بچوں کے متعلق ہمارے نظریات ہمارے لاشعوری طور پہ دکھائے روئیوں کی صورت اولاد کی شخصیت کے متوازن یا شدید غیر متوازن ہونے پہ اثر انداز ہوتے ہیں۔ مثلاً اگر آپ یہ مانتے ہیں کہ بیٹے معاشی اور بیٹیاں جذباتی سہارا ہوتی ہیں تو آپ اصل میں لاشعوری طور پہ بیٹیوں کو معاشی طور پہ اور بیٹوں کو جذباتی طور پہ غیر فعال ہونے میں بنیادی کردار ادا کر رہے/ رہی ہیں۔
یا آپ یہ مانتے/مانتی ہیں کہ لڑکے جھگڑالو، شور مچانے والے یا زیادہ ایکٹیو ہوتے ہیں تو آپ بن کہیے اپنی بیٹی کوجذبات کے اظہار سے روک رہے ہیں اور بیٹے کو پر تشدد اور غصہ ور روئیے کے اظہار پہ ڈھیل دے رہے ہیں۔
یا آپ یہ مانتے ہیں کہ بیٹا کسی بھی حوالے سے بیٹی سے بہتر ہے یا بیٹی کسی بھی حوالے سے بہتر ہے تو آپ دوسرے کی شخصیت میں احساس کمتری کی بنیاد ڈال رہے ہیں جس کا نتیجہ بالآخر وہی نکلتا ہے جو ہم پہلے سے مان رہے ہوتے ہیں۔ اور ہمیں لگتا ہے کہ یہ قدرتی ہے۔
والدین کو احساس ہونا چاہیے کہ اولاد پیدا کرنا ان کا فیصلہ ہے۔ اس فیصلے کو ذمہ داری سے قبول کرنا بہت ضروری ہے تاکہ ان کی تربیت کے ہر پہلو کو ذمہ داری سے ادا کیا جائے۔
اولاد کی پیدائش اور تربیت ان پہ احسان کے طور پہ جتانا اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ آپ کے فیصلے پہ معاشرتی دباؤ زیادہ تھا۔ یہ رویہ بچوں کے لاشعور پہ منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔ آپ کے جتانے سے بہتر ہے کہ اولاد کو خود اندازہ ہو کہ آپ کی طرف سے ان کی زندگی ان کے لیے خوشگوار تحفہ ہے۔
اولاد کا حصول قدرتی جبلت ہے لیکن اس کی جنس، صنفی کردار، شکل، ذہانت، قد کاٹھ، ذہنی صحت کی بنیاد پہ ان میں تفریق مکمل طور پہ معاشرتی اثر کا نتیجہ ہے۔
اگر آپ کسی مخصوص جنس کی اولاد چاہتے ہیں مثلاً لڑکا، یا مخصوص جنس کی اولاد نہیں چاہتے مثلاً بیٹی، مخنث یا کسی مخصوص ذہنی یا جسمانی مسئلے کا شکار اولاد تو دراصل یہ معاشرتی حدود ہے قدرتی حوالے سے اولاد کا ہونا ہی آپ کے اطمینان کے لیے کافی ہے۔
نسل بڑھانے کے لیے بیٹے کی خواہش کا تعلق بھی معاشرتی اقدار سے ہے قدرتی طور پہ بیٹا ہو یا بیٹی وہ آپ کی وراثت جینیاتی حوالے سے یکساں اگلی نسل تک منتقل کرتے ہیں یعنی آپ کی نسل دونوں سے ہی آگے بڑھ رہی ہوتی ہے۔
باقی ہر چیز آپ کی تربیت پہ منحصر ہے۔