ایک طرف جہاں کورونا کی وبا کا دور دورہ ہے وہیں طرح طرح کے سازشی نظریات سننے کو مل رہے ہیں۔ ان نظریات میں سے ہم پاکستانیوں کا ہمیشہ سے سب سے پسندیدہ  نظریہ امریکی و یہودی سازش  والا  ہوتا ہے کہ یہ  وبا چین کی معاشی طاقت کو کمزور  کرنے اور مسلمانوں کے اہم مذہبی فریضہ حج و عمرہ  کو موقوف کروانے کے لئے پھیلائی گئی ہے۔  اس  بحث میں اب تو بڑے بڑے نام بھی شامل ہوگئے ہیں  جو کہ انٹرویوز وغیرہ میں ایسے  نظریات کا ذکر کرتے پائے گئے  ہیں ۔

سب سے پہلے تو میں یہ وضاحت کر دینا چاہتا ہوں کہ میں نہیں جانتا کہ آیا یہ وائرس قدرتی  طور پر وجود میں آیا ہے یا کسی شر پسند ذہن کی اختراع ہے، لیکن اتنا ضرور جانتا ہوں کہ اب تک کی ہونے والی کسی  تحقیق میں خواہ وہ چین میں کی گئی ہو یا مغرب میں اس وائرس کے وجود میں انسانی کاوش کا سراغ نہیں لگایا جا سکا ہے۔ چینی حکام  دبے دبے الفاط میں  امریکی سازش کی بات تو کر رہے ہیں لیکن وہاں کے سائنسدان ابھی تک اس سازشی نظریہ کی حمایت میں کوئی ثبوت پیش نہیں کر سکے ہیں۔

حیاتیاتی ہتھیار (بائیو ویپنز) یا حیاتیاتی خطرات (بائیو تھریٹس) بنیادی طور پر بیماری پھیلانے والے جاندار یا اجسام  ہوتے ہیں جنھیں دانسۃ طور پر بطور ہتھیار استعمال کیا جاسکتا ہو۔  بہت سارے جراثیم اور وائرس وغیرہ ایسے  ہیں جنھیں خطرناک سمجھا جاتا ہے  جیسا کہ چیچک، اینتھراکس وغیرہ ۔ موجودہ تاریخ میں حیاتیاتی ہتھیاروں کے استعمال کا اہم واقعہ گیارہ ستمبر کے حملوں کے فوراً بعد اینتھراکس جرثومہ سے بھرے ہوئے خطوط  کا امریکی اراکینِ سینٹ اور میڈیا دفاتر کو بھیجا  جانا تھا۔ ان حملوں کے نتیجے میں 5 افراد ہلاک اور 17 متاثر ہوئے تھے۔

کورونا کی وبا، حیاتیاتی ہتھیار اور سلور لائننگ 1

اقوامِ متحدہ کے پلیٹ فارم سے تقریباً تمام ممالک نے ہی  حیاتیاتی ہتھیاروں کی تیاری اور استعمال پر پابندی لگانے کا وعدہ کیا ہوا ہے ۔ حیاتیاتی ہتھیاروں کے استعمال میں ایک سب سے اہم مسئلہ ان کو کنٹرول کرنے کا ہوتا ہے۔ آپ کلاشنکوف کو دو طریقوں سے روک سکتے ہیں، ایک اگر اس کے ٹریگر سے انگلی ہٹا لیں اور دوسرا اس کا میگزین ختم ہوجانے کے بعد  مزید گولیاں فراہم نہ کی جائیں۔ مزید برآں کسی کو گولی مارنا نہ مارنا کلاشنکوف بردار کے فیصلے پر موقوف ہوتا ہے ، اور عموماً  بچوں، بوڑھوں اور عورتوں کو دیکھ کر انسان کا دل پسیچ ہی جاتا ہے۔

پہلی اور دوسری عالمی جنگوں میں جہاں سائنس کی ہلاکت خیزی کو صنعتی پیمانے پر انسان کشی کے لئے استعمال کرنا شروع کیا گیا تو ابتدا کیمیائی ہتھیاروں سے ہوئی۔ جرمن اور اتحادی افواج نے ایک دوسرے پر گیسوں کے کنستروں کی برسات کردی اور نتیجۃً ہزارہا  لوگ متاثر ہوئے۔

کیمیائی اور حیاتیاتی ہتھیاروں میں ایک بنیادی فرق یہ ہے کہ کوئی بھی کیمیائی مادہ جسے بطور ہتھیار استعمال کیا جائے اس وقت تک مؤثر رہتا ہے کہ جب تک اس کی مناسب مقدار ماحول (ہوا، خوراک یا پانی) میں  موجود رہے، یہ ازخود نہ تو اپنی مقدار بڑھا سکتے ہیں اور نہ ہی ان میں کوئی ایسی ارتقائی تبدیلی  رونما ہونے کا امکان ہوتا ہے کہ  ان کی ہلاکت خیزی  میں اضافہ ہوتا جائے۔ کیمیائی اور روایتی ہتھیاروں میں فرق ان کے  تباہ کن اثرات کا ہوتا ہے، کیمیائی ہتھیاروں کی ہلاکت خیزی  مذہب، زبان، رنگ، نسل  اور جنس وغیرہ میں تفریق نہ کرتے ہوئے ہر انسان کو متاثر کرتی ہے بلکہ کمزور افراد جیسے مریض، بچے اور بوڑھے ، جوانوں اور صحت مند وں کے مقابلے میں زیادہ  شدت سے متاثر ہوتے ہیں ۔ بعینہ یہی حال حیاتیاتی ہتھیاروں کا بھی ہوتا ہے، ان کے اثرات بھی کمزور افراد کو زیادہ شدت سے  نشانہ بناتے ہیں، جیسا کہ آپ آج کل کورونا کی وبا میں دیکھ رہے ہیں۔

کیمیائی اور روایتی ہتھیاروں کے مقابلے میں حیاتیاتی ہتھیاروں کا ایک نہایت ہی اہم اور خطرناک پہلو ان کی افزائش کی صلاحیت ہے ۔ چونکہ یہ  جاندار (مثلاً کوئی بھی جرثومہ ،وائرس یا طفیلیہ)  ہوتے ہیں، ان میں اپنی  تعداد بڑھا نے کی قدرتی صلاحیت ہوتی ہے۔  ایک بار پھر کورونا کی ہی مثال  لیتے ہیں، آپ سبھی یہ جان چکے ہونگے یہ وائرس ایک بیمار شخص سے اس کے تیمارداروں اور ملنے والوں میں  منتقل ہوتا ہے اور ان کو بیمار کرتا ہے اور اسی طرح آگے پھیلتا چلا جاتا ہے، ایسے ہی اوربھی دوسرے بیماری پھیلانے والے جراثیم بیمار افراد کے جسم میں رہتے ہوئے اپنی افزائش کرنے میں مصروف رہتے ہیں اور یہ نہ صرف انسانوں میں ہی ہوتا ہے بلکہ وہ تمام  جراثیم اور طفیلیے بھی  جو انسانوں کے علاوہ جانوروں اور پودوں  کو بیمار کرتے ہیں ، ان کا بھی یہی طرزعمل ہوتا ہے۔

کورونا کی وبا، حیاتیاتی ہتھیار اور سلور لائننگ 2

اس امر کی آسان مثال  آکاس بیل ہے، آپ  جانتے ہی ہوں گے  اس طفیلی پودے کے  بارے میں اور اگر نہیں بھی جانتے تو آپ نے کہیں نہ کہیں دیکھا ضرور ہوگا۔ عام پودوں کے برعکس یہ پودا سورج کی روشنی کی مدد سے اپنی خوراک تیار نہیں کرسکتا ہے لہٰذا یہ دوسرے پودوں کی خوراک چوس لیتا ہے اور اس دوران اپنی بڑھوتری اور افزائش کرتے کرتے اپنے میزبان پودے کو سُکھا دیتا ہے، اسی دوران اگر بڑھتے بڑھتے آکاس بیل ایک درخت سے دوسرے درخت تک پہنچ جائے یا پھر کوئی اس کا تھوڑا سا ٹکڑا بھی توڑ کر کسی دوسرے صحت مند پودے پہ ڈال دے تو اس کا بھی یہی حشر ہونا مقدر ہو جاتا ہے۔ اب زرا  تصور کریں کہ آپ کا  پھلوں کا باغ ہے اور آپ کا کوئی دشمن  اس باغ کے درختوں پر آکاس بیل کے ٹکڑے پھینک دے تو آپ کے باغ کا کیا حال ہوگا۔ مجھے یاد ہے کہ ہمارے گھر میں لگی بوگن ویلا کی بیل پر کچھ برس قبل کہیں سے آکاس بیل آگئی تھی، اس کے خاتمے کے لئے تقریباً پورا ایک سال لگا جب ہر چھٹی والا دن والد صاحب کے ساتھ ملکر بوگن ویلا میں سے آکاس بیل کو کانٹ چھانٹ کے  نکالنے میں گزرتاتھا۔

اچھا اب واپس آتے ہیں حیاتیاتی ہتھیاروں  پر آپ جان چکے ہیں  کہ یہ جاندار نہ صرف  جانی بلکہ بلواسطہ  اور بلاواسطہ  دونوں طور پر ٹھیک ٹھاک مالی نقصان بھی کر نے کی صلاحیت کے حامل ہوتے ہیں۔ ایک دفعہ ان کو ماحول میں چھوڑ دیا جائے تو پھر ان کو کنٹرول کرنا نہایت دشوار ہو جاتا ہے اور ان کی ہلاکت خیزی بلا تفریق ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان ہتھیاروں کو پوری دنیا میں سختی سے نا پسند کیا جاتا ہے، اگرچہ کئی ممالک ماضی میں خفیہ طور پر ایسے ہتھیاروں کی تیاری  کے لئے تحقیقی پروگرامز کرتے رہے ہیں اور اب یہی بداعتمادی آپ کو اس وبا کے تناظرمیں امریکہ اور چین کے درمیان نظر آرہی ہے۔

پاکستان جیسے ممالک کے لئے اس حالیہ وبا کے چند ایک فائدے مند پہلو بھی ہیں، جہاں پوری دنیا کو اس بات کا احساس ہو رہا ہے کہ جیسے قومی دفاع کے  لئے ہوائی و بحری جہاز اور ٹینک ضروری ہیں وہیں صحت کی سہولیات ان تمام اسلحہ کے ذخائر سے بھی زیادہ اہمیت کی حامل ہیں۔  اس وبا کے دوران ایک طرف ہر ملک اپنے قومی صحت کے نظام کو بہتر کرنے اور اس کی استعداد بڑھانے میں مصروف ہے کہ جس سے آنے والے دنوں میں عمومی صحت کی سہولیات  میں بہتری آنے کی امید ہے وہیں آنے والے کل میں صحتِ عامہ  کا معیار بھی گزشتہ کل اور آج کے مقابلے میں یقیناً بہتر ہوگا۔ پاکستان میں جہاں ہم ایٹم بم ،آگسٹا آبدوز ، الخالد ٹینک اور  جے ایف 17 تھنڈر تو بنانے کے قابل ہیں لیکن دو ماہ قبل تک کسی کو وینٹی لیٹر بنانے کا خیال تو کجا  یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ ملک بھر میں کتنے وینٹی لیٹر موجود اور کتنے فعال ہیں۔  اس وبا کے دوران ملک بھر میں کئی افراد اور ادارے  جہاں  وینٹی لیٹر کے ڈیزائن اور پرزہ جات کی تیاری  کے حوالے سے مصروفِ عمل ہیں، وہیں دوسری بہت سی ضروری اشیاء جیسے فیس ماسک اور دیگر حفاظتی  ساز و سامان  کی ملکی صنعتوں ہی میں  تیاری پر بھی کام ہو رہا ہے جو کہ صنعتی شعبے کے لئے بہتری کی نوید ہے۔ اس وبا کے خاتمے کے بعد یہ سب وینٹی لیٹرز عام مریضوں کے استعمال میں ہی آئینگے اور یہ حفاظتی ساز و سامان  صحت کے شعبے میں کام کرنے والے میڈیکل اور پیرا میڈیکل اسٹاف کو ماضی کے مقابلے میں زیادہ بہتر تحفظ فراہم کرسکے گا۔ اسی طرح ایک جانب عوام میں بیماری، علاج اور ویکسین جیسے موضوعات کا شعور بڑھ رہا ہے وہیں  اس شعور کو دیگر بیماریوں جیسے پولیو اور خسرہ وغیرہ کے تدارک کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

ذاتی طور پر میرے لئے بطور خوردحیاتیات کے ایک طالبِ علم کی حیثیت میں سب سے خوش آئند امر  ہمارے  نظامِ صحت اور انتظامیہ میں آئندہ کسی بھی وبا سے نمٹنے کی (جزوی ہی صحیح )  صلاحیت کا حصول ہے۔ آج حکومت، انتظامیہ اور عوام  لاک ڈاؤن، قرنطینہ، سماجی دوری اور خودحفاظتی تنہائی جیسے عوامل کے فوائد و اثرات سے واقف ہیں۔  قومی سطح پر مربوط حکمتِ عملی اور بین الصوبائی رابطے کے لئے ایک کمانڈ اور کنٹرول مرکز کا قیام عمل میں آنا  مستقبل میں کسی بھی قدرتی یا انسانی  تیار کردہ  وبا سے نمٹنے  کے لئے بروقت  اور مؤثر اقدامات اٹھانے میں مفید ثابت ہوگا۔

اس مشکل اور کڑے وقت میں بھی انگریزی محاورے والی سلور لائننگ چمکتی دمکتی نظر آرہی ہے بس ضرورت ہے تو صرف تھوڑے سے صبر، احتیاط اور کشادہ دلی کی۔

Dr. Muhammad Ibrahim Rashid Sherkoti

Hi, I am a Ph.D. in biotechnology from National University of Sciences and Technology, Islamabad. I am interested in biotechnology, infectious diseases and entrepreneurship. You can contact me on my Twitter @MIR_Sherkoti.