ناجانے کیوں بچپن میں مجھے سندباد جہازی کی کہانیوں میں بے پناہی دلچسپی ہوتی تھی۔ کسی زمانے میں سندباد کے کارٹون بھی آیا کرتے تھے جو میں بہت شوق سے دیکھا کرتا تھا۔ اپنے بحری سفروں کے دوران کسی ایک جزیرے پہ سندباد کا سامنا ایک بہت بڑے پرندے سے ہوتا ہے۔ کارٹون میں تو اس پرندے کو عقاب سے مشابہ دکھایا گیا تھا جو غالباً جواہرات سے بھری ایک وادی کے آس پاس پڑاؤ کئے ہوئے تھا۔ سندباد اپنی عقل کی مدد سے اس پرندے کو استعمال کرتے ہوئے اس دشوار گزار وادی سے نکل آتا ہے اور اپنے ساتھ بیش قیمت ہیرے موتی اور جواہرات بھی ساتھ لے آتا ہے اور شائد بغداد کا امیر ترین شخص بن جاتا ہے۔ یہ کہانی اور دیوقامت پرندہ ،جس کو کہانی میں ‘رُخ’  (Roc) کا نام  دیا گیا تھا، میرے دماغ میں ایسا گھر کرگئے کہ آج بھی مجھے یاد ہیں۔

اس سے پہلے کہ میں اس مضمون کی شان نزول بیان کروں ،یہ بتانا مناسب رہے گا  کہ اگرچہ سندباد ایک افسانوں کردار ہے جو تجارت کی غرض سے بحری سفر کرتا تھا لیکن اس کردار کی تخلیق اپنے اندر عرب ملاحوں اور جہاز رانوں  کی صدیوں طویل بحری تجارت کی تاریخ سموئے ہوئے ہے۔ عرب ملاح سینکڑوں برسوں تک بحیرہ احمر سے لیکر جزائر غرب الہند اور آگے چین تک تجارتی سفر کیا کرتے تھے۔ وہ ان علاقوں سے گرم مصالحے، ریشم اور دیگر مصنوعات لاتے اور انھیں یورپیوں کو بیچ کر منافع کماتے۔ ان سینکڑوں برسوں میں کسی نا کسی ملاح کو کہیں نہ کہیں عجیب وغریب جزائر، پودے، جانور اور پرندے وغیرہ دیکھنے کا اتفاق لازمی ہوتا ہوگا اور نسل در نسل اس عجیب اور حیرت انگیز واقعہ ایک دیومالائی قصہ کہانی کی شکل اختیار کرتا چلا گیا اور یوں ہمارے پاس سندباد جہازی کا کردار اور اس کے حیرت انگیز قصے وجود میں آئے۔  عام طور پہ ایسی کہانیاں اسی طرح وجود میں آتی ہیں ۔  ایک لمبے عرصہ تک میں یہی سمجھتا رہا کہ کسی ملاح نے کوئی معمول سے بڑے سائز کا پرندہ دیکھا ہوگا اور اس کا  ذکر ہر دفعہ  بڑے سے بڑے سائز کے ساتھ ہوتا گیا اور یوں ایک بہت بڑے پرندے کا ذکر سندباد کے قصوں میں شامل ہوگیا۔ اس بارے میں کچھ  نقادوں کا خیال تھا کہ کسی ملاح نے شتر مرغ کو پہلی بار دیکھا ہوگا اور اسے کسی بڑے سائز کے پرندے کا چوزہ سمجھا ہوگا اور عین ممکن ہے کہ یوں اس قصے کی ابتدا ہوئی ہو۔

سندباد جہازی اور جزیرے کا پرندہ 1

ایسے دیوقامت پرندوں کا تذکرہ صرف سندباد یا الف لیلیٰ جیسی کہانیوں میں نہیں موجود بلکہ دنیا بھر پائی جانے والی مختلف تہاذیب کے دیومالائی قصےسمندروں میں موجود جزائر میں عجیب الخلقت جانوروں اور بہت بڑے پرندوں  کے ذکر سے بھرے پڑے ہیں۔ ایسے ہی نیو زی لینڈ  کے اصل باشندوں کے ہاں پاؤکائی (Poukai) نامی ایک بہت بڑے عقاب نما پرندے کا ذکر ملتا ہے  جو انسانوں کا شکار کرتا تھا۔  اسی طرح ہیری پوٹر فلم سیریز میں فونیکس (Phoenix)  پرندے کا ذکر ملتا ہے  جو کہ بہت زیادہ طاقتور اور جادوئی صلاحیتوں کا حامل ہوتا ہے۔ فونیکس کے تذکرے کی ابتدا قدیم مصر سے  ہوئی اور بعدازاں  کئی مغربی دیومالائی قصوں میں اس کو شامل  کر لیا گیا۔

سندباد جہازی اور جزیرے کا پرندہ 2

پہلا سوال جو پیدا ہونا چاہیئے وہ تو یہ ہے کہ کیا یہ سب کے سب محض حضرتِ انسان  کے تخیلات   کے کرشمے ہیں یا پھر ایسے کوئی جاندار واقعۃً ہماری زمین پہ کبھی موجود بھی تھے؟  اور  دوسرا سوال کہ آخر ایسے دیوقامت پرندوں کا ذکر محض جزیروں کے ساتھ ہی کیوں منسوب ہے؟ اگر کوئی پرندہ واقعۃً اتنا بڑا ہے تو اس کو تو پرواز کرتے پوری دنیا  میں  ہر جگہ دکھائی  دینا چاہیئے ۔ کیوں کہ آج بھی دنیا بھر کے پرندے ہزاروں میل لمبی مسافتیں سال میں دوبار تو طے کرتے ہی ہیں گرم اور سرد علاقوں کے درمیان۔

ان تمام  تر قصوں کہانیوں  اور سوالوں کے   درمیان ‘رُخ’ کے حوالے سے لاشعوری طور پہ ہی صحیح لیکن میرا تجسس ہمیشہ ہی برقرار رہا ہے۔  ایک دن ایک ہالی وڈ کی فلم دیکھنے اتفاق ہوا جس میں ہیرو اور اس کے ساتھی ایک پُراسرار جزیرے میں پھنس جاتے ہیں جہاں فلم کی کہانی کے مطابق عجیب و غریب جانوروں اور حالات سے ان کا پالا پڑتا ہے۔ ایک چیز جس نے مجھے کافی حیران کیا وہ تھا جانوروں کا سائز، اس جزیرے پہ خرگوش جتنی جسامت کے ہاتھی اور اژدھے جتنے بڑے کن کھجورے دکھائے گئے تھے۔اگر محض جزیرے  کی پراسراریت ہی بتانا مطلوب تھا تو الٹی سیدھی شکلوں کے جاندار دکھائے جا سکتے تھے صرف  ان کا سائز چھوٹا بڑا کرنا چہ معنی دارد!

سندباد جہازی اور جزیرے کا پرندہ 3

خیرتجسس کے ہاتھوں مجبور ہو کر اس حوالے سے  مطالعہ شروع  کرنے کا فیصلہ کیا ۔ اس کی ابتدا چھوٹے سائز  والے ہاتھیوں کے بارے میں گوگل سرچ  سے کی۔ گوگل سے ملنے والی معلومات میرے  لئے نہایت حیران کن تھیں۔ کسی زمانے میں بحیرہ روم کے جزائر جیسے سسلی، کریٹ اور مالٹا وغیرہ میں چھوٹے سائز کے ہاتھی پائے جاتے تھے۔ ان ہاتھیوں کے ڈھانچوں کے معائنے سے سائنس دانوں کو معلوم ہوا کہ ان کی انچائی 4 سے 5 فٹ کے درمیان تھی، یعنی ایک درمیانے قد کے انسان کے برابر ۔  مزید مطالعے سے پتہ چلا کہ یہ معاملہ صرف ہاتھیوں تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ اور بھی کئی ایسے ‘بونےجانوروں’ کی اقسام دریافت ہوئی ہیں جن کا سائز ان کے نارمل قدو قامت سے چھوٹا پایا گیا ہے۔  گرگٹ کے بارے میں تو آپ سب  جانتے ہی ہوں گے ایک عام گرگٹ کی لمبائی اوسطاً 15 سے 25 انچ ہوتی ہے لیکن براعظم افریقہ کے پڑوس میں واقع مڈغاسکر  جزیرے میں گرگٹ کی ایک ایسی قسم پائی جاتی ہے جس کی لمبائی ایک انچ سے بھی کم  ہے (0.9 انچ) مطلب  بیس پچیس گنا چھوٹا  گرگٹ جو آپ کی انگلی کے پور پہ سما جائے۔

سندباد جہازی اور جزیرے کا پرندہ 4

یہاں تک تو بات واضح ہو چکی تھی کہ جزائر پہ جانوروں کا سائز ایسا نہیں رہتا جیسا کہ کسی براعظم پہ ہوتا ہے یہ سائز چھوٹا ہونے والا رجحان آئی لینڈ ڈوارف ازم (Island Dwarfism) کہلاتا ہے  ۔ سائنس دانوں کے مطابق بہت سارے جاندار جو کہ براعظم پہ بڑے قدوقامت رکھتے  ہیں اگر وہ کسی بھی وجہ سے کسی جزیرے میں پھنس جائیں کہ انھیں واپس اپنے آبائی براعظم  جانے کی رسائی نہ مل سکے  تو ان کا سائز وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کم ہوتا چلا جاتا ہے ۔ اس کی آپ کو درجنوں مثالیں وکیپیڈیا پہ مل جائیں گی۔

سندباد جہازی اور جزیرے کا پرندہ 5

ان ٹھگنے جانوروں کے بارے میں پڑھتے ہوئے مڈغاسکر  میں سترہویں صدی تک پائے جانے والے دیوقامت پرندے فیل مرغ (Elephant bird) کا پتہ چلا ۔ یہ پرندہ شتر مرغ کی طرح کا پرندہ تھا جو کہ  اڑنے کی صلاحیت سے محروم تھا اورسہولویں سترہویں صدی تک صرف مڈغاسکر میں پایا جاتا تھا ۔ فیل مرغ کے ملنے والے ڈھانچوں  اور انڈوں کے خولوں کے  مطالعہ سے سائنس دانوں نے اس امر کا اندازہ لگایا ہے کہ  اس کی انچائی تقریباً 10 فٹ ہوا کرتی تھی اور اس کے انڈوں کا سائز بھی تقریباً 3  فٹ تک ہوتا تھا۔   اسی طرح نیو زی لینڈمیں بھی دنیا کا سب سے بڑا عقاب پایا جاتا تھا۔ تیرہویں صدی تک پایا جانے والا حآست عقاب نامی یہ پرندہ  موجودہ عقابوں میں سب سے بڑے عقاب سے بھی تقریباً ڈیڑھ  دوگنا بڑی جسامت کا حامل تھا۔

سندباد جہازی اور جزیرے کا پرندہ 6

ان پرندوں کے بارے میں پڑھ کر میرا خیال سیدھا سندباد اور ‘رخ’ والے قصے کی طرف چلا گیا۔یہ دونوں پرندے بحری تجارت کے راستے میں نہیں پائے جاتے تھے کہ مڈغاسکر بحرِ ہند کے بالکل آخری کنارے  پہ واقع ہے اور نیو زی لینڈ بحر الکاہل  کے کونے میں۔ جس زمانے میں یہ پرندے پائے جاتے تھے وہ عربوں کی جہاز رانی کا عروج تھا،  ان کی منزل ہندوستان، جزائر غرب الہند  (انڈونیشیا، ملیشیا) ، اور چین وغیرہ ہوا کرتی تھی۔  عین ممکن ہے کہ اپنے تجارتی سفر  کے دوران کسی طوفان میں پھنس کر یا راستہ بھٹک کر کوئی جہاز ران مڈغاسکر یا نیوزی لینڈ پہنچ گیا ہو  اور وہاں اس کا ٹاکرہ ‘رخ’ کے ساتھ ہوگیا ہو اور یوں ‘رخ’ کے قصہ  کی ابتدا ہوئی ہو۔

سندباد جہازی اور جزیرے کا پرندہ 7

اپنے پہلے سوال کا جواب تو ہمیں مل گیا کہ وا قعی دیو قامت پرندے ماضی قریب(یعنی3-4صدیوں پہلے ) تک ہماری زمین پہ پائے جاتے  تھے، لیکن کیا وجہ ہے کہ ایسے پرندے یا جاندار صرف دور افتادہ جزیروں تک ہی کیوں محدود تھے اور اسی کے ساتھ ایک چھوٹا سا ضمنی سوال بھی اٹھتا ہے کہ یہ Island Dwarfism  اور Island Gigantism کی تُک اور منطق  کیا ہے، کیوں جانداروں کا سائز محض ان کا آبائی علاقہ تبدیل ہونے سے بڑھنے یا گھٹنے لگتا ہے؟ پہلے بات کرتے ہیں ان ٹھگنے ہاتھیوں کی جو بحیرہ روم کے جزیروں میں پائے جاتے تھے۔ تاریخی اور ارضیاتی شواہد کی مدد سے ہم جاتے ہیں کہ گزشتہ آئس ایج (Ice age) کے دوران جب زمین پہ بہت ساری  برف جمی ہوئی تھی تو اس کی وجہ سے سطح سمندر آج کے مقابلے میں بہت کم تھی، یعنی سمندروں میں پانی کم تھا اور خشکی کا رقبہ زیادہ۔ اس کے نتیجے میں آج کے بہت سارے جزائر اس وقت جزیرے نہ تھے بلکہ اپنے اپنے براعظموں کا حصہ ہوا کرتے تھے اور جانور بسہولت گھوم پھر سکتے تھے۔ اسی سیر سپاٹے کے دوران کچھ افریقی ہاتھی کھانے کی تلاش میں مذکورہ بالا جزیروں تک  پہنچ گئے جہاں انھیں ماحول اور خوراک کی فراوانی پسند آئی اور وہ یہیں کے ہو کر رہ گئے۔  اب جب آئس ایج ختم ہوئی اور برف پگھلنے لگی تو سطح سمندر بلند ہوتی گئی اور آہستہ آہستہ یہ جزائر اپنے قریبی براعظموں سے کٹتے کٹتے جزیرے کی شکل اختیار کر گئے۔  اب ان لحیم شحیم جانداروں کے لئے سب سے بڑا مسئلہ ان کی جسامت کے تناسب سے خوراک کی فراہمی تھا۔ جب تک یہ جزیرے اپنے قریبی براعظم کے ساتھ جڑے ہوئے تھے تب تک تو خوراک کی فراہمی اور فراوانی میں کوئی خاص مسئلہ نہیں تھا لیکن اب برف کے پگھلنے کے بعد سے یہ جانور ایک چھوٹے سے جزیرے پہ پھنس چکے تھے جہاں خوراک کی بھی ایک محدود مقدار  دستیاب تھی۔  ایک ہاتھی کو یومیہ ڈیڑھ سو سے ایک سو ستر کلو خوراک کی ضرورت ہوتی ہے یہ ان کی کُل جسامت کا  چار سے سات فیصد تک  بنتا ہے۔ اب اگر ہاتھی کی جسامت کم ہوتی جائے تو اسی تناسب سے اس کا گزارہ کم خوراک  سے بھی  ہو جائے گا۔

سندباد جہازی اور جزیرے کا پرندہ 8

یہاں تک تو بات سمجھ آجاتی ہے کہ کم خوراک کی وجہ سے ان جانوروں کا سائز کم  ہو سکتا ہے ، لیکن اس کے علادہ  بھی ایک اور پہلو ہے اور وہ ہے  شکاری جانور یعنی شیر چیتے وغیرہ۔  آپ جتنا بھی Animal Planet یا  NatGeo چینلز دیکھ لیں آپ کو کہیں بھی کوئی شیریا چیتا کسی ہاتھی یا گینڈے کا شکار کرتا نظر نہیں آئے گا۔ اس کی بنیادی وجہ ان جانوروں کی بڑی جسامت ہی ہے ۔ ایسا نہیں ہے کہ شیر ان کا شکار نہیں کرسکتا  لیکن اس کے لئے انھیں بہت زیادہ کوشش کرنا پڑے گی ، بہت زیادہ شیروں کو مل کر ایک ہاتھی یا گینڈے کو قابو کرنا پڑے گا، جبکہ ہاتھی ایک بار کسی شیر کو اپنی سونڈ میں اٹھا کر ہی زمین پہ پٹخ دے تو وہ بیچارہ تو گیا نا کام سے۔ لہٰذا براعظم میں جہاں ان ہاتھیوں کو بڑی جسامت سے فائدہ  تھا کہ وہ شکاری جانورں سے بچ سکتے ہیں اور ساتھ ساتھ خوراک کی دستیابی میں بھی کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ لیکن اب جب کہ وہ ایسے جزیروں میں تھے جہاں خوراک بھی کم تھی اور شکاری جانوروں کا بھی خطرہ نہیں تھا، ایسی صورتحال میں  اب بڑی جسامت کا کوئی خاص فائدہ  نہیں تھا بلکہ الٹا نقصان تھا کہ نوبت فاقوں تک پہنچنے والی تھی۔  یہی وجہ ہے جس کے سبب آئی لینڈ ڈراف ازم بڑے جانوروں کا سائز  وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ  چھوٹے سے چھوٹا ہوتا چلا جاتا ہے۔

چلیئے یہاں تک تو بات سمجھ میں آگئی کہ ٹھگنے ہاتھیوں کے پیچھے کیا راز تھا  لیکن ان کا سندباد والے ‘رخ’ کے ساتھ کیا تعلق ہے۔ اس آئی لینڈ دراف ازم کے مقابلے میں ایک اور مشاہدہ کیا گیا کہ وہ جانور (یا کچھ جگہوں پہ بعض پودے بھی) جن کا اپنا سائز عموماً چھوٹا ہوتا ہے ، جب وہ کسی ایسے جزیرے تک محدود ہوجائیں جہاں ان کے شکاری جانور نا  ہوں تو ان کا سائز بڑھنے لگتا ہے۔اس امر کو آئی لینڈ جائی گینٹ ازم  (Island Gigantism)کہتے ہیں۔ آئیے اس ،مشاہدے کو فیل مرغ کے تناظر میں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔  اب ایسا جانور کہ جس کے بہت سارے شکاری ہوں اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ  اپنی بقا کے لئے ایسے طرزِ عمل اپنائے کے اپنے دشمنوں سے بچ سکے۔  مثلاً ہرن کو اپنی جان بچانے کے لئے اپنی تیز رفتاری  کی ضرورت ہوتی ہے کہ وہ شیر چیتے وغیرہ کا نوالہ نہ بن جائے، اسی طرح کبوتر اور بہت سارے دوسرے پرندے  بلی یا لومڑی کے وار سے اپنا بچاؤ اڑ کر کرتے ہیں، اسی طرح خرگوش کے لمبے لمبے کان درحقیقت اس کو اپنے اردگرد ہونے والی زرا سی بھی آہٹ پہ ہوشیار خبردار کرتے ہیں۔  کبوتر یا کسی بھی پرندے کا سائز ایسے کسی بھی ماحول میں کہ جہاں اس کے شکاری جانور موجود ہوں، کبھی بھی  نہیں بڑھ سکتا کیونکہ بڑی جسامت کے نتیجے میں اس پرندے کی رفتار اور پرواز دونوں پہ اثر پڑتا ہو اور یہی وجہ ہوتی ہے کہ ہمیں اڑنے والے پرندوں میں ایک خاص جسامت سے بڑے پرندے نظر نہیں آتے ہیں اور جو چند بڑی جسامت کے پرندے ہیں جیسے کہ باز اور عقاب وغیرہ تو ان کی نسبتاً بڑی جسامت کی ایک بنیادی وجہ ہی یہی ہے کہ ان کا کوئی شکاری قدرتی طور پہ موجود ہی نہیں ہے وہ اپنے اپنے ماحول میں ہی سب سے بڑے شکاری ہیں۔  اب اگر یہی ننھا سا  پرندہ کسی ایسے جزیرے یا ماحول میں پہنچ جاتا ہے جہاں اس کے شکار کرنے والا کوئی جانور نہ ہو تو اس اب اس کو چھوٹی جسامت رکھنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا ہے۔  جیسے جیسے وقت گزرتا جاتا ہے آہستہ آہستہ ان کی جسامت اور حجم میں اضافہ ہوتا جاتا ہے اور پھر ایک وقت وہ بھی آجاتا ہے کہ یہ بڑے سائز کا پرندہ اپنے بڑھتے وزن کی وجہ سے اڑنے کے قابل نہیں رہ پاتا۔ فیل مرغ کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہوا ، اس کے آباؤاجداد اڑنے کی صلاحیت کے حامل تھے تبھی تو مڈغاسکر کے جزیرے تک پہنچ پائے  یہاں ان کو اپنے رہنے کے لئے بہترین ماحول  ملا جہاں خوراک کی بہتات تھی جبکہ ان کا شکاری کوئی بھی نہیں تھا ۔  ایسے ماحول میں انھیں نہ تو کسی سے ڈر کر اڑنے کی ضرورت تھی نہ آگے پیچھے  بھاگنے پھرنے  کی کیونکہ کھانا جو  ہر جگہ میسر تھا گویا  ان کی پانچوں انگلیاں  گھی میں  تھیں۔  آنے والے وقتوں میں نہ صرف ان کی جسامت بڑھتی گئی بلکہ ان کی اڑنے کی صلاحیت بھی ختم ہوتی گئی  اور جب کسی ملاح کا جہاز بھٹک کر ایسے کسی جزیرے کے پاس پہنچا تو ہمارے پاس سندباد جہازی اور رُخ والے قصے کی ابتداء ہوئی۔

سندباد جہازی اور جزیرے کا پرندہ 9

اب ایک اعتراض نما سوال تو اٹھنا  یہاں بنتا ہی ہے کہ کیا اگر یہ دونوں شرائط  کسی جزیرے سے ہٹ کر بھی دستیاب ہوں تو کیا پھر وہاں بھی جانداروں کی جسامت میں فرق آئے گا یا نہیں؟  بالفاظ دیگر کیا اگر ہم ایسا کوئی ماحول فراہم کردیں جہاں کھانا وافر مقدار میں دستیاب ہو اور کسی شکاری کا کوئی ڈر نا ہو تو کیا پھر اس ماحول میں رکھے گئے جانور کی جسامت بڑھے گی یا نہیں؟یہ ایک نہایت عقلمندانہ اور وزنی سوال ہے جو کہ ارتقاء کے ناقدوں اور معترضین کی جانب سے اٹھایا جانا چاہیئے۔  اس سوال کا جواب دینے سے پہلے میں آپ کو یہ بتانا چاہوں گا کہ حضرتِ انسان ہزاروں برسوں سے جانوروں اور دیگر جانداروں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کے مرتکب ہوتے چلے آرہے ہیں، کہیں ہم پھلوں ، سبزیوں ، اور فصلوں کی نئی سے نئی اقسام تخلیق کرتے ہیں تو کہیں جانوروں میں گوشت، دودھ، اور انڈوں وغیرہ کی زیادہ سے زیادہ پیداوار کے حصول میں سرگرداں ہیں۔ لیکن سوال تو یہ ہے کہ کیا کسی جاندار کا جسامت پہ بھی کوئی فرق پڑ سکا ہے یا نہیں، تو جناب اس اعتراض کا جواب جاننے سے پہلے ایک نظر ڈالتے ہیں  گزشتہ ایک صدی کے دوران پوری دنیا میں پولٹری کی صنعت  میں ہونے والی ترقی پہ کہ جہاں ہر ملک میں چکن وافر مقدار میں کھایا جاتا ہے ۔ آپ کو علم ہوگا ہی کہ پولٹری فارم میں مرغیوں کو وافر مقدار میں کھانا فراہم کیا جاتا ہے ، وہاں انھیں بیماریوں سے بچاؤ کی خاطر ویکسینز اور دیگر ادویات دی جاتی ہیں، صفائی ستھرائی کا خاص خیال رکھا جاتا ہے، اور ساتھ کے ساتھ کسی بھی شکاری جانور سے ان کی حفاظت کا لازمی بندوبست کیا جاتا ہے۔ اگر آپ ایک عدد پولٹری فارم کے مالک ہیں تو یہ سب کام آپ زیادہ سے زیادہ منافع حاصل کرنے کے لئے کرتے ہیں نا کہ کسی سائنسی تجربے کی خاطر، لیکن اوپر ذکر کی گئی شرائط تو نادانستہ طور پہ پوری ہو ہی رہی ہیں نا۔ ایک تحقیق کے مطابق گزشتہ نصف صدی کے دوران برائیلر چکن کی جسامت میں چار گنا سے بھی زیادہ اضافہ ہو چکا ہے  جو آپ زیرِ نظر تصویر میں خود دیکھ سکتے ہیں ۔

سندباد جہازی اور جزیرے کا پرندہ 10

یہاں ایک ضمنی سوال نما اعتراض ایک بار پھر اٹھنا چاہیئے کہ بطور پولٹری فارم مالک یہ تو میرے مفاد میں ہے کہ میری مرغیوں کی جسامت اور سائز بڑے سے بڑا ہو تاکہ میں زیادہ سے زیادہ منافع کما سکوں لہٰذا میں تو چاہوں گا کہ صرف وہ ہی مرغیاں رکھوں جن کا سائز بڑا ہو، اس میں کسی جزیرے یا ارتقاء کا کیا تعلق؟  یہ بھی ایک نہایت اچھا اور قابلِ غور سوال ہے۔ ارتقاء کے اس پہلو پہ میں پہلے اپنے ایک پچھلے مضمون میں تفصیل سے بات کر چکا ہوں کہ قدرتی طور پہ تمام جاندار کسی نا کسی فلٹر سے گزر رہے ہوتے ہیں، اب اس برائیلر والے معاملے میں بھی دو فلٹر  ہیں جو کہ ہر پولٹری فارم کا مالک لگاتا ہے کہ اس کی مرغیاں زیادہ صحت مند ہوں کیونکہ آپ یا میں کوئی بھی کبھی بیمار مرغی نہیں خریدتا، اور دوسرا اس کی مرغی کا سائز اور وزن زیادہ سے زیادہ ہو تاکہ اس کو زیادہ سے زیادہ قیمت مل سکے۔  اب چاہے یہ فلٹر قدرت کی طرف سے لگا ہو یا کسی انسان کی طرف سے مرغی کی مجبوری ہے کہ اس کو اس فلٹر سے گزرنا ہی گزرنا ہے، اور گزشتہ ایک صدی کے دوران زیادہ سے زیادہ منافع کی خاطر لگائے گئے اس فلٹر کا نتیجہ بالکل ویسا ہی نکل رہا ہے کہ اگر یہ مرغیاں کسی ایسے جزیرے پہ موجود ہوتیں جہاں ان کا کوئی شکاری نا ہو اور کھانا فراوانی کے ساتھ دستیاب ہو۔

 

 

Dr. Muhammad Ibrahim Rashid Sherkoti

Hi, I am a Ph.D. in biotechnology from National University of Sciences and Technology, Islamabad. I am interested in biotechnology, infectious diseases and entrepreneurship. You can contact me on my Twitter @MIR_Sherkoti.