کیا آپ کو معلوم ہے کہ ماؤنٹ ایورسٹ کی ایگزیکٹ اونچائی کیا ہے؟ نہیں معلوم؟ کوئی بات نہیں- ماؤنٹ ایورسٹ کی اونچائی مجھے بھی معلوم نہیں ہے، اور نہ ہی دنیا میں کسی اور کو معلوم ہے- نہیں، ایسا نہیں ہے کہ ہمیں ماؤنٹ ایورسٹ کی اونچائی کا بالکل اندازہ ہی نہیں ہے- ہمیں یہ معلوم ہے کہ ماونٹ ایورسٹ کی اونچائی لگ بھگ آٹھ ہزار آٹھ سو اڑتالیس میٹر ہے- لیکن یہ اونچائی بالکل ایگزیکٹ نہیں ہے- ہمیں معلوم ہے کہ ماؤنٹ ایورسٹ کی اونچائی میں اضافہ ہو رہا ہے لیکن ابھی تک اس اضافے کی شرح کا محض اندازہ ہی کیا گیا ہے اسے ایکوریسی کے ساتھ نہیں ناپا جا سکا- اس وجہ سے ہمیں دنیا کی بلند ترین چوٹی کی اونچائی ملی میٹر کی ایکوریسی تک معلوم نہیں ہے

ٹیکنالوجی کے اس دور میں اصولاً زمین کی سطح پر کسی بھی مقام کی اونچائی معلوم کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے- جی پی ایس کی ٹیکنالوجی نہ صرف ہمیں کسی بھی مقام کا طول بلد اور عرض بلد فراہم کرتی ہے بلکہ ہمیں اس مقام کی بلندی کی انفارمیشن بھی فراہم کرتی ہے- لیکن ابھی تک ہمالیہ کی کسی بھی چوٹی کی ایگزیکٹ اونچائی جی پی ایس سے نہیں ناپی گئی کیونکہ کسی بھی بڑے پہاڑ کی چوٹی پر پہنچنا اور وہاں پر جی پی ایس کا اینٹینا اور ریسیور نصب کرنا آسان کام نہیں ہے-

ماؤنٹ ایورسٹ کی اونچائی تبدیل ہو رہی ہے

ہمالیہ کے سلسلے کے پہاڑ بننے کا آغاز تقریباً پانچ کروڑ سال پہلے ہوا جب دو ٹیکٹانک پلیٹس جنہیں یوریشین پلیٹ اور انڈین پلیٹ کہا جاتا ہے آپس میں ٹکرا گئیں- اس تصادم کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے ٹکرانے کے مقامات پر انڈین پلیٹ میں سلوٹیں پڑ رہی ہیں- ان سلوٹوں کو ہم سلسلہ ہمالیہ کے پہاڑ کہتے ہیں- ماؤنٹ ایورسٹ انہیں پہاڑوں میں سے ایک پہاڑ ہے- یہ دونوں پلیٹیں اب بھی ایک دوسرے کو دھکیل رہی ہیں جس وجہ سے ماؤنٹ ایورسٹ کی بلندی میں آج بھی تقریباً پانچ ملی میٹر فی سال کے حساب سے اضافہ ہو رہا ہے- ٹیکٹانک پلیٹس کے ٹکرانے کی وجہ سے اس علاقے میں شدید زلزلے بھی آتے رہتے ہیں جن سے زمین کی سطح کی اونچائی میں یکایک تبدیلی آ سکتی ہے- 1934 میں یہاں ایک شدید زلزلہ آیا تھا جس کے نتیجے میں سائنس دانوں کے اندازے کے مطابق ماؤنٹ ایورسٹ کی بلندی میں ساٹھ سینٹی میٹر کی کمی آ گئی تھی- اسی طرح 2015 میں 7.8 مقدار کے زلزلے سے بھی اس پہاڑ کی اونچائی میں کئی سینٹی میٹر کی تبدیلی آ گئی تھی- تاہم ابھی تک ان تبدیلیوں کو درست طور پر ناپنے کا طریقہ موجود نہیں تھا- اب جی پی ایس ٹیکنالوجی کی وجہ سے مستقبل میں اس پہاڑ کی اونجائی میں کسی بھی یکایک تبدیلی کو انتہائی پریسائز طور پر ناپا جا سکے گا

پہاڑ کی اونچائی کہاں سے کہاں تک ناپی جائے؟

کسی بھی پہاڑ کی اونچائی کی پیمائش کے لیے ہمیں کسی ریفرنس کی ضرورت ہے جس کے نکتہ نظر سے اس کی اونچائی کی پیمائش کی جا سکے- یہ ریفرنس متعین کرنا اس قدر آسان نہیں جتنا بادی النظر میں معلوم ہوتا ہے- اس کے علاوہ ہمیں یہ بھی متعین کرنا ہوتا ہے کہ پہاڑ کی چوٹی کا مقام کون سا ہے- یہ مسئلہ بھی اتنا آسان نہیں ہے

پہلے ہم پہاڑ کی چوٹی کے تعین پر بات کرتے ہیں- اکثر پہاڑ ایسے تکون نہیں ہوتے کہ ان کی چوٹی ایک واضح مقام ہو- پہاڑ عموماً بے ڈھنگی شکل کے ہوتے ہیں جن کی چوٹی کے مقام ایک سے زیادہ ہو سکتے ہیں- تاہم اس سے زیادہ مشکل مسئلہ یہ ہے کہ اکثر بڑے پہاڑ برف سے ڈھکے ہوتے ہیں- ان برف پوش پہاڑوں کی چوٹی کے مقام کا تعین مزید مشکل ہو جاتا ہے- کیا برف کی اونچائی کو بھی پہاڑ کی اونچائی میں شامل کیا جانا چاہیے؟ اگر اس سوال کا جواب ہاں میں ہے تو پھر ہر سال پہاڑ کی اونچائی تبدیل ہوتی رہے گی کیونکہ پہاڑوں کی چوٹیوں بر برف کی مقدار میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے- اگر اس سوال کا جواب نہیں میں ہے تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ کیسے معلوم کیا جائے کہ پہاڑ کی چوٹی پر برف کی تہہ کتنی موٹی ہے- اس معاملے میں ماہرین کی متفقہ رائے یہ ہے کہ برف کی موٹائی کو پہاڑ کی اونچائی کی پیمائش میں شامل نہیں ہونا چاہیے

اب ہم آتے ہیں اس مسئلے کی طرف کہ پہاڑ کی اونچائی کو کہاں سے ناپا جانا چاہیے

زمین مکمل طور پر کروی نہیں ہے بلکہ خط استوا پر اس کا قطر قطبین پر زمین کے قطر سے کچھ زیادہ ہے- اس وجہ سے خط استوا کے ارد گرد موجود چمبورازو پہاڑ (جو کہ ایکواڈور میں واقع ہے) کی چوٹی کا زمین کے مرکز سے فاصلہ ماؤنٹ ایورسٹ کی چوٹی کے زمین کے مرکز سے فاصلے سے زیادہ ہے- زمین کے مرکز سے چمبورازو کی چوٹی تک کا فاصلہ 6384.43 کلومیٹر ہے جو ماؤنٹ ایورسٹ کی چوٹی کے زمین کے مرکز سے فاصلے سے 6.31 کلومیٹر زیادہ ہے- اگر اس نکتہ نظر سے دیکھا جائے تو چمبورازو پہاڑ کی چوٹی زمین کا سب سے بلند مقام ہے- لیکن اگر ان دونوں چوٹیوں کی بلندی سطح سمندر سے ناپی جائے تو ماؤنٹ ایورسٹ ہی دنیا کی بلند ترین چوٹی ہے- کسی بھی مقام کی بلندی کی پیمائش کے لیے سطح سمندر ہی کو ریفرنس کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے- لیکن کس سمندر کی سطح کو؟ زمین کے تمام سمندر اہک ہی بلندی پر نہیں ہیں-

پانامہ نہر بحر اوقیانوس یعنی Atlantic Ocean اور بحرالکاہل یعنی Pacific Ocean کو آپس میں ملاتی ہے- یہ دونوں سمندر ایک ہی بلندی پر نہیں ہیں- اگرچہ یہ فرق چند سینٹی میٹر کا ہے لیکن دونوں سمندروں کی سطح میں فرق بہرحال موجود ہے- چنانچہ سطح سمندر کو متعین کرنے کے لیے مختلف سمندروں کی سطح کی اوسط نکالی جاتی ہے اور اسے زمین کی اوسط سطح سمندر تصور کیا جاتا ہے

خشکی پر سطح سمندر کی اوسط اونچائی کیسے متعین کی جاتی ہے

اب سوال یہ ہے کہ اوسط سطح سمندر کو خشکی کے علاقوں پر کیسے منطبق کیا جائے- اس کے لیے دو طریقے اختیار کیے جا سکتے ہیں- ایک طریقہ تو یہ ہے کہ زمین کو ایک بیضوی جیومیٹریکل شکل تصور کیا جائے اور زمین کے خشک علاقوں کی سطح کے نیچے ایک ایسی فرضی لائن کھینچی جائے جو سمندر کی اوسط سطح کو ظاہر کرتی ہو یعنی اس فرضی خط کا زمین کے مرکز سے فاصلہ وہی ہو جو زمین کے مرکز سے اوسط سطح سمندر کا ہے- اس فرضی خط سے کسی بھی پہاڑ کی چوٹی کے فاصلے کو اس پہاڑ کی بلندی تسلیم کیا جا سکتا ہے- اس طریقے کو Ellipsoid method کہا جاتا ہے-

لیکن کچھ ماہرین سطح سمندر کی اس ڈیفینیشن سے مطمئن نہیں ہیں- ہم جانتے ہیں کہ پانی کشش ثقل کی وجہ سے زمین کے مرکز سے اپنا فاصلہ کم سے کم رکھنے کی کوشش کرتا ہے- چنانچہ سمندر کی سطح پر کشش ثقل کی مقدار کو سٹینڈرڈ مان کر اگر ایک فرضی لکیر کھینچی جائے جو خشکی پر وہ مقام ظاہر کرے جہاں پر کشش ثقل عین اتنی ہی ہے جتنی سطح سمندر پر ہے تو یہ لکیر سطح سمندر کو درست طور پر ظاہر کرے گی- اس فرضی خط کو equipotential surface of gravity کہا جاتا ہے- ٹھوس چٹانوں کی کثافت چونکہ زیادہ ہوتی ہے اس لیے ٹھوس چٹانوں کی کشش ثقل بھی زیادہ ہوتی ہے- پہاڑی سلسلے چونکہ ٹھوس چٹانوں پر مشتمل ہوتے ہیں اس لیے پہاڑی علاقوں میں کشش ثقل کچھ زیادہ ہوتی ہے- چنانچہ پہاڑی علاقوں میں equipotential surface of gravity کا فرضی خط اوسط سطح سمندر سے کچھ نیچے ہو گا- دوسرے لفظوں میں اگر تمام پہاڑی علاقوں کو فلیٹ کر دیا جائے (تاکہ وہاں سمندر کا پانی آ جائے) لیکن ان مقامات کی موجودہ کشش ثقل کو برقرار رکھا جائے تو وہاں سمندر کے پانی کی سطح وہ ہو گی جو equipotential surface of gravity کے فرضی خط سے ظاہر کی جا رہی ہے- یہ سطح Ellipsoid method سے متعین کی جانے والی سطح سمندر سے کچھ نیچے ہوتی ہے- اس طریقے کو Geoid method کہا جاتا ہے

اگرچہ کچھ ماہرین کی نظر میں سمندر کی سطح کو ظاہر کرنے کے لیے Geoid method زیادہ درست ہے لیکن آج کل جی پی ایس سسٹم میں Ellipsoid method استعمال ہوتا ہے جس کی بنا پر زمین کے ہر مقام کا طول بلد، عرض بلد، اور بلندی متعین ہوتی ہے- چنانچہ ماؤنٹ ایورسٹ کی بلندی بھی Geoid method سے ہی متعین کی جاتی ہے

ماؤنٹ ایورسٹ کی اونچائی

ماؤنٹ ایورسٹ کی اونچائی کا پہلا سروے 1850 میں کیا گیا تھا- اس ٹیم نے اپنے کام کا آغاز خلیج بنگال سے کیا اور راستے کے مختلف مقامات کی اونچائی کی پیمائش کرتے کرتے ماؤنٹ ایورسٹ تک پہنچے- اس ٹیم کے اندازے کے مطابق ماؤنٹ ایورسٹ کی سطح سمندر سے اونچائی 8840 میٹر تھی- 1954 میں بھارتی حکومت کی ایک سروے ٹیم نے اس پہاڑ کی اونچائی 8848 میٹر متعین کی- 1999 میں نیشنل جیوگرافکس کی ایک ٹیم نے اس پہاڑ کی بلندی 8850 میٹر قرار دی اور 2005 میں چین کی ایک ٹیم نے اس چوٹی کی پیمائش 8844 میٹر بتلائی- چنانچہ اس وقت مختلف ممالک اور ادارے اپنے سرکاری اعداد و شمار میں اس چوٹی کی اونچائی مختلف بتاتے ہیں-

اب البتہ کچھ امید بندھ چلی ہے کہ ہمیں ماؤنٹ ایورسٹ کی ایگزیکٹ اونچائی معلوم ہو جائے گی- سنہ 2019 میں نیپال کی حکومت نے تجربہ کار کوہ پیماؤں کا ایک مشن ماؤنٹ ایورسٹ پر بھیجا تھا جس نے 22 مئی 2019 کو ماؤنٹ ایورسٹ کے بلند ترین مقام پر جی پی ایس کا ریسیور نصب کیا اور ساتھ ہی وہاں پر ایک ground penetrating RADAR بھی نصب کیا جو چوٹی پر برف کی گہرائی بھی ناپ سکے- اگرچہ اس ڈیٹا سٹیشن نے کام شروع کر دیا ہے لیکن نیپال کی حکومت نے ابھی تک اس مشن کے ڈیٹا کی بنیاد پر ماؤنٹ ایورسٹ کی بلندی کی پیمائش کے مشن کے نتائج کا اعلان نہیں کیا ہے- چین اور نیپال کی حکومتوں نے اعلان کیا ہے کہ اس پراجیکٹ کے ڈیٹا کی مدد سے ماؤنٹ ایورسٹ کی چوٹی کی اونچائی کا اعلان دونوں ممالک مشترکہ طور پر کریں گے اور آئندہ سرکاری اعداد و شمار میں یہ اونچائی درج کی جائے گی- امید ہے کہ ماؤنٹ ایورسٹ کی جدید ترین ٹیکنالوجی سے پیمائش کردہ اونچائی کا اعلان آئندہ چند ماہ میں کر دیا جائے گا

اصل آرٹیکل کا لنک