گھر کا بھیدی لنکا ڈھاۓ۔۔۔

تجوری تک پہنچنے کے لیے جو سکیورٹی تھی بظاہر اس میں کوئی بھی نقص نظر نہیں آتا تھا۔۔ 10 سال کا تجربہ ہوتے ہوۓ بھی اس کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ لیزر ٹیکنیک اور کیمروں کی موجودگی میں کیسے تمام راستے عبور کرتا ہوا تجوری تک پہنچے۔۔۔ اس کا مقصد دولت یا سونا نہیں، صرف ایک صفحے پر مشتمل وہ مخصوص معلومات تھیں جس کے ذریعے ملک کا بے حد اہم راز پتا چل سکتا تھا۔۔ بظاہر نا ٹوٹ سکنے والی سکیورٹی کو عبور کرنے کا واحد ذریعہ ایک ہی تھا۔۔۔ *گھر کا بھیدی*… اگر کوئی ایک بھیدی غداری پر آمادہ ہوجاتا، تو وہ اندر جاۓ بغیر بھاری رقم دے کر اس ایک صفحے پر موجود انفارمیشن حاصل کر سکتا تھا۔۔۔ ایک ماہ کی انتھک کوششوں کے بعد آخرکار اس نے بھیدی تلاش کر ہی لیا اور پھر ایک دن۔۔۔۔
(جاری ہے)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈی این اے کے مالیکیول پر ہزارہا جینز میں سے کسی ایک کو تلاش کرنا بے حد مشکل ہے۔۔۔ پچھلے دور میں مخصوص اینزائمز جنہیں nucleases کہا جاتا ہے، کے ذریعے ڈی این اے کو توڑا جاتا تھا لیکن تب بعض اوقات جینز پورے کٹنے سے رہ جاتے تھے یا ضرورت سے زیادہ علیحدہ ہوجاتے تھے۔۔۔ ایسی صورت میں حاصل کردہ جین سے مطلوبہ نتیجہ حاصل کرنا ایک سوہان روح ہوجاتا تھا۔۔۔ ایسے میں کسی ایسے اینزائم کی تلاش تھی کہ جو جین کی ساخت کو بھی نا چھیڑے اور ہمیں ہمارا مطلوبہ جین بھی حاصل ہوجاۓ۔۔۔ ایسی صورت میں کسی ماڈرن ٹیکنیک کی بے حد ضرورت تھی۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وائرس ایک بہت ہی مختصر سی شکل والا ایسا نمونہ ہے جسے نا زندہ کہہ سکتے ہیں نا ہی مردہ، یہ کسی بھی جاندار (بیکٹیریا سے لے کر انسان تک) کو جان سے مار سکتا ہے۔۔۔ یہ بنیادی طور پر پروٹین سے بنا ہوا ایک ایسا بریف کیس ہے جس کے اندر اپنے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے چند اینزائمز اور اصل کام کی شے یعنی ڈی این اے موجود ہوتا ہے۔۔۔ کسی بھی جسم میں داخل ہو کر یہ اپنے ڈی این اے اور اینزائمز کے ذریعے اس کے خلیوں کو کنٹرول کرتا ہے، انہیں بے کار کر کے اپنے مقاصد حاصل کرتا ہے۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔
بیکٹیریا یک خلوی جانداروں میں آتا ہے جس کا خلیہ ہمارے جیسے جانداروں کی نسبت مختصر اور کم پیچیدہ ہوتا ہے۔۔۔ وائرس اپنے بیماری پھیلانے کے لحاظ سے بیکٹیریا کو بھی نہیں چھوڑتے بلکہ اپنا ڈی این اے بیکٹیریا میں داخل کر کے اس کا بھی تیا پانچا کر چھوڑتے ہیں۔۔۔
اگر بیکٹیریا کو وقت پر نا پتا چلے تو وائرس بیکٹیریا کے خلیے کو قابو کر کے اس کو ختم کر دیتا ہے، لیکن اگر بیکٹیریا کو پتا چل جاۓ تو بیکٹیریا فوری طور پر وائرس کے ڈی این اے کو سکین کر کے اس کے کسی بھی خاص حصے کے خلاف ایک آر این اے بناتا ہے، یہ آر این اے، ڈی این اے کے اس مخصوص حصے کا ہو بہو الٹ ہوتا ہے (اور ہمیں پتا ہے کہ ڈی این اے مالیکیول کے دو دھاگے ہوتے ہیں جو ایک دوسرے کے بالکل الٹ ہوتے ہیں، اور یہ الٹ ہونے کی وجہ سے ایک دوسرے سے جڑے رہتے ہیں)۔۔۔ بیکٹیریا، وائرس کے خاص حصے کے خلاف آر این اے بنا کر اس آر این اے کو ایک مخصوص پروٹین کے حوالے کر دیتے ہیں، جسے Cas9 کہا جاتا ہے۔۔۔ یہ پروٹین کوئی عام پروٹین نہیں، بلکہ ڈی این اے کو کاٹنے والا اینزائم ہے۔۔
قصہ کچھ یوں بنتا ہے، کہ Cas9، وائرس کے ڈبل دھاگے والے ڈی این اے کے دونوں دھاگوں کو کھول دیتا ہے، اور بیکٹیریا کا بنایا ہوا آر این اے، وائرس کے اس مخصوص حصے سے جا کر جڑ جاتا ہے، جس کے خلاف وہ بنا ہوتا ہے۔۔۔ جیسے ہی آر این اے، وائرس کے ڈی این اے سے جڑ جاتا ہے، Cas9، جو آر این اے کے پیچھے پیچھے آیا تھا (گویا آر این اے اس کا گائیڈ تھا)، وائرس کے ڈی این اے کے اتنے حصے کو کاٹ دیتا کے اور وائرس اب انفیکشن نہیں کر سکتا۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔

انسانی ڈی این اے میں سے ہمیں اگر کسی ڈی این اے کے ٹکڑے (جین) کو ڈالنا ہے، یا نکالنا ہے، تو اس کے لیے ماڈرن دنیا میں، ہمیں اس جین کے الفاظ (نیوکلیوٹائیڈ) کی ترتیب جاننا ضروری ہے۔۔۔ اگر ہم اس جین کی ترتیب جانتے ہیں، تو ہم بالکل بیٹکیریا کی طرح اس جین کے الٹ آر این اے بنا سکتے ہیں، یہ آر این ہم بیکٹیریا سے حاصل شدہ Cas9 سے جوڑ دیں گے۔۔۔ یہ Cas9 + RNA ہم اپنے خلیے میں ڈال دیتے ہیں، اور وہ آر این اے جس بھی جین کا الٹ ہوتا ہے، اس سے جا کر جڑتا ہے، اور، بالکل جیسے بیکٹیریا وائرس کا ڈی این اے کاٹتا ہے، Cas9 ہمارا ڈی این اے کا وہ مخصوص حصہ، جس کی رہنمائی آر این اے کر رہا ہوتا ہے، آر این اے کے جڑنے کے بعد کاٹ ڈالتا ہے۔۔۔ اس کے چیدہ چیدہ مندرجہ ذیل فائدے ہیں۔۔
1. ہم جین کاٹ کر یہ دیکھ سکتے ہیں کہ اس کے کٹنے سے کیا اثر ہوگا
2. ہم اس کٹے ہوئے حصے کی جگہ دوسرا جین بھیج کر لگوا سکتے ہیں۔۔۔
یہ آر این اے تب تک ہمارے ٹارگٹ جین تک نہیں پہنچ سکتا جب تک ہمیں اس جین کی ترتیب کا نہیں پتا، پتا ہوگا تبھی تو وہ آر این اے ہم بنائیں گے اور وہ Cas9 کو اس مخصوص جین تک لے جائیگا۔۔۔ اسی ٹیکنالوجی کو CRISPR-Cas9 ٹیکنالوجی کہتے ہیں۔۔۔ اور اس کے ذریعے ہم اب بہت سے مقاصد جیسے جین تھیراپی کا مقصد بھی حاصل کرتے ہیں۔۔۔
سمجھ آئی؟ لیکن ٹھہریے، یہ تو گھر کا بھید (جین کی ترتیب) کھلا تو ہم آر این اے بنا کے وہاں بھیج سکے، اور ہم نے انفارمیشن چرائی۔۔۔ یعنی گھر کا بھیدی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔
(کہانی کا بقیہ حصہ)
ایک دن اس نے اس غدار کو پیسے دے کر ہیڈ کوارٹر کے اندر بھیجا اور رازوں والی فائل چرا لی۔۔۔ اس فائل کے چرا لینے کے بعد اب وہ بہت سے مقاصد حاصل کر سکتا تھا۔۔۔

راقم: حنان عبد الخالق

:Reference
Campbell Biology 11th edition (2017) chapter: 20

:To understand, consult the following youtube animation

 
Genome Editing with CRISPR-Cas9

Hannan A. Khaliq

Zoology/Biology Lecturer Topics of interest: All Zoology/Biology but especially Evolution, Physiology, Genetics, Microbiology, Ecology M.Phil Zoology (Specialization in Ecology) from University of The Punjab Quaid E Azam Campus