یہ ان کا کلاس میں پہلا دن تھا۔ وہ ڈائس پر آئے اور گویا ہوئے، “بچو! اپکے ذہن میں کوئی بھی سوال ہے۔ کیسا بھی سوال ہے آپ پوچھ سکتے ہیں۔ کوئی مزاق نہیں اڑائے گا”۔ بچے ہچکچائے۔ خاموشی ایسی کہ جیسے سانپ سونگھ گیا ہو۔ یہ بات طلبا کے لیے نئی تھی کہ ان کو سوال پوچھنے کا کہا جا رہا ہے۔ پہلے دن وہ بغیر سلام دعا کے اور بغیر کسی تعارف کے آتے ہی ایک ہی بات کہی کہ کوئی بھی سوال ہے پوچھیں۔ ان کے اس انداز سے عجیب تو لگا لیکن جس انداز سے انہوں نے سوال بنانا سکھایا۔ سوال پوچھنا سکھایا۔ اور پھر جواب بھی وہ نہیں دیتے تھے۔ جواب اس انداز میں ہوتا تھا کہ جیسے یہ تو ہمیں معلوم تھا۔ وہ ہماری زندگی میں ایسے ائے جیسے اندھے کے لیے لاٹھی۔
پھر یوں ہوا کہ آہستہ آہستہ جیسے ہماری بینائی واپس اگئی ہو۔ اور ہم سوال کرنے اور جوابات ڈھونڈنے کے قابل ہوگے۔ اب ہم سر سے صرف سوال نہیں اپنے جوابات بھی پوچھنے جاتے تھے۔ وہ ہمارے جوابات کو زیر بحث لاتے اور یوں معلوم ہوتا جیسے کہ وہ ہم سے سیکھ رہے ہیں۔ دراصل وہ ہمیں ہی سکھا رہے تھے۔ کہ سوال کیسے کرتے ہیں سوچتے کیسے ہیں؟
وہ ہماری جماعت میں تب آئے جب ہمارے ایک استاذ کا تبادلہ ہوگیا اور انہوں نے اپنی روایت کے مطابق ہم سے سوال پوچھنے کو کہا ۔ کوئی سوال نہ ملنے پر انہوں نے رواں زیرمطالعہ باب کا پوچھا۔ ہم نے جواب دیا سر وراثت اور جینیات۔ اب جو انہوں نے ہمارے ساتھ کیا میں آج تک نہیں بھولا۔
باب کا نام سنتے ہی بولے۔ یہ بیٹا اپکا رنگ سفید کیوں ہے؟ بچے سوال سن کر ہسنے لگے۔ ہسنتے بچوں کو منع کرتے ہوئے کہنے لگے کہ اس میں ہسنے والی کونسی بات ہے؟ میں نے سوال کیا ہے اس کا جواب دیں۔ اب پھر سے کلاس خاموش تھی۔ کیا کہتی؟ خاموش ہی رہی۔ پھر کہنے لگےکہ بیٹا بتائیں اگر میں آم کی گٹلی بوتا ہوں تو اس سے کیا نکلے گا؟ بچے بولے سر آم کا پودا ہی نکلے گا۔ سر نے کہا شاباش۔ اس سے امرود کیوں نہیں نکلا؟ کیوں کہ سر گٹلی آم کی تھی بچوں نےجواب دیا۔ سر مسکراتے ہوئے بولے۔ یعنی گٹلی با بیج میں تھا کچھ جس سے پودا بنا ؟ ہے نا؟ کیا میں ٹھیک کہہ رہا ہوں؟ جی سر ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ بچوں نے جواب دیا۔
ارے واہ۔۔ کیا بات ہے۔ آپ تو سائنس جانتے ہیں۔ سر نے پرجوش انداز میں جواب دیا۔ اب انکا سوال تھا کہ فرض کریں ایک بچہ ہے اس کے والد زمین چھوڑ کر فوت ہوئے تو وہ زمین اب کس کی ہوئی؟ اس کے بچے کی نا؟ جی سر۔ بچوں نے جواب دیا۔ تو ہم کیا کہیں گے؟ کہ یہ زمین بچے کو کہاں سے ملی؟ سر یہ زمین اسکو اپنے والد سے ملی۔ (بچے گویا ہوئے) اچھا تو اس عمل کو یعنی زمین کا والد سے بچے کی ملکیت میں جانا اس کو ہم عام الفاظ میں کیا کہتے ہیں؟
میرے ساتھ مولوی حکمت اللہ کا بیٹا سفیان بیٹھا تھا فٹ سے بولا سر یہ زمین اس کو ترکہ میں ملی ہے۔ سر نے پوچھا بیٹا یہ ترکہ کیا ہوتا ہے؟ سفیان نے کہا سر۔۔ وراثت۔ سر مسکرائے اور سفیان کو بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے کہنے لگے کہ یہ اس بچے کو اپنے والد سے ملی زمین وراثت کہلائے گی۔ اور وہ بچہ ہے اس زمین کا وارث ہے۔ اب وہ پوچھنے لگے کیا اگر میں خود سے کوئی کار یا موٹر بائک لیتا ہوں تو کیا وہ وراثت کہلائے گی؟ وہ میں نے اپنے والد سے نہیں لی۔ خود خریدی ہے تو کیا وہ وراثت کہلائے گی؟ کچھ سوچنے کے بعد کچھ بچے بولے نہیں سر وہ آپ کو وراثت میں نہیں ملی۔
سر کہنے لگے بیٹا آپ لوگ بات کافی حد تک سمجھ چکے ہیں۔ جیسے ہر وہ مادی یا روحانی یا اخلاقی چیز جو میں والدین سے ملے وراثت کہلاتی ہے۔ اسی طرح جو بھی(جسمانی) خصوصیات ہمیں اپنے والدین سے ملیں وہ بھی بائیولوجی کی زبان میں وراثت کہلاتئ ہیں۔ جیسے میں نے آپ سے پوچھا نا کہ آم کی گٹلی لگانے سے آم ہی کیوں نکلا؟ اس بچے کا رنگ سفید کیوں ہے؟ وجہ ایک ہی ہے کیوں کہ یہ خصوصیات انہوں نے اپنے والدین سے لی ہیں۔ خصوصیات بچوں میں اپنے والدین سے منتقل ہوتی ہیں۔ اور اس عمل کو وراثت کہتے ہیں۔
لیکن بائیولوجی میں خصوصیت کس چیز کو کہتے ہیں؟ یہ اگلا سوال تھا؟ اورہم بچوں کی آنکھوں میں اب چمک تھی۔ ہم کچھ سیکھ چکے تھے اور مزید سیکھنا چاہتے تھے۔
(جاری ہے)