میں حیاتیات کا طالبعلم ہوں اور اتفاق سے ان لوگوں میں سے ہوں جو زندگی کے ہر پہلو کو “کتابی باتوں” کی عینک سے دیکھتے ہیں۔ نکاح کے معاملے پر شروع ہوئی حالیہ بحث پر اپنی ایک پرانی لکھت قارئین کے لئے پیش کر رہا ہوں۔ یہاں دی گئی تمام تر معلومات خالصتا حیاتیات کی کتابوں اور معاشرے کے ذاتی مشاہدے سے ماخوذ ہیں اور کوشش کی گئی ہے کہ دینی تعلیمات کو شامل بحث نہ کیا جائے۔

ڈارون نے اپنی شہرہ آفاق کتاب، جس میں اس نے ارتقاء کا نظریہ پیش کیا تھا، میں ایک باب “جنسی چناؤ” پر بھی لکھا تھا۔ ڈارون ایک انتہائی محتاط مشاہدہ کرنے والا شخص تھا جس نے زندگی کے متعدد پہلوؤں پر بہت باریکی سے تحقیق کر کے اپنی کتاب کو ترتیب دیا تھا۔ اس نے اس باب میں نوٹ کیا کہ عموماً تمام جانداروں میں مادہ اپنے نر کا انتخاب کرتی ہے جب کہ نر زیادہ تر کسی نہ کسی طرح (پرندے گا کر، مور ناچ کر، بکرے لڑ کر، مینڈک ٹرا کر، اور بیا گھونسلا بنا کر) اپنی صلاحیتوں کا اظہار کرتے ہیں اور آپس میں ایک دوسرے سے مقابلہ کرتے ہیں تاکہ ماداؤں کی توجہ حاصل کر سکیں۔

سرسری نگاہ ڈالی جائے تو انسانوں میں ایسا ہوتا نہیں نظر آتا، بلکہ حقیقت اس کے برعکس لگتی ہے۔ یہاں عموما مرد خواتین کا انتخاب کرتے ہیں۔ تاہم یہ اختلاف سطحی ہے اور در حقیقت انسانوں کی زندگی کے تمام پہلوؤں کے پیچھے کار فرما اصول وہی ہیں جو باقی جانداروں میں بھی رائج ہیں۔ اس فرق کو سمجھنے کے لیے پہلے یہ دیکھ لیں کہ حقیقت میں ماجرا ہے کیا؟

حیاتیات کا سب سے پہلا اصول یہ ہے کہ تمام جاندار اپنے جیسے نئے جاندار پیدا کرتے ہیں یا پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں یا کم سے کم خواہش ضرور رکھتے ہیں۔ ہر ایک کی کوشش ہوتی ہے کہ تعداد میں زیادہ سے زیادہ بچے پیدا کیے جائیں یا جو پیدا کیے جا چکے ہیں ان کو اس قابل بنا لیا جائے کہ وہ اپنی نسل آگے بڑھا سکیں۔

دوسرا اصول یہ ہے کہ ہر جاندار کم سے کم خرچ / لاگت پر زیادہ سے زیادہ نسل بڑھانا چاہتا ہے۔ یہاں لاگت سے مراد وسائل بھی ہو سکتے ہیں اور محنت یا وقت بھی۔

تیسرا اصول یہ کہ زندگی مسلسل جدوجہد کا نام ہے اور ہر کوئی اپنا مقصد پورا کرنے کے لیے ہر ممکن راستہ بروئے کار لاتا ہے۔

مختلف جاندار اپنی نسل کو آگے بڑھانے کے لیے مختلف راستے استعمال کرتے ہیں۔ دنیا میں جتنی طرح کے جاندار ہیں تقریبا اتنی ہی مختلف حکمت عملیاں بھی مل جاتی ہیں تاہم آسانی کے لیے آپ ان کو دو گروہوں میں تقسیم کر سکتے ہیں۔ کچھ کی حکمت عملی یہ ہوتی ہے کہ بچوں تعداد اتنی رکھی جائے کہ کوئی نہ کوئی بچ جائے (مثلاً مچھلیاں جو سینکڑوں انڈے دیتی ہیں)، جب کہ دوسری طرف بعض ایسے ہوتے ہیں جو کم تعداد لیکن مکمل توجہ کے اصول پر کار فرما ہوتے ہیں (مثلا چڑیا جو ایک یا دو جوڑے پیدا کرتی ہیں)۔

قدرت میں پائی جانے والی ہزاروں لاکھوں لڑائیوں میں سے ایک ازلی لڑائی نر اور مادہ کے درمیان بھی ہے۔ تمام جانداروں میں نر کی کوشش ہوتی ہے کہ بچوں کی تعداد زیادہ سے زیادہ رکھی جائے جبکہ مادہ ایک یا چند بچے پیدا کر کے اپنی تمام تر توجہ ان کی طرف مرکوز رکھتی ہے۔ نر کے لیے بچے پیدا کرنا نسبتا آسان اور کم خرچ ہے۔ وہ ایک وقت میں ایک سے زیادہ ماداؤں کے ساتھ مل کر بچے پیدا کر سکتا ہے جبکہ اس عمل کے فورا بعد وہ ہر قسم کی ذمہ داری سے جسمانی طور پر آزاد ہو جاتا ہے۔ دوسری طرف مادہ کی جبلت اس سے مختلف ہے۔ جانداروں کی ہر قسم میں مادہ ایک مخصوص عرصے تک جسمانی اور نفسیاتی طور پر بچوں کی نگہداشت پر مجبور ہوتی ہے۔ وہ اپنے بچوں پر مرد کی نسبت کئی گنا زیادہ توانائی خرچ کرتی ہے۔ اس میں کچھ وقت ایسا بھی ہوتا ہے جب وہ مزید بچے پیدا کر ہی نہیں سکتی اور ایک خاص حد سے زیادہ تعداد کی نگہداشت اس کے لیے ممکن ہی نہیں۔

ایسے میں ایک شدید اختلاف جنم لیتا ہے جس کی گھن گرج زندگی کے ہر حصے، پہلو اور کردار میں سنائی دیتی ہے۔ نر کی کوشش ہوتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ ماداؤں تک رسائی حاصل کرے جب کہ مادہ کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ ایسا نر ڈھونڈے جو اس کے بچوں کی پرورش کا بوجھ اٹھانے میں زیادہ سے زیادہ دیر تک اپنا حصہ ڈالے۔ گویا نر تھوڑی دیر کا ساتھ چاہتا ہے اور مادہ لمبے عرصے کا۔ یعنی عورت کی “محبت” لازوال اور مرد کی محبت “وقتی” ہوتی ہے جس کا تذکرہ آپ کو وارث شاہ سے لے کر امریتا پریتم تک مل جائے گا۔

انسان چونکہ ایک معاشرتی حیوان ہے چنانچہ معاشرے کے وجود میں آنے اور معاشرتی ارتقاء کے دوران فرد کی کئی ذمہ داریوں کا بوجھ معاشرے یا خاندان نے اپنے اوپر لے لیا۔ چنانچہ مشرقی معاشروں میں عورت کی اس جبلت کا خیال رکھتے ہوئے معاشرہ (یا عورت کا خاندان) اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ عورت کے مفاد کا تحفظ اس انداز سے کیا جائے کہ مرد اس تک اس وقت تک رسائی حاصل نہ کر سکے جب تک اولاد کا بوجھ اٹھانے میں برابر کی ذمہ داری قبول نہ کر لے۔ نکاح دراصل معاشرے کی طرف سے لگائی گئی اس پابندی کی ایک شکل ہے جو مرد کو مجبور کرتی ہے کہ وہ نان نفقے کی شکل میں بچوں کی پرورش میں برابر کا حصہ دار ہو۔ ہمارے یہاں باپ اور بھائی جس”عزت” کی حفاظت کرتے نظر آتے ہیں اس کی اصل حقیقت یہ ہے۔ بھائیوں کی کوشش ہوتی ہے کہ کوئی مرد بہن کو دیکھ بھی نہ سکے۔ دوسرے لفظوں میں وہ غیر شعوری طور پر عورت کی اس جبلت پر عملدرآمد کروا نے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں جس کو آج کل پابندی سمجھا اور سمجھایا جاتا ہے۔

اسی سارے تماشے کا دوسرا پہلو زیادہ مزے دار ہے۔ جہاں باپ اور بھائی عورت کا ساتھ دیتے ہیں وہیں بہنیں اور ماں غیر شعوری طور پر مرد کی جبلت پر عملدرآمد کے لیے کمر کس کے میدان میں آ جاتی ہیں۔ عورتیں اپنے شوہر کو دوسری بیوی کی اجازت دینے کو اپنے بچوں کے حق پر ڈاکہ سمجھتی ہیں لیکن اپنے بھائی کی دوسری شادی کی لاشعوری طور پر حمایت کرتی ہیں۔ چنانچہ جس بہو میں شادی سے پہلے گُن ہی گُن تھے، اسی میں شادی کے فورا بعد خامیاں ہی خامیاں نظر آنے لگتی ہیں اور نئی بہو لانے کی باتیں شروع ہو جاتی ہیں۔ یہ خواتین اپنے لیے جو چیز روا نہیں رکھتیں، اپنے اس رویے کی حقیقت سے مکمل بے خبر طور پر اپنے بھائی کی جبلت کی خاطر ایڑھی چوٹی کا زور لگاتی ہیں۔ یہی اصول تب بھی کار فرما ہوتا ہے جب شوہر کے معاشقے کا پتہ لگنے پر اسکو “وقتی غلطی” سمجھ کر معاف کر دیا جاتا ہے لیکن شوہر دوسری شادی کر لے تو معافی کی گنجائش نہیں نکلتی۔

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ مغربی معاشرے میں، جہاں فرد کی نگہداشت کی زیادہ تر زمہ داری خاندان یا معاشرے سے اٹھ کر ریاست کے سر پر ڈال دی گئی ہے وہاں آزادئ نسواں کے نام پر عورت تک رسائی نسبتا کہیں آسان بنا دی گئی ہے۔ وہاں خاندان کا فرد کے اوپر اثر اس طرح نہیں رہا جس طرح قدیم وقتوں میں تھا، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ نکاح یا قانونی کارروائی کے بغیر مرد عورت تک رسائی حاصل کر سکتا ہے (جو اس کی جبلت ہے)۔ ایسی صورت میں بچوں کی نگہداشت کی ذمہ داری ریاست اٹھاتی ہے (اگر مرد اور عورت اس زمہ داری کے لیے اہل یا متفق نہ ہوں)۔ اب وہاں عورت اپنی جبلت کے ہاتھوں دربدر ہوتی پھرتی ہے اور اپنے بچوں کی خاطر ایک وفادار باپ ڈھونڈتی رہتی ہے۔ کئی کئی سال اکٹھے رہنے اور متعدد بچوں کے بعد بھی مرد نکاح کی پابندی کو گلے ڈالنے کے لیے راضی نہیں ہوتے۔

آپ اپنے اردگرد نگاہ دوڑائیں گے تو آپ کو ان عمومی رویوں اور ان کے پس منظر میں بیان کردہ اصولوں کی بے شمار مثالیں مل جائیں گی۔ گرچہ کئی مثالیں اس کے خلاف بھی آسانی سے مل جاتی ہیں تاہم یہاں بیان کردہ اصول اور مظاہر قدرت واضح اکثریت میں نظر آتے ہیں۔

Muhammad Bilal

I am assistant professor of biology at Govt. KRS College, Lahore. I did my BS in Zoology from University of the Punjab, Lahore and M.Phil in Virology from National University of Sciences and Technology, Islamabad. I am Administrator at EasyLearningHome.com and CEO at TealTech