ایک حکایت ہے کہ حضرت عمرِ فاروقؓ کے عہدِ خلافت میں مدینہ کا ایک نوجوان جسے شراب کی عادت تھی،کہیں سے  شراب کی بوتل خرید کر اپنے گھر کی جانب رواں دواں تھا کہ اس کی نظر حضرت عمرؓ  پر پڑی جو کہ راستے میں سامنے سے آتے دکھائی دے رہے تھے۔ حضرت عمرؓ  کو اللہ تعالٰی نے ایسا رعب و جلال عطا کیا تھا کہ ان کو دیکھ کر شیطان بھی اپنا راستہ تبدیل کرنے پر مجبور ہو جاتا تھا، تو اس شراب بردار نوجوان کی پریشانی کا اندازہ آپ خود لگانے کی کوشش کیجئے جو کہ شراب کے ساتھ رنگے ہاتھوں پکڑا جانے والا تھا۔ خیر اس نوجوان نے اللہ تعالٰی سے دعا کی کہ  الٰہی اس بار بچا لے آئندہ پینا تو دور کی بات کبھی ہاتھ بھی نہیں لگاؤں گا۔  جیسے جیسے حضرت عمرؓ قریب آتے جارہے تھے ویسے ویسے اس نوجوان کے دل کی دھڑکن تیز تر ہوتی جا رہی تھی اور آخرکار وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ حضرت عمرؓ نے نوجوان سے پوچھا کہ اس میں کیا ہے جس پر اس نے جواب دیا کہ سرکہ، حضرت عمرؓ نے کہا کہ دکھاؤ ۔ اب امیر المومنین کو انکار کرنے کی جرات بھلا کس میں تھی لہٰذا چاروناچار بوتل دکھانی ہی پڑی اور ساتھ ہی ساتھ اللہ تعالٰی سے شدت کے ساتھ دعائیں بھی۔ اللہ تعالٰی نے اس کی سچے دل سے کی گئی توبہ کو قبول کرلیا تھا کیونکہ جب حضرت عمرؓ نے بوتل کو چیک کیا تو اس میں سرکہ ہی موجود تھا، اس طرح وہ نوجوان ایک طرف تو کوڑوں کی سزا سے بچ گیا تو دوسری جانب اس نے اللہ تعالٰی کے ساتھ کیا ہوا اپنا وعدہ پورا کیا اور پھر کبھی شراب کے قریب تک نہیں گیا۔

اس بحث سے قطع نظر کہ آیا یہ کوئی معجزہ تھا یا کرامت یا محض اتفاق، آئیے یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ شراب کے سرکے میں تبدیل ہونے کے اس عمل کا آج کل ہماری روزمرہ زندگیوں پر کتنا گہرا اثر ہوتا ہے۔ شراب عملِ تخمیر سے بنتی ہے، خمیر پھلوں اور اجناس میں موجود کاربوہائیڈریٹس (شکر) کو الکوحل میں تبدیل کرتے ہیں۔ اس عمل میں خمیر اور دوسرے جراثیم اس شکر سے اپنے لئے توانائی حاصل کرتے ہیں اور شکر کے سالموں (مالیکیولز) میں آکسیجن شامل کرتے ہیں۔ آکسیجن شامل کرنے کے اس کیمیائی عمل کو آکسیڈیشن کہتے ہیں۔ اگر شراب یعنی الکوحل بننے کے بعد بھی یہ آکسیڈیشن کا عمل جاری رہے تو اس کا نتیجہ سرکے کی شکل میں نکلتا ہے۔

شکر + آکسیجن← شراب + آکسیجن← سرکہ

آپ نے کبھی نہ کبھی اس امر کا یقیناً مشاہدہ کیا ہی ہوگا کہ خمیری نان کے لئے گوندے گئے آٹے کو اگر زیادہ دیر کے لئے چھوڑ دیا جائے تو آٹے میں کھٹاس آجاتی ہے اور ذائقہ خراب ہو جاتا ہے۔ یہ خمیر ہونے کے دوران آکسیڈیشن کی زیادتی کی وجہ سے ہی ہوتا ہے۔

اپنے پچھلے مضمون میں میں نے ڈاکٹر جان سنو کے تجربات کا احوال بیان کیا تھا کہ کیسے انھوں نے ہیضہ کی وبا کی وجہ اور پھیلاؤ کے اسباب پر کام کیا اور لوگوں کو اس سے بچانے کے لئے اپنی زندگی کے بیس پچیس سال صرف کئے۔ اس وقت تک بیماریوں اور ان کے پھیلاؤ کو خراب آب و ہوا اور زہریلی گیسوں اور بخارات وغیرہ سے منسلک کیا جاتا تھا۔ میازمہ ایک قدیم یونانی نظریہ تھا جو کہ حفظانِ صحت کے اصولوں کے حساب سے تو بظاہر درست معلوم ہوتا تھا مگر درحقیقت غلط تھا۔ جان کے تجربات نے اگرچہ ثبوت فراہم کردئیے تھے کہ میازمہ وغیرہ کچھ نہیں ہوتا بلکہ انسان کو لاحق ہونے والی بیماریوں کی ٹھوس مادی وجوہات ہیں جن سے بچنا انسان کے اپنے ہاتھ میں ہی ہوتا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ جان کی ناگہانی موت کے کچھ عرصے بعد لندن شہر کے لئے باقائدہ سیورج کا ایسا جامع نظام تعمیر کیا گیا جو کہ آج بھی مستعمل ہے۔ لیکن اس منزل تک پہنچنے کے لئے دو اشخاص کی سائنسی خدمات کا ذکر کرنا ضروری ہے۔

شراب، سرکہ اور دودھ 1

جس وقت جان لندن میں ہیضے کی وبا کا تعلق براڈ سٹریٹ پمپ سے جوڑ رہے تھے اسی اثنا میں فرانسیسی شراب فروشوں کو ایک سنگین مسئلہ لاحق تھا۔ ان کی بنائی ہوئی شراب جو انگلستان میں کافی مقبول تھی، اب یکایک سخت ناپسند کی جانے لگی تھی۔ اس کی وجہ اس کی خراب بو اور بے انتہا برا ذائقہ تھا، انگلستان کے مے نوش فرانسیسی برآمدکنندگان سے سخت نالاں تھے۔  انگریزوں اور فرانسیسیوں کے درمیان صدیوں سے جاری کشمکش کے باعث یہ فرانسیسیوں کے لئے قومی وقار کا مسئلہ بن چکا تھا۔ لیکن کسی کو اس مسئلے کی سمجھ ہی نہیں آرہی تھی کہ وہ اچھی بھلی شراب فرانس سے انگلستان بھجواتے جو وہاں پہنچتے پہنچتے بدذائقے سرکے میں کیسے تبدیل ہوجاتی تھی۔ بآلاخر اس معمے کے حل کے لئے شاہِ فرانس نے ایک سائنسدان لوئی پاسچر کو حکم دیا۔

بحیثیتِ کیمیا دان لوئی پاسچر کو عمل تخمیر اور آکسیڈیشن کا بخوبی علم تھا مگراس عمل کے اسباب کا پتہ لگا نابھوسے کے ڈھیر میں سے سوئی نکالنے کے برابر تھا۔ لوئی پاسچر نے اپنے کام کی شروعات انگوروں کے باغات سے کی، پھلوں سے لیکر آنے والے کیڑوں اور مٹی کے نمونوں تک ہر طرح کے تجربات کرنے کے بعد بھی جب کوئی نتیجہ نہ نکلا تو ایک دن لوئی کا خیال شراب میں جراثیم کی ممکنہ موجودگی کی جانب گیا۔

شراب، سرکہ اور دودھ 2

اپنے اس خیال کو پرکھتے ہوئے جب ٹھیک اور خراب دونوں شرابوں کا خوردبین کے زریعے معائنہ کیا تو لوئی کا اندازہ  درست ثابت ہوا۔ بد ذائقہ شراب میں لوئی کو جراثیم کی کثیر تعداد نظر آئی۔  کچھ مزید تجربات سے لوئی نے اس بات کی تصدیق کرلی کہ واقعی یہ جراثیم ہی شراب کو خراب کرنے کے ذمہ دار ہیں۔ اب اگلے مرحلے پر ان جراثیم کا سدباب کرنا مقصود تھا لیکن اس کی تفصیل سے پہلے شراب بنانے کا عمل تھوڑا سا بیان کرنا سمجھنے کے لئے مفید رہے گا۔ شراب بنانے کے لئے پھلوں وغیرہ کو گھوٹ کر اس میں خمیر شامل کر کے ہلکی سی آنچ پر رکھ دیا جاتا ہے کہ خمیر ایک مخصوص درجہ حرارت پر شکر کو الکوحل میں تبدیل کرنے لگے۔ اس عمل میں زرا سی بھی بے پروائی یا درجہ حرارت میں معمولی سی بھی اونچ نیچ سے شراب کی نشہ آوری اور ذائقہ دونوں کا کباڑہ ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ لوئی شراب کو ابال نہیں سکتا تھا کیونکہ ابالنے سے جراثیم نے تو مر ہی جانا تھا مگر ساتھ ہی شراب نہ پینے کے لائق رہنی تھی نہ بیچنے کے قابل ۔ اب اس مسئلے کے حل کے لئے لوئی نے نہایت محنت اور سر توڑ کوششوں کے بعد ایک ایسی تکنیک ایجاد کی جس کی مدد سے کسی بھی مشروب چاہے وہ شراب ہو یا پھلوں کا رس یا پھر دودھ ان میں موجود ضرر رساں جراثیم کو بسہولت تلف کیا جا سکتا ہے۔ اس تکنیک کو لوئی پاسچر کی مناسبت سے پاسچرائیزیشن کہا جاتا ہے اور آج بھی دودھ و دیگر حساس مشروبات کی تیاری میں یہ شامل ہے۔ اس تکنیک میں مشروب  کو 55 ڈیگری  سینٹی گریڈ پر گرم کیا جاتا ہے  جس سے اس میں موجود جرثومے مر جاتے ہیں ۔ (شائد یہی وجہ ہے کہ اردو محاورے میں ‘دوآتشہ ‘ مطلب دو بار گرم کی گئی،  شراب کے سرور اور خمار آوری کی تعریف آئی ہے۔)

شراب، سرکہ اور دودھ 3

پاسچرائیزیشن کی تکنیک پر کام کرتے کرتے  لوئی کو ایک خیال سوجھا کہ اگر یہ جرثومے شراب کو خراب کر سکتے ہیں تو کیا انسانوں میں ان کی موجودگی کوئی مضرِ صحت اثر یا بیماری کی شکل میں برآمد ہو سکتی ہے یا نہیں۔  جیسا کہ پہلے بھی ذکر ہوچکا ہے کہ یہ بیماریوں  کا  جراثیمی نظریہ کچھ عرصے سے سائنسی اور طبی حلقوں میں زیرِ بحث تو تھا   مگر اس کی حمایت میں ثبوت نہ ہونے کے برابر تھے جس کے باعث لوگ اسے اپنانے میں ججھک کا شکار تھے۔ لوئی کے خیال میں اس کے پاس ایک سنہری موقع تھا کہ وہ اپنے شراب والے تجربے کو بروکار لاتے ہوئے  پہلی بار حتمی طور پر ثابت کر سکے کہ جراثیم ہی بیماریاں پھیلانے کے ذمہ دار ہیں، لیکن قدرت کو شائد کچھ اور ہی منظور تھا۔ جرمنی میں ایک سائنسدان نے ایک سادہ سے تجربے سے ساری دنیا کو حیران کر دیا۔ (جاری ہے)

Dr. Muhammad Ibrahim Rashid Sherkoti

Hi, I am a Ph.D. in biotechnology from National University of Sciences and Technology, Islamabad. I am interested in biotechnology, infectious diseases and entrepreneurship. You can contact me on my Twitter @MIR_Sherkoti.