سندباد جہازی کے شاید پہلے تجارتی سفر کے دوران  جب وہ اور اس کے ساتھی سفر کرتے کرتے ایک  جزیرے کے پاس پہنچتے ہیں تو کچھ دیر کے لئے آرام کرنے کی خاطر اپنا بحری جہاز روک کر اس جزیرے پہ اتر جاتے ہیں۔ سندباد چہل قدمی کرتے کرتے اپنے ساتھیوں سے تھوڑا دور نکل جاتا ہے اور سستانے کی غرض سے لیٹ جاتا ہے اور تھوڑی دیر  میں ہی نیند کی آغوش میں کھو جاتا ہے۔  کہانی کے مطابق سندباد کے ساتھی کھانا پکانے کے لئے جزیرے کے درختوں سے کچھ لکڑیاں توڑ کر جلانے لگتے ہیں اور کھانا پکانے میں مصروف ہوجاتے ہیں کہ تھوڑی دیر میں زلزلے کے جھٹکے پورے جزیرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں اور ہر نیا جھٹکا  پچھلے جھٹکے سے تیز تر ہوتا جاتا ہے۔  ان تیز ہوتے جھٹکوں میں سارے لوگ جان بچانے کو اپنے بحری جہاز  کی طرف دوڑتے ہیں اور جلد از جلد جہاز پہ سوار ہونے کی کوشش میں کسی کو سندباد کا خیال تک نہیں آتا۔ زلزلہ سے جو سندباد کی آنکھ کھلتی ہے تو دور سے اسے دوڑ بھاگ کا شور سنائی دیتا ہے اور وہ بھی اپنے جہاز کی طرف بھاگتا ہے لیکن اس کے ساحل تک پہنچنے سے پہلے ہی اس کے سارے ساتھی جہاز میں سوار ہو کر دور نکل چکے ہوتے ہیں ۔ ابھی سندباد اپنے ساتھیوں کی بیوفائی کا سوچ ہی رہا ہوتا ہے کہ ایک شدید زلزلے کا جھٹکا پورے کے پورے جزیرے کو الٹا دیتا ہے، یعنی چند لمحوں پہلے تک جو  جزیرے کی سطح تھی اب وہ پانی کے اندر ہوتی ہے۔ پانی کے اندر ڈبکیاں کھاتے کھاتے سندباد کو اندازہ ہوتا ہے کہ یہ کوئی خشکی کا ٹکڑا نہیں تھا بلکہ ایک بہت بڑی مچھلی تھی کہ جس کی پیٹھ پہ گرد وغیرہ جمی ہوئی تھی جس میں کچھ سمندری پودے بھی اگے ہوئےتھے۔ جب اس کے ساتھیوں نے آگ جلائی تو اس کی گرمی اور تپش سے ملنے والی تکلیف نے مچھلی کو سمندر کے اندر غوتا لگانے پہ مجبور کردیا اور یوں ہمارا ہیرو اپنی کشتی اور سامان وغیرہ سے ہاتھ دھو بیٹھا۔

سندباد جہازی، زندہ جزیرہ اور پاکستان؟ 1

اگر ہم اس مبالغہ آمیز قصے کو تھوڑا حقیقت سے قریب لانے کی کوشش کریں تو یقیناً ہم کہہ سکتے ہیں  کہ سمندر میں تو کیا پورے کرہ ارضی پہ موجود سب سے بڑا جاندار وہیل مچھلی ہی ہے۔  بلو وہیل  کتنی بڑی ہوتی ہے اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ صرف اس کا دل ہی اتنا بڑا ہوتا ہے کہ اس میں 4-5 پانچ انسان بآسانی سما جائیں۔ جبکہ اس کا  بازو یا فن  میرے یا آپ  کے قد سے تقریباً دوگنا  لمبا ہوتا ہے۔

سندباد جہازی، زندہ جزیرہ اور پاکستان؟ 2

سندباد جہازی، زندہ جزیرہ اور پاکستان؟ 3

آج میں اس تفصیل میں نہیں جانا چاہتا کہ کے کیسے کسی ملاح نے کسی بلو وہیل کو دیکھ  کر اور اس کی جلد پہ چپکی سمندری کائی کے منظر کو مبالغے کا تڑکا لگا کر کیسے زندہ جزیرے والی کہانی میں ڈھالا،  ہم سب ہی جانتے ہیں کہ یہ قصے کہانیاں مبالغہ آرائی کے ساتھ ہی دلچسپ سے دلچسپ تر بنتے ہیں۔ آج ہم یہ جاننے کی کوشش کریں گے کے وہیل کیونکر اور کیسے ایسی لحیم شحیم جسامت کی مالک  بن سکی جو کہ کسی بھی بڑے سے بڑے ڈائیناسار سے بھی بڑی ہے۔  آپ نے فلموں یا ڈاکومنٹریز وغیرہ میں مختلف اقسام کی وہیل مچھلیاں دیکھی  ہی ہوں گی جیسے بلو وہیل، سپرم وہیل، کلر وہیل وغیرہ، ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ ڈولفن بھی وہیل کی رشتہ دار ہے اور یہ دونوں ہی درحقیقت مچھلیاں نہیں درحقیقت ممالیہ جانور ہیں۔  یعنی ان  دونوں کی افزائشِ نسل کسی مچھلی کی طرح انڈوں کے زریعے نہیں ہوتی اور انسانوں کی طرح  اپنے بچوں کو دودھ پلاتی ہیں۔

سندباد جہازی، زندہ جزیرہ اور پاکستان؟ 4

بہت کم لوگوں کو اس امر کا علم ہے کہ بنیادی طور پہ وہیل کے آباؤ اجداد خشکی پہ رہنے والے چار ٹانگوں والے ممالیہ گوشت خور جانور تھے، اور اس سے بھی بڑھ کر دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ خشکی والا جانور آج سے  کوئی پانچ کروڑ سال پہلے دراصل پاکستان کی جغرافیائی حدود میں پایا جاتا تھا۔ بلوچستان سے ملنے والے فوسلز  سے ہمیں پتا چلتا ہے کہ وہیل کا جدِ امجد جسے پاکستان کی مناسبت سے  پاکیسیٹیس (Pakicetus) کا نام دیا گیا ہے ۔  پاکیسیٹس بھیڑیا نما جانور تھا جو کہ پانی کے نزدیک اپنے ٹھکانے بناتا تھا اور  اس کی خوراک زیادہ تر مچھلیوں اور دیگر چھوٹے جانوروں  وغیرہ پہ منحصر ہوا کرتی تھی۔   مچھلیوں کے شکار کی غرض سے پاکیسیٹس کاپنا وقت پانی میں بھی گزارا کرتا تھا ۔ آپ یہاں یہ سوال کر سکتے ہیں کہ جس جانور کو صفحہ ہستی سے مٹے ہوئے بھی کروڑوں سال بیت چکے تو اس کہ بارے میں کوئی یہ کیسے کہہ سکتا ہے کہ وہ کیا کھاتا تھا  یا کیسے رہتا تھا۔  یہ ایک بہت اچھا سوال ہے ، سائنس دانوں کو پاکیسیٹیس کے جو ڈھانچے ملے ہیں ان میں اس کے دانت بھی شامل ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ گھاس کھانے والے جانوروں جیسے گائے بھینس بکری ہرن وغیرہ کے دانتوں میں اور گوشت خور جانوروں جیسے شیر چیتے بھیڑیے وغیرہ کے دانتوں کی ساخت میں بہت فرق ہوتا ہے۔ سبزی خور جانوروں کے دانت گھاس چبانے کے لئے اوپر سے چپٹے ہوتے ہیں جیسے کہ انسانوں کے پچھلے دانت یا داڑھیں جبکہ گوشت خور جانوروں کے دانت نوکیلے ہوتے ہیں تاکہ وہ گوشت نوچ سکیں اور بوٹی توڑ سکیں جیسے کہ ہمارے اگلے دانت۔  تو جناب پاکیسیٹیس کے دانتوں کے مشاہدے سے ہمیں یہ پتہ چلتا ہے کہ وہ گوشت خور تھا نہ کہ سبزی یا گھاس خور۔

سندباد جہازی، زندہ جزیرہ اور پاکستان؟ 5

آنے والے وقتوں میں یہ پانی میں رہنے کا دورانیہ بڑھتا گیا جس کے نتیجہ میں پاکیسیٹیس کی جسمانی خدوخال میں ایسی تبدیلیاں نمودار ہونے لگیں جو کہ خشکی کی بجائے پانی میں رہنے میں زیادہ معاون ہونے لگیں تھیں۔   یہ تبدیلیاں محض چند سال یا صدیوں میں نہیں ہوئیں بلکہ فوسلز کی مدد سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ لاکھوں برسوں  کا عرصہ درکار  تھا کہ جس میں پاکیسیٹیس  کی آنے والی نسلیں خشکی کی بجائے سمندر کو زیادہ ترجیح دینے لگیں  تھیں مگر اب بھی وہ بنیادی طور پہ خشکی کے جانور ہی تھے  اور دونوں ماحول میں رہ سکتے تھے۔ فوسلز کے مشاہدوں سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ  پاکیسیٹیس میں ہونے والی یہ تبدیلیاں ایک محتاط اندازے کے مطابق تقریباً ایک سے دو کروڑ برسوں کے درمیان پیش آئیں  اور اس دورانیہ کے بعد ہمیں کرہ ارضی پہ ایک نیا جانور چلتا پھرتا نظر آتا ہےجسے ایمبولوسیٹیس (Ambulocetus) کے نام  سے جانا  جاتا ہے ۔اگر ایمبولوسیٹیس اور پاکیسیٹیس کے ڈانچوں کا مشاہدہ کیا جائے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایمبولوسیٹیس کی پچھلی ٹانگیں پاکیسیٹیس سے مختلف ہیں، کیونکہ ایمبولیوسیٹیس  پاکیسیٹیس کے مقابلے میں اپنا زیادہ وقت پانی میں گزارا کرتا تھا ،اور اسی مناسبت سے اس کی ٹانگیں پاکیسیٹیس کی بنسبت تیرنے کے لئے  زیادہ  موثر تھیں۔

سندباد جہازی، زندہ جزیرہ اور پاکستان؟ 6

ایمبولوسیٹیس کو وہیل کے خشکی سے تری کے درمیان ارتقائی سفر میں  آپ ایک درمیانی کڑی کہہ سکتے ہیں ایک ایسا جاندار جو اپنے جد کے مقابلے میں خشکی اور پانی دونوں میں زندگی گزارا کرتا تھا۔ پاکیسیٹیس تازے یا میٹھے پانی میں رہتا تھا یعنی یہ دریاوں وغیرہ میں یا ان کے کناروں  پہ ٹھکانا بناتا تھا ۔ ہم جانتے ہیں کہ دریا اور سمندر کے پانیوں میں سب سے بڑا فرق نمک کی مقدار کا ہوتا ہے۔ بہت کم جاندار ایسے ہیں جو کہ دونوں پانیوں میں زندہ رہنے کے قابل ہیں ورنہ عموماً میٹھے پانی کی مچھلیاں سمندر میں زندہ نہیں رہ سکتیں اور  اسی طرح شارک وغیرہ دریاؤں میں نہیں رہ سکتیں۔ یہ تو ہمیں اندازہ ہوگیا کہ ان دونوں  پانیوں میں نمک کی مقدار کی وجہ سے بہت فرق ہے لیکن جہاں دریا سمندر میں گرتے ہیں وہاں دونوں پانیوں کے امتزاج سے پانی کی ایک ایسی قسم بنتی ہے جہاں نمک کی مقدار دریا کے پانی سے تو زیادہ ہوتی ہے لیکن سمندر کی نسبت کم یعنی ان دونوں کے درمیان درمیان، اس کو بریکش (Brackish water)  کہاجاتا ہے ۔  پاکیسیٹیس کے مقابلے میں ایمبولوسیٹیس بریکش پانی میں رہتا تھا۔

سندباد جہازی، زندہ جزیرہ اور پاکستان؟ 7

اس خشکی سے سمندر کے سفر کے دوران اگلی منزل کیوچی سیٹیس (Kuchicetus) ہے۔ اپنے دونوں اجداد کے مقابلے میں کیوچی سیٹیس  نا صرف سمندر کے نمکین پانی میں رہنے کے قابل تھا بلکہ ان دونوں کی نسبت اس کی دم بھی زیادہ لمبی اور تیرنے میں مددگار تھی اور اس کی  ٹانگوں کی لمبائی بھی کم تھی۔ اگرچہ کیوچی سیٹیس کی دم    اور ٹانگوں کی لمبائی میں آنے والا یہ فرق درحقیقت مرحلہ وار اور بتدریج تبدیلی کا وہ عمل ہے کہ جس میں خشکی پہ رہنے والا ایک بھیڑیا نما جانور آہستہ آہستہ مچھلی نما ساخت اختیار کرتا ہے تاکہ  خشکی سے واپس پانی  کے اس سفر میں وہ اپنے آپ کو نئے ماحول کے مطابق ڈھال سکے۔  اس سفر میں اگلا پڑاؤ بیسیلو ساروس (Basilosaurus )   کی شکل میں ہمارے سامنے آتا ہے ، بیسیلو ساروس کے فوسلز کے مشاہدے سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ یہ پاکیسیٹیس  یا کیوچی سیٹیس کے مقابلے میں کلی طور پہ آبی جاندار کا روپ دھار چکا  ہے۔ بیسیلوساروس کے ملنے والے ڈھانچوں سے اس  کی لمبائی کا اندازہ تقریباً 10 سے 20 میٹر  کے درمیان  لگایا گیا ہے جو کہ اس سے پہلے والی وہیل کی اقسام کی نسبت کافی زیادہ ہے۔ ابتدا میں  تو اس کو وہیل کی بجائے ڈائیناساور  سمجھا گیا تھا  جس کی وجہ سے اس کے نام میں ‘سیٹیس’ کی بجائے  ‘ساروس’ کی اصطلاح  شامل ہے ( لاطینی زبان میں چھپکلی کو ساروس کہا جاتا ہے، چونکہ ڈائینا ساورز   کا تعلق چھپکلی اور مگرمچھ کے خاندان سے ہے اسی لیے ان کے ناموں میں ساورس کی اصطلاح ہمیں ملتی ہے)۔

سندباد جہازی، زندہ جزیرہ اور پاکستان؟ 8

سندباد جہازی، زندہ جزیرہ اور پاکستان؟ 9

بیسیلوساروس  کے ڈھانچوں میں ایک دلچسپ چیز اس  کی پچھلی ٹانگوں کا سائز ہے، اگر ہم اس کی کل لمبائی کی مناسبت سے دیکھیں تو باقی اعضاء کا سائز بھی بڑا ہونا چاہیئے لیکن اس کے برعکس بیسیلوساروس کے اگلے بازووں کی نسبت   کی پچھلی ٹانگیں نہایت چھوٹی ہیں جو اس امر کی غمازی کرتی ہیں کہ بیسیلوساروس ایک مکمل سمندری جانور تھا  اور اس نے کبھی بھی خشکی پہ قدم نہیں رکھا۔  لیکن یہ چھوٹی سی ٹانگیں درحقیقت اس بات کی بھی چغلی کھاتی نظر آتی ہیں کہ بیسیلوساروس کے اجداد  کا تعلق خشکی سے تھا ناکہ سمندر سے۔ یہاں کوئی یہ سوال کرسکتا ہے کہ بھئی یہ کیا بات ہوئی کہ ایک مچھلی نما جانور کا ڈھانچہ  دیکھ کے سائنسدان خود سے ہی تکہ بازی کرنے لگے کہ سمندر کے جانور کا تعلق خواہ مخواہ  خشکی سے جوڑنے میں لگے ہوئے ہیں۔ منطقی طور پہ تو اس اعتراض میں کافی وزن ہے لیکن  آئیے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ سائنسدانوں کے پاس ایسی کونسی دلیل ہے کہ جس کی بنیاد پہ وہ کہتے ہیں کہ بیسیلوساروس سمندری جانور ہوتے ہوئے بھی اس کے اجداد خشکی کے مکین تھے۔

سندباد جہازی، زندہ جزیرہ اور پاکستان؟ 10

آپ سب اپینڈیکس کے بارےمیں جانتے ہی ہونگے  کہ یہ ہمارے جسم میں بڑی آنت سے متصل ایک عضو ہے، کبھی کبھار اس میں انفیکشن ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے یہ پھول جاتی ہے اور مریض کے لئے کافی شدید تکلیف کا باعث بنتی ہے۔ اگر بروقت آپریشن کرکے اس انفیکشن زدہ اپینڈیکس کو نکالا نہیں جاتا تو یہ مریض کی موت کا سبب بھی بن سکتی ہے۔ یہاں تک تو سب کو پتہ ہی ہوگا  کیونکہ اگر آپ کا اپنا نہیں تو کسی دوست ، رشتہ دار یا جاننے والے کے اپینڈیکس کے آپریشن کا ذکر تو آپ نے لازمی سن ہی رکھا ہوگا کہ مریض کے پیٹ میں شدید درد تھا تو ڈاکٹر نے آپریشن کرکے اس کا اپینڈیکس نکال دیا جس سے مریض کی جان بچ گئی۔  مزیدار بات یہ ہے کہ آج تک کوئی بھی سائنسدان یہ نہیں جان سکا ہے کہ اپینڈیکس کا ہمارے جسم میں اصل کام کیا ہے ۔ ہمیں معلوم ہے کہ معدہ ہماری کھائی ہوئی خوراک کو ہضم کرتا ہے بڑی اور چھوٹی آنتیں اس ہضم شدہ کھانے اور پانی کو جذب کرتی ہیں، جگر  مختلف  نوع کے پروٹین وغیرہ بناتا ہے، دل خون کی روانی کا باعث ہے، لبلبہ انسولین بناتا ہے وغیرہ وغیرہ وغیرہ لیکن کیا کوئی مجھے یہ بتا سکتا ہے کہ اپینڈیکس کیا بناتا ہے؟  اگر ہم انسانوں سے ہٹ کر دوسرے جانوروں مثلاً خرگوش کے جسم میں موجود اپینڈیکس کا مشاہدہ کریں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ وہاں انسانی جسم کے مقابلے میں اپینڈیکس کا سائز کافی بڑا ہے جبکہ اس میں ہزاروں اقسام کے جراثیم پائے جاتے ہیں جو کہ گھاس اور دیگر خوراکوں کو ہضم کرنے میں خرگوش کے نظامِ انہضام کی مدد کرتے ہیں، جبکہ اس کے مقابلے میں انسانی اپینڈیکس کا نا تو سائز اتنا بڑا ہے اور نا ہی اس میں کوئی ایسے جراثیم ہوتے ہیں جو ہماری خوراک کو ہضم کرنے میں ہماری مدد کریں۔  اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری اور خرگوش کی خوراک میں کافی فرق ہے ہم  بطور انسان سبزی اور گوشت  ہر قسم کی خوراک کھا سکتے ہیں جبکہ خرگوش کی خوراک صرف سبزی  اور گھاس وغیرہ پہ مشتمل ہوتی ہے۔ اب جو سبزی خور جانور ہیں ان کا نظامِ انہضام پودوں میں موجود سیلولوز (Cellulose) نامی کاربوہائیڈریٹ کو  اتنے اچھے طریقے سے ہضم نہیں کرسکتا  ، خیر یہ تو ہم بھی نہیں  کرسکتے لیکن چونکہ ہماری خوراک صرف سبزی اور گھاس پہ منحصر نہیں، تو ہمیں زیادہ فرق نہیں پڑتا، لیکن خرگوش اور دیگر سبزی خور جانور وں کے پاس تو اور کوئی ‘چارہ’ نہیں ہے  نا۔  اسی لئے ان کے اپینڈیکس میں ایسے جراثیم پائے جاتے ہیں جو کہ اس سیلولوز کو توڑ کر اسے گلوکوز میں تبدیل کردیتے ہیں تاکہ خرگوش اپنی کھائی ہوئی گھاس سے توانائی حاصل کرسکے۔ اس پورے قصے کو بیان کرنے کا مقصد یہ سمجھانا ہے کہ اپینڈیکس ایک ایسا عضو ہے جو کہ انسانوں کے اجداد  سے، جو کہ کلی طور پہ سبزی خور تھے  ہمیں وراثت میں ملا ہے لیکن چونکہ ہمیں اس کی کوئی خاص ضرورت نہیں ہے اس لئےہمارے  جسموں میں نا تو اس کوئی فعال کردار ہے اور ناہی کوئی خاص اہمیت جب ہی تو ڈاکٹر آپریشن کرکے اپینڈیکس کو نکال دیں تب بھی ہمارے کھانے پینے کی عادات پہ کوئی معمولی سا بھی فرق نہیں آتا ہے۔

سندباد جہازی، زندہ جزیرہ اور پاکستان؟ 11

ایسے اعضاء جو کہ پہلے کبھی کوئی مفید کردار رکھتے تھے لیکن اب ان کا کوئی خاص فائدہ نا ہو تو ان کو ویسٹی جیل (Vestigial Organ) کہتے ہیں۔  یہ ویسٹیجیل عضو ہماری ارتقائی وراثت کے امین ہوتے ہیں ، اور بیسیلوساروس کی نہایت چھوٹی چھوٹی ٹانگیں اصل میں ویسٹیجیل عضو ہیں جو کہ اس کی ارتقائی وراثت کی چغلی کھاتی ہمیں   یہ بتاتی ہیں کہ اگرچہ یہ جانور ہمیں مکمل طور پہ  سمندر کا مکین نظر آرہا ہے لیکن اس کے اجداد کا تعلق خشکی سے تھا۔  بیسیلیوساروس  اور اس سے ملتی جلتی وہیل کی دیگر اقسام جن میں پچھلی ٹانگیں بالکل نا ہونے کے برابر ہیں ان کو سائنسدانوں نے  ڈوروڈون (Dorudon) نامی گروپ میں شامل کیا ہے۔ ڈوروڈون  کے بعد ہمیں موجودہ زمانے کی وہیل اور ڈولفن ملتی ہیں یعنی خشکی سے سمندر کا سفر گویا مکمل ہو جاتا ہے کے ان میں اب پچھلی ٹانگیں تو بالکل ہی ختم ہو گئی ہیں  جبکہ اگلے بازو سمندر میں تیرنے میں مدد  دینے کے لئے چپو کی سی شکل اختیار کرچکے ہیں۔      سندباد جہازی، زندہ جزیرہ اور پاکستان؟ 12

اگر آپ نے کبھی وہیل یا ڈولفن کو غور سے دیکھا ہو تو آپ کو اس کے منہ پہ ناک یا نتھنے نہیں ملیں گے اور نا ہی منہ کے پیچھے شارک یا دوسری مچھلیوں کی طرح گلپھڑے۔ اب اگر نا تو ناک ہے اور نا ہی گلپھڑے تو یہ دونوں جاندار سانس  کیسے لیتے ہونگے، کیونکہ اتنا تو سب ہی جانتے ہیں کہ آکسیجن کے بغیر کوئی بھی جاندار زندہ نہیں رہ سکتا تو پھر یہ پہیلی کیسے حل ہوگی؟جیسے کہ پہلے ذکر ہوچکا کہ وہیل مچھلی نہیں ہے تو لہٰذا گلپھڑوں کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ ہمیں کسی وہیل میں مل پائیں لیکن ناک کی غیر موجودگی اس بات  کی مخالفت کرتی ہے کہ وہیل کی ابتدا ایک خشکی کے جانور کے طور پہ ہوئی تھی۔ خشکی پہ رہنے والے کسی بھی جانور کو لے لیں آپ کو ہر کسی میں ناک ملے گی، بھلے وہ ممالیہ ہو یا نہیں۔ مگرمچھ، کچھوا، سانپ، چیل، کوے، مینڈک، مرغی، گائے، بھینس، بکری، شیر، ریچھ، گینڈا، زرافہ۔۔۔۔ الغرض ناک اور نتھنے آپ کو خشکی کے ہر مکین میں ملیں گے۔ جب ہم نے بات کی کہ پاکیسیٹیس ایک خشکی پہ رہنے والا بھیڑیے سے مشابہ جانور تھا تو اصولی طور پہ اس کے چہرے پہ منہ کے بالکل اوپر ناک ہونی چاہیئے جیسے بھیڑیے کی ہوتی ہے۔ اگر پاکیسیٹیس کی ناک تھی تو وہیل کی کیوں نہیں ہے؟۔۔۔یہ ایک گھمبیر سوال تھا جو کہ سائنسدانوں کو درپیش تھا۔

سندباد جہازی، زندہ جزیرہ اور پاکستان؟ 13

سندباد جہازی، زندہ جزیرہ اور پاکستان؟ 14

سندباد جہازی، زندہ جزیرہ اور پاکستان؟ 15

آپ سب نے ویڈیوز  وغیرہ میں دیکھا ہوگا  کہ جب بھی وہیل سطح سمندر پہ آتی ہے تو اس کے سر سے فوارہ نکلتا نظر آتا ہے۔  اس فوارےکی وجہ وہیل کے سر پہ ایک سوراخ ہوتا ہے جسے بلو ہول (Blowhole) کہتے ہیں۔ یہ بلو ہول ہی درحقیقت وہیل کے نتھنے ہوتے ہیں جو کہ  اس کے چہرے کی بجائے سر پر پائے جاتے ہیں۔ چلیں  یہ تو سمجھ آگئی کہ ناک تو ہے لیکن منہ پہ ہونے کی بجائے سر کے اوپر کیوں ہے، کسی اور جانور کے سر کے اوپر تو اس کی ناک نہیں ہے چاہے وہ خشکی کا رہنے والا ہو یا پانی میں۔ ہمارے پاس بہت سارے جانور ایسے بھی ہیں جو خشکی اور پانی دونوں میں اپنی زندگی گزارتے ہیں  جیسے مگرمچھ، کچھوے، دریائی گائے اور دریائی گھوڑے۔ ان سب کی زندگی کا بیشتر حصہ پانی میں ہی گزرتا ہے۔  اچھا ایک مزیدار بات یہ ہے کہ وہیل کا سب سے قریبی رشتہ دارخشکی کا جانور دریائی گھوڑا  ہے، لیکن اس کی ناک بھی سر کے اور پر نہیں ہے۔

سندباد جہازی، زندہ جزیرہ اور پاکستان؟ 16

اب پاکیسیٹیس  سے وہیل تک کے اس سفر میں  جیسے کہ ہم نے اوپر دیکھا کہ  ایک خشکی کا جانور مرحلہ وار انداز میں بتدریج ہمیں  تبدیل ہوتا نظر آتا ہے۔  اگر واقعۃ ایسے ہی ارتقاء کے تناظر میں دیکھیں تو ہمیں اس سفر کی درمیانی کڑیوں پہ موجود جانوروں میں  ان نتھنوں کو جگہ بھی مرحلہ وار تبدیل ہوتی نظر آنی چاہیئے، اور یہ ناک منہ کے قریب سے آہستہ آہستہ اپنی جگہ سے حرکت کرتی سر پہ جاتی نظر آنی چاہیئے، لیکن لاکھوں برس پہلے معدوم ہوئے ان جانداروں کا ناک نقشہ اب ہم کہاں سے ڈھونڈ کے لائیں۔ ناک کے حوالے سے ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ اگرچہ ناک میں کوئی ٹھوس ہڈی نہیں ہوتی ہے یعنی ڈھانچوں یا ہڈیوں کے مقابلے میں تو ناک موم کی ہی سمجھی جا سکتی ہے،  لیکن اس ناک کے پیچھے کھوپڑی میں ہوا کے لئے سوراخ ضرور ہوتا ہے جس  کے ذریعے سانس کی آمد ورفت ہوتی ہے۔  لہٰذا اگرچہ ہمیں کسی فوسل میں ناک تو نہیں مل سکتی لیکن  ان سوراخوں کی مدد سے ہم  ان تمام معدوم شدہ جانوروں کی ناک کی جگہ باسانی معلوم کرسکتے ہیں۔ تو جناب آپ دیکھ سکتے ہیں کہ  پاکیسیٹیس میں نتھنے   کسی بھی خشکی کے جانور کی طرح ہیں  جبکہ جیسے جیسے فوسل کی عمر کم ہوتی جاتی ہے ویسے ویسے یہ نتھنے اپنی جگہ  سے سرکتے سرکتے  سر کی جانب محوسفر ہیں۔

سندباد جہازی، زندہ جزیرہ اور پاکستان؟ 17

سندباد جہازی، زندہ جزیرہ اور پاکستان؟ 18

ڈوروڈون  اقسام کی وہیلوں میں بلوہول  اپنی ابتدائی جگہ سے کافی آگے آچکا ہوتا ہے جبکہ موجودہ زمانے کی وہیل  اور ڈولفن میں یہ بالکل سر کے اوپر ہوتا ہے۔  اسی حوالے سے ڈولفنز میں  ہونے والی ایک تحقیق میں سائنسدانوں نے یہ دریافت کیا کہ ڈولفن کے جنین کی رحمِ مادر میں جب ابتدا ہوتی ہے تو اس میں نتھنے اس کے چہرے کے سامنے ہوتے ہیں اور جیسے جیسے اس کی گروتھ اور افزائش ہوتی جاتی ہے ویسے ویسے یہ نتھنے بلو ہول کی شکل میں ڈولفن کے سر کے اوپر سرکتے جاتے ہیں۔

سندباد جہازی، زندہ جزیرہ اور پاکستان؟ 19

 

(جاری ہے)

 

Dr. Muhammad Ibrahim Rashid Sherkoti

Hi, I am a Ph.D. in biotechnology from National University of Sciences and Technology, Islamabad. I am interested in biotechnology, infectious diseases and entrepreneurship. You can contact me on my Twitter @MIR_Sherkoti.