برطانیہ کی ایک تیرہ سالہ لڑکی کا ‘ناقابل علاج’ کینسر ایک نئے طریقہ علاج کے استعمال سے مکمل طور پر ختم ہو گیا ہے اور اب یہ بچی مکمل طور پر تندرست ہو چکی ہے- اس بچی کو لیوکیمیا (Leukemia) یعنی خون کا کینسر تھا جسے ناقابل علاج قرار دے دیا گیا تھا-

جب اس بچی کے کینسر کی تشخیص کی گئی تو پہلے اس کینسر کا علاج کیمو تھیراپی اور بون میرو ٹرانسپلانٹ (یعنی ہڈیوں کے گودے کا ٹرانسپلانٹ – خون کے خلیے ہڈیوں کے گودے میں بنتے ہیں) لیکن بچی کا کینسر ان طریقوں سے کنٹرول نہیں کیا جا سکا- ڈاکٹروں نے اس بچی کے کینسر کو لاعلاج قرار دے دیا اور یہ رائے دی کہ یہ بچی چند ماہ سے زیادہ زندہ نہیں رہ پائے گی

ہمارے خون کے سرخ خلیے جسم میں آکسیجن فراہم کرتے ہیں جبکہ سفید خلیے مدافعتی نظام کا حصہ ہوتے ہیں جو بیرونی حملہ آوروں یعنی بیکٹیریا، وائرس، اور فنگس وغیرہ کے خلاف جنگ کرتے ہیں اور ہمارے جسم کو بیماریوں سے محفوظ رکھتے ہیں- اس بچی کے خون میں سفید خلیے کینسر زدہ ہو چکے تھے یعنی کسی بیرونی حملہ آور کے خلاف مزاحمت کرنے کے قابل نہیں رہے تھے- کینسر کے ایسے مریضوں میں معمولی انفیکشن بھی جان لیوا ثابت ہو سکتی ہے اور اس کینسر کے اکثر مریض کسی معمولی انفیکشن کی وجہ سے زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں

اس بچی کے ڈاکٹروں نے آخری حربے کے طور پر ایک تجرباتی طریقہ علاج استعمال کرنے کا فیصلہ کیا- جینیاتی انجینیئرنگ کے کرسپر (CRISPR) ٹولز استعمال کر کے عطیہ شدہ ٹی سیلز میں ایسی تبدیلیاں کی گئیں جن سے ان میں موجود ایک پروٹین CD7 ختم کر دی گئی جو عام طور پر ہر ٹی سیل میں موجود ہوتی ہے- اس کے بعد انہیں بچی کے جسم میں ایسے تمام ٹی سیلز کو ختم کرنے کے لیے پروگرام کیا گیا جن پر CD7 پروٹین موجود ہو (جو کہ تمام ٹی سیلز میں موجود ہوتی ہے- ان تبدیل شدہ ٹی سیلز سے CD7 اسی لیے نکال دی گئی تھی تاکہ وہ کرسپر سے تبدیل شدہ خلیوں پر حملہ نہ کریں صرف بچی کے کینسر زدہ ٹی سیلز پر ہی حملہ آور ہوں)- ان تبدیل شدہ خلیوں کو اس بچی کے جسم میں انجیکٹ کیا گیا تو ایک ماہ کے اندر اندر بچی کے جسم میں موجود تمام ٹی سیلز ختم ہو گئے اور یوں اس بچی کا کینسر بھی ختم ہو گا

اس کے بعد اس بچی کا ایک اور بون میرو ٹرانسپلانٹ کیا گیا تاکہ اس کا جسم نئے سرے سے ٹی سیلز پیدا کر سکے- اس دوران اس بچی کا مدافعتی نظام بالکل ناکارہ تھا اسے لیے اسے ہر طرح سے انفیکشن سے محفوظ رکھنے کے لیے ایک آئسولیٹڈ کمرے میں رکھا گیا تاکہ کوئی بیکٹیریا یا وائرس بچی کے پاس نہ جا سکے- اس نئی بون میرو سے نئے ٹی سیلز بننا شروع ہوئے اور چار ماہ کے بعد بچی کے جسم کا مدافعتی نظام مکمل طور پر فعال ہو گیا- اب اس بچی کا ہر ماہ مکمل میڈیکل چیک اپ ہوتا ہے اور اس بچی کے خون میں کینسر زدہ خلیوں کے کوئی آثار نہیں ہیں

اس بچی کا علاج برطانیہ میں جینیاتی انجینیئرنگ کے مشہور ماہر ڈاکٹر وسیم قاسم نے کیا- ڈاکٹر وسیم قاسم کا اس ٹیکنالوجی سے متعلق لیکچر اس لنک سے دیکھا جا سکتا ہے

Professor Waseem Qasim - TALEN, CRISPR and base edited CAR T-cells for ALL

اوریجنل انفارمیشن کا لنک:

https://www.bbc.com/news/health-63859184