے سے بہتر بنانے کی کوشش شروع کر دی۔ اس نے مائیکروسکوپ کے عدسے بدلے اور اس میں زیادہ روشنی داخل کرنے کا انتظام کیا یہاں تک کہ دریائے تھیمز کے صاف پانی میں اس کو ویسی ہی چیزیں حرکت کرتی نظر آنے لگیں جن کا ذکر لیون ہوک کے خط میں تھا۔ دنیا نے تسلیم کیا کہ لیون ہوک کی “چھوٹے جانوروں” کی دریافت حقیقت پر مبنی ہے۔

لیون ہوک کی اس دریافت کو آج لگ بھگ ساڑھے تین سو سال کا عرصہ گزر چکا ہے اور ٹیکنالوجی اس کی سوچ سے کہیں زیادہ ترقی کر چکی ہے۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اتنا عرصہ گزرنے کے بعد بھی شاید چند ہی لوگ مائکرو سکوپک کائنات کی ایک جھلک دیکھ پاتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ شاید یہ ہے کہ عموما مائیکروسکوپ مہنگی ہوتی ہیں۔ جدید کمپاؤنڈ مائیکروسکوپ پچیس ہزار سے کئی لاکھ تک کی ملتی ہیں اور سکولوں کالجوں میں دستیاب ہوں بھی تو عموما طلبا کی پہنچ سے دور رکھی جاتی ہیں۔ مجھے چونکہ لاہور کے ایک بہترین سرکاری سکول میں پڑھنے کا موقع ملا اسلئے نویں جماعت میں پہلی دفعہ میں نے مائیکرو سکوپ میں جھانک کر دیکھا تھا۔ بیس سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن وہ منظر آج بھی جیسے آنکھوں کے سامنے ہے۔ استاد صاحب ڈنڈا لے کر مائیکرو سکوپ کے ساتھ کھڑے تھے جو صحن میں ایک ڈیسک پر رکھی تھی۔ لڑکوں کو حکم تھا کہ اپنے ہاتھ کمر پر باندھے رکھیں اور قطار میں باری باری دیکھتے جائیں۔ ہاتھ لگانے کی اجازت نہ تھی کہ کہیں خراب نہ کر دیں۔ کمر سے ہاتھ ہٹانے پر ڈنڈا سلام کہتا تھا۔ آج بھی میری نظروں کے سامنے وہ منظر تازہ ہیں جب میں نے  پہلی دفعہ پتے کا تراشہ، پیاز کی جھلی، امیبا اور پیرا میشیم دیکھے تھے۔

ہماری کہانی میں رائل سوسائٹی لندن کے بہترین دماغ، جن میں سے تقریبا ہر ایک نے جدید سائنس کی ایک نئی شاخ کی بنیاد رکھی، یہ ماننے کو تیار نہ تھے کہ پانی میں کوئی ایسی چیز ہے جو عام آنکھ سے نظر نہیں آتی۔ تو پھر ہم آج کے عام لوگوں سے کیسے امید رکھ سکتے ہیں کہ وہ جراثیم اور وائرسز کے وجود کو بغیر دیکھے جانے تسلیم کر لیں؟ آپ نے اکثر یہ جملہ سنا ہو گا کہ “ہم فلاں کے گھر مہمان گئے تھے، انہوں نے ٹھنڈی بوتل پلائی جس سے گلا خراب ہو گیا”۔ ٹھنڈی بوتل کو ہمارے حواس محسوس کر سکتے ہیں، برتنوں پر موجود جراثیم کو نہیں۔ اسلئے دماغ بوتل کا قصور جلدی تسلیم کر لیتا ہے لیکن یہ تسلیم نہیں کرتا کہ ہم کسی نظر نہ آنے والی اور محسوس نہ ہونے والی چیز سے بیمار ہوئے ہیں۔

ہمارے تعلیمی نظام کی ایک بڑی خرابی یہ ہے کہ وہ تجسس، تحقیق اور مہارت کے بجائے رٹے اور نمبروں کی دوڑ کو پروان چڑھاتا ہے۔ چنانچہ جو طلبا پڑھائی میں دلچسپی لیتے ہیں ان کی توجہ صرف کتابی مواد کو من و عن یاد کرنے تک محدود رہتی ہے اور جو طلبا لیون ہوک کی طرح اپنے ارد گرد کی چیزوں کو کھوجتے ہیں وہ عموما نمبروں کی دوڑ میں پیچھے رہ جاتے ہیں اور ناکام تصور ہوتے ہیں۔ یوں دونوں طبقات تعلیم کا کوئی حقیقی فائدہ حاصل کرنے سے محروم رہتے ہیں۔ میں نے کئی دفعہ ڈاکٹروں کو کہتے سنا ہے کہ وہ جراثیم کے وجود پر یقین نہیں رکھتے، یا دواؤں کے بجائے گھریلو ٹوٹکوں کو زیادہ بہتر سمجھتے ہیں۔ ایسے بیانات کی بڑی وجہ تعلیمی کیرئر کے دوران رٹے پر انحصار اور تجربے کا فقدان ہے۔ میٹرک تک سائنس کے بہت سے بنیادی کانسیپٹ سمجھنے کے لئے کچن میں موجود سامان استعمال ہو سکتا ہے۔ بہت سی چیزیں بازار سے یا کباڑیے سے انتہائی سستے میں مل جاتی ہیں۔ مائیکرو سکوپ جیسے مہنگے آلات کے متبادل بھی اب انٹرنیٹ پر سستے داموں دستیاب ہیں۔ خدارا اپنے بچوں کو رٹے سے نکال کر عملی میدان میں لانے کی کوشش کریں۔ اگر آج ہم اپنے بچوں میں وہ قابلیت بھی پیدا نہیں کر پا رہے جو تین سو سال پہلے قوموں کی ترقی کا باعث بن رہی تھی تو پھر ہم اپنی اگلی نسل کو کیا وراثت دے رہے ہیں؟

Muhammad Bilal

I am assistant professor of biology at Govt. KRS College, Lahore. I did my BS in Zoology from University of the Punjab, Lahore and M.Phil in Virology from National University of Sciences and Technology, Islamabad. I am Administrator at EasyLearningHome.com and CEO at TealTech