مضمون کا پہلا حصہ یہاں پڑھیں
انگریزی کا ایک مقولہ ہے کہ اگر یہ بطخ جیسا دکھتا ہے، بطخ کی طرح سے تیرتا ہے، اور بطخ کی طرح سے بولتا ہے تو عین ممکن ہے کہ یہ بطخ ہی ہو۔
“If it looks like a duck, swims like a duck, and quacks like a duck, then it probably is a duck.”
ان تمام فوسلزسے قطع نظر اس مقولے کے مصداق کچھ لوگ یہ اعتراض کر سکتے ہیں کہ بھلا ایک سمندری جانور جس کی شکل مچھلی جیسی ہے، جو تیرتا پانی میں ہے، 24 گھنٹے وہ پانی میں رہتا ہے تو پھر لازمی بات ہے کہ وہ مچھلی ہی ہوگا نا کہ ممالیہ۔ اس حوالے سے آپ یہ مثال بھی دے سکتے ہیں کہ دوسرے ممالیہ جانور جو پانی میں بسیرا کئے ہوئے ہیں جیسے کہ دریائی گھوڑے ، جو سائنسدانوں کے بقول وہیل کے خشکی پہ پائے جانے والے قریبی رشتہ دار ہیں تو ان کی ٹانگیں کیوں ہیں یا ان کی ناک ان کے سروں پہ کیوں نہیں ہے؟ جبکہ اس کے مقابلے میں شارک جیسی مچھلی کیونکر وہیل کی قرابت کی اصل حقدار نہیں؟ شارکوں میں بھی بڑی جسامت پائی جاتی ہے بلکہ سب سے بڑی شارک کا تو نام ہی وہیل شارک ہے تو پھر کیوں سائنسدان خواہ مخواہ ہی وہیل کا تعلق خشکی سے جوڑنے کی کوشش کر رہے ہیں؟ اگر سوچیں تو یہ اعتراض بہت منطقی معلوم ہوتا ہے۔
فی الحال وہیل اور شارک کی اس بحث کو چھوڑ کے ایک اور تقابلی جائزہ لیتے ہیں۔ آپ نے ٹی وی وغیرہ پہ کموڈو ڈریگن کو دیکھا ہوگا، اگر نہیں دیکھا تو کوئی بات نہیں آپ نے مگرمچھ اور سانپ تو چڑیا گھر وغیرہ میں لازمی ہی دیکھ رکھے ہوں گے۔ اسی طرح آپ مینڈک وغیرہ سے بھی واقف ہونگے، مرغےکے بغیر تو ہماری ہر دعوت ادھوری ہی ہوتی ہے، اور چائے ہو یا کافی اس کا لازمی جز گائے یا بھینس سے ملنے والا دودھ ہوتاہے۔ شارک اور وہیل سے لیکر گائے بھینس تک ان تمام جانوروں میں ایک صفت مشترک ہے وہ ہے ریڑھ کی ہڈی۔ ریڑھ کی ہڈی رکھنے والے جانوروں کو پانچ گروہوں میں تقسیم کیا جاتا ہے، جن میں سب سے پہلے مچھلیاں آتی ہیں جو پانی میں رہتی ہیں وہیں اپنی افزائش کرتی ہیں اور گلپھڑوں کی مدد سے سانس لیتی ہیں۔ اگلا گروہ مینڈک اور اس سے ملتے جلتے جانوروں کا ہے ، ان جانوروں کی زندگی میں خشکی اور پانی دونوں برابر اہمیت کے حامل ہوتے ہیں اگر کوئی ایک بھی میسرنا ہو تو ان کی زندگی کی گاڑی چلنا تقریباً ناممکن ہی سمجھیئے، اس گروہ کو افزائشِ نسل کے لئے پانی میں جانے کی ضرورت ہوتی ہے کہ یہ اپنے انڈے زمین یا خشکی پہ نہیں دے سکتے کیونکہ ان کے انڈے پانی میں ہی رہ سکتے ہیں اور جب ان کے انڈوں سے بچے نکلتے ہیں تو وہ بھی صرف اور صرف پانی میں ہی زندگی گزار سکتے خشکی پہ نہیں، سانس لینے کے حوالے سے ان میں گلپھڑے بھی ہوتے ہیں اور پھیپڑے بھی لیکن زندگی کے مختلف ادوار میں، مینڈک کے بچوں میں گلپھڑے ہوتے ہیں لیکن بالغ مینڈک میں پھیپڑے۔
اس گروہ کے بعد باری آتی ہے مگرمچھ، سانپ، چھپکلی اور کچھووں وغیرہ کی، ان رینگنے والے جانوروں کی اکثریت جیست مگرمچھ اور کچھوے وغیرہ اگرچہ اپنی زندگی کا ایک حصہ پانی میں گزارتے ہیں لیکن مینڈک وغیرہ کے مقابلے میں انھیں افزائشِ نسل کے لئے پانی پہ انحصار نہیں کرنا ہوتا، ان کے انڈوں میں خشکی میں زندہ رہنے کی صلاحیت ہوتی ہے اور ان (مثلاً سانپ اور چھپکلی وغیرہ)کے انڈوں سے نکلنے والے بچے تو ساری زندگی ہی پانی کا منہ تک نہیں دیکھتے ہیں، ان جانوروں میں گلپھڑے بالکل بھی نہیں پائے جاتے ہیں نا بچوں میں اور نا ہی بالغ جانوروں میں۔ اگلا گروہ پرندوں کا آتا ہے جس میں بھی گلپھڑے نہیں ہوتے اور مکمل طور پہ خشکی کے جانوروں کے طور پہ ان کا شمار ہوتا ہے، ان کے انڈوں سے ہم زیادہ واقف ہیں کیونکہ ناشتہ میں جو کھاتے ہیں، پرندوں اور مگرمچھ وغیرہ کے انڈوں میں بھی فرق ہوتا ہے کہ مگرمچھ کے انڈوں کی بیرونی سطح چمڑے کی سی ہوتی ہے جبکہ پرندوں کے انڈے کیلشئم کی ٹھوس سطح میں بند ہوتے ہیں جو انھیں زیادہ محفوظ بناتے ہیں۔ پرندوں کے بعد نمبر آتا ہے دودھ پلانے والے جانوروں یعنی ممالیہ کا جن میں انسان سے لیکر گائے ،بھینس، بکری ہاتھی، گینڈا، شیر چیتا، ذرافہ، ہرن وغیرہ سب کے سب جانور آجاتے ہیں، ان میں انڈے دینے کی بجائے اپنے بچوں کی پیدائش ہوتی ہے، اور پیدائش کے بعد یہ اپنے بچوں کو دودھ پلا کر ان کی نشونما اور دیکھ بھال کرتے ہیں۔
اس پوری تفصیل کا مقصد آپ کو صرف زمین پہ موجود جانداروں کی تقسیم سمجھانا نہیں ہے بلکہ ریڑھ کی ہڈی والے جانوروں کا آپس کا تعلق اور رشہ بھی بتانا مطلوب ہے۔ ہم نے دیکھا کے کیسے زندگی نے پانی سے خشکی کا سفر کیا۔ ابتدا میں یہ جانور گلپھڑوں سے سانس لیتے تھے پھر آہستہ آہستہ جیسے جیسے یہ خشکی کے عادی ہوتے گئے ویسے ویسے گلپھڑوں کا استعمال کم تر ہوتا چلا گیا۔ ابتدائی دونوں گروہ کُلی طور پہ پانی کی موجودگی میں انڈے دے سکتے تھے جس کے باعث وہ پانی سے زیادہ دور رہنے کے قابل نہیں تھے۔ اس سفر کی تیسری کڑی میں مگرمچھوں اور دیگر جانوروں کے انڈوں میں ہونے والی ساخت کی بنیادی تبدیلیوں نے انھیں پانی پہ انحصار سے آزاد تو کیا لیکن اب بھی ان میں سے کئی جانور جیسے مگرمچھ، کچھوے وغیرہ اپنی خوراک کے لئے پانی میں ہی رہنے کا انتخاب کرتے ہیں۔ لیکن اگلی منزل میں تو پرندوں نے نا صرف پانی سے چھٹکارا حاصل کرلیا بلکہ اپنی اڑنے کی صلاحیت کی بدولت آسمانوں کے دروازے کھول لئے۔ آخری منزل ممالیہ جانوروں کی صورت میں خشکی پہ ایسی متمکن ہوئی کہ برفانی چٹانوں سے لیکر تپتے صحراوں تک آپ کو ممالیہ ہر جگہ ملتے ہیں۔
اگر ہم سائنس دانوں کے اس دعوے کو درست سمجھیں کہ وہیل ممالیہ ہے اور شارک مچھلی تو پھر تو وہیل کو تو شیر اور چیتے کے زیادہ قریب اور مماثل ہونا چاہیئے اور شارک کو مگرمچھ اور کموڈو ڈریگن کے۔ آئیے یہ یہ دیکھتے ہیں کہ کیا واقعی شار ک اور وہیل ایک دوسرے سے اتنے ہی دور ہیں جتنا کہ یہ استدلال ہمیں بتا رہا ہے۔ اس استدلال کو پرکھنے کے لئے ہمیں کوئی خاص سائنسی تجربہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے ہم صرف دو چیزوں کا تقابل کر لیتے ہیں کہ ان چاروں شارک، مگرمچھ، وہیل اور چیتے کا حرکت کرنے کا انداز کیسا ہے اور ان کے اگلے بازوؤں کی اندونی ساخت کیسی ہے۔
پہلے بات کرتے ہیں حرکت کی، اگر آپ نے کبھی ٹی وی یا ویڈیوز میں غور سے دیکھا ہو کہ شارک اور وہیل کی دُموں میں ایک بنیادی فرق ہوتا ہے۔ شارک کی دم اوپر نیچے کھڑی ہوئی ہوتی ہے جبکہ وہیل یا ڈولفن کی دم دائیں بائیں لیٹی ہوئی ہوتی ہے، اگرچہ یہ کوئی اتنا خاص فرق نہیں ہے کہ ان دونوں کی بنیادی ساخت ایک ہی جیسی ہے ہوتی ہے لیکن ابھی آپ صرف اس بات کو ذہین میں رکھ لیں۔ آگے بڑھتے ہیں آپ نے مگرمچھ اور کموڈو ڈریگن کو چلتے ہوئے دیکھا ہوگا ، اگر نہیں دیکھا تو ابھی یوٹیوب پہ دیکھ لیں، یہ دونوں جانور جب چلتے ہیں تو ان کی ریڑھ کی ہڈی دائیں سے بائیں بل کھاتی لہراتی سی نظر آتی ہے جبکہ ان کے مقابلے میں شیر اور چیتے کو جب آپ دوڑتے ہوئے دیکھتے ہیں تو ایسے لگتا ہے کہ یہ چھلانگیں لگا رہے ہیں جسے اردو میں زقند بھرنا یا جست لگانا بھی کہتے ہیں۔ یہاں تک تو بات واضح ہو گئی کہ ان دونوں میں گروہوں کے چلنے کے انداز میں بہت فرق ہے کہ ممالیہ جانوروں کے چلنے میں ان کی ریڑھ کی ہڈی دائیں بائیں نہیں لہراتی جبکہ مگرمچھ وغیرہ میں ان کی ریڑھ کی ہڈی زقند نہیں بھرتی۔
اب اگر سائنس دانوں کا دعویٰ ٹھیک ہے تو اس کا مطلب ہی ہوگا کہ شارک کا تیرنے کا انداز مگرمچھ جیسا ہونا چاہیئے جبکہ وہیل کی تیراکی چیتے کی زقندوں جیسی۔ چلئے دیکھتے ہیں کہ یہ دونوں کیسے حرکت کرتے ہیں اور اس کے لئے ایک بار پھر ہمیں ویڈیوز کا سہارا لینا پڑے گا۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ شارک کا جسم تیرتے ہوئے مگرمچھ یا کموڈو ڈریگن کی طرح دائیں بائیں لہرا رہا ہے جبکہ اس کے مقابلے میں وہیل ایسے تیر رہی ہے کہ گویا پانی میں چھلانگیں لگا رہی ہے۔ یعنی دو میں سے ایک بات نے تو سائنسدانوں کے دعوے کی تصدیق کردی ہے لیکن محض ایک بات پہ تو ہم ان سائنسدانوں کے دعووں پہ آمنا و صدقنا نہیں کہہ سکتے نا کیا پتہ یہ محض اتفاق ہی ہو۔۔۔۔ چلئے وہیل اور شارک کے بازو کی اندرونی ساخت کا جائزہ لیتے ہیں۔ اس مضمون کے آغاز میں ذکر آیا تھا کہ وہیل کا بازو اس انسان سے بھی تقریباً دو گنا بڑا ہوتا ہے تو کیوں نا تفریح کی خاطر وہیل اور شارک کے ساتھ ساتھ انسانی بازو کو بھی اس تقابل میں شامل کریں۔ اب ہمارے پاس تین جاندار ہیں دو سمندر میں رہتے ہیں اور ان کی ظاہری شکل و ساخت تقریباً ایک جیسی ہی ہے جبکہ ایک خشکی کا مکین، جن کی اکثریت نہانے کے علاوہ کبھی پانی میں گئی ہی نہیں ہوتی۔
کوئی بھی معمولی سمجھ بوجھ رکھنے والا شخص تو سرسری مشاہدے سے اسی نتیجے پہ پہنچے گا کہ انسان کا بازو وہیل اور شارک سے بالکل مختلف ہو گا جبکہ ان دونوں کے بازو کی ساخت ایک جیسی ہوگی۔ لیکن پھر ان سائنس دانوں کا کیا کریں کہ اگر ان کی بات درست ہوئی تو پھر تو ہمیں وہیل اور انسانی بازو ایک جیسے ملنے چاہیئں جبکہ شارک کے بالکل مختلف۔ انسانی بازو میں کہنی سے اوپر ایک ہڈی ہوتی ہے جسے انگریزی میں ہیومرس (Humerus) کہتے ہیں، کہنی سے نیچے دو ہڈیاں ہوتی ہیں جن کے نام ریڈیس اور یلنا (Radius & Ulna) ہوتے ہیں، ان کے بعد کلائی کی ہڈیاں ہوتی ہیں جن کو کارپلز ( Carpals) کہتے ہیں، ان کے بعد ہتھیلی کی ہڈیاں میٹا کارپلز (Metacarpals) اور انگلیوں کی ہڈیاں فلینجیز (Phalanges) ہوتی ہیں۔ یہ تو ہوگیا انسانی بازو اب پہلے دیکھتے ہیں شارک کے بازو کو ، اس کو پیکٹورال فِن (Pectoral Fins) کہتے ہیں، یہ شارک کے سر کے قریب پچھلی جانب ہوتے ہیں اور تیرنے کے دوران اوپر نیچے ہونے اور دائیں بائیں مڑنے میں مدد دیتے ہیں۔
اس پیکٹورال فن میں نا تو ریڈیس ہےنا یلنا یا ہیومرس یعنی ہمیں انسانی بازو کی طرح کی ہڈیاں نہیں نظرآتی ہیں جو کہ سمجھ میں آتا ہے کہ دونوں کے طرزِ زندگی میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اب اگر وہیل کے بازو کا جائزہ لیا جائے تو اس میں ہڈیاں نظر آتی ہیں لیکن ویسی نہیں جیسی انسانی بازو میں ہیں۔ یعنی وہیل کا بازو شارک سے تو مکمل طور پہ مختلف ہے لیکن انسانی بازو سےبھی بظاہر کوئی اتنی زیادہ مماثلت ہمیں نہیں ملتی۔ لیکن اگر ہم تھوڑے غور کے ساتھ ان ہڈیوں کی ترتیب کا مشاہدہ کریں تو سائز کے فرق کے باوجود بھی ترتیب بھی ایک ہی جیسی نظر آتی ہے کہ سب سے اوپر ایک ہڈی (ہیومرس)، اس کے نیچے دو ہڈیاں (ریڈیس اور یلنا)، پھر کارپلز ، میٹا کارپلز اور آخر میں فلینجیز۔ اب ظاہر سی بات ہے وہیل کے بازو کی ساخت اس کے مطلوبہ کام تیرنے میں معاون کے حساب سے ہونی چاہیئے اور اسی طرح انسانی بازو کی ساخت اس کی مدد سے اشیاء کو اٹھانے اور پکڑنے کے حساب سے ہے۔ اس حساب سے تو ہمارے دونوں ہی مشاہدے اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ اپنے لحیم شحیم حجم اور سمندری طرزِ زندگی کے باوجود وہیل شارک کی بجائے انسان اور چیتے سے زیادہ مماثل اور قریب ہے۔
اس مضمون میں ہم نے وہیل کے ارتقائی سفر کا دستیاب شواہد کی مطالعہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ ہم نے فوسلز سے بات شروع کی کہ کس طرح خشکی پہ رہنے والے پاکیسیٹیس سے شروع ہونے والا یہ سفر وہیل اور ڈولفنز کی درجنوں اقسام پہ منتہج ہوا ہے۔ وہیل کے اس سفر میں کئی کڑیاں پائی گئی ہیں لیکن یہاں اختصار کی خاطر چند کا ہی ذکر کیا گیا ہے اگر آپ ان کو بارے میں جاننا چاہیں تو انٹرنیٹ پہ اس حوالے سے کافی مواد آپ کو بآسانی مل جائے گا۔
سائنسدان جب بھی کسی جانور کے ارتقائی ماخذ کی تلاش شروع کرتے ہیں تو وہ بھی اسی طرح فوسلز سے ابتداء کرتے ہیں، اس جانور کی اندورنی اور بیرونی ساخت کا مشاہدہ کرتے ہیں، اور اس کے طرزِعمل وغیرہ کو دیکھتے ہیں ۔ اس کی مدد سے وہ اس جانور کے قریبی جاندار کو جان لیتے ہیں کہ ان دونوں میں کون کون سی خصوصیات مشترک ہیں جو کہ ان کے اجدِ امجد سے ان کو ملی ہیں اور کون کون سی خصوصیات مختلف ہیں اور ان کے مختلف ہونے کی کیا وجوہات ہو سکتی ہیں۔ اس کے علاوہ ایک نہایت اہم طریقہ ڈی این اے کا تقابلی جائزہ ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ ڈی این اے میں کسی بھی جاندار کی تمام تر معلومات لکھی ہوئی ہوتی ہیں۔ اگر دو جاندار آپس میں ارتقائی قرابت رکھتے ہوں تو اس کا ثبوت ان کے ڈی این اے میں بھی لازمی ملنا چاہیئے۔ الغرض یہ وہ طریقے ہیں جن کی مدد سے آپ خود جب چاہیں جیسے چاہیں کسی بھی جاندار کے ارتقا ء کا مشاہدہ و مطالعہ کر سکتے ہیں۔
(ختم شد)