مضمون کا پہلا حصہ یہاں پڑھیں

مضمون کا دوسرا حصہ یہاں پڑھیں

اب تک ہم بات کر چکے ہیں کہ ممکنہ طور پہ حضرت آدم ؑ کے خدوخال افریقی ہو سکتے ہیں، جبکہ اس وقت دنیا میں موجود انسانی آبادی میں بہت زیادہ تنوع اور اختلاف پایا جاتا ہے، خواہ یہ اختلاف خدوخال کا ہو یا جلد کی رنگت کا۔  جلد کی رنگت  کے تنوع کو بھی تفصیل کے ساتھ  جان چکے ہیں کہ مختلف خطوں میں آباد انسانوں کی جلد کا  رنگ آپس میں مختلف کیوں ہے۔ ہونا تو یہ چاہیئے کہ ایک ماں باپ کی اولاد  ایک جیسی شکل و صورت اور رنگت کی حامل ہوتی۔ لیکن ایسا نہ ہونے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ان خطوں میں جا کر آباد ہونے والے  انسانوں کا رنگ قدرتی طور پہ اپنے اپنے ماحول کے مطابق ڈھلتا گیا اور اس کی وجہ سے ہمیں آج دنیا میں ایک تحقیق کے مطابق36 کے لگ بھگ جلد کے رنگوں کے مختلف شیڈز ملتے ہیں۔

اختلافِ زبان و رنگ : آیتِ الٰہی؟ 1

ہو سکتا ہے کہ کوئی شخص یہ کہے کہ میں یا کوئی بھی انسان کیسے دعویٰ کر سکتا ہے کہ ابتدائی انسان  افریقی رنگت اور خدوخال کا حامل تھا۔ یہ بالکل بجا اعتراض ہو سکتا ہے۔ اگرچہ میں نے  پیچھے جینیاتی ٹائم مشین کے حوالے سے کئے گئے تجربہ کا مفصل ذکر کیا ہے، لیکن بحث کی خاطر مان لیتے ہیں  کہ ہمیں نہیں معلوم کہ پہلے انسان کا کیا رنگ تھا۔ اب یہ تو طے ہی ہے کہ سب سے پہلے انسان  کا رنگ سبز، نیلا یا جامنی نہیں ہو سکتا۔ یہ لازمی امرہے کہ وہ  سفیدیا  سیاہ یا پھر گندمی رنگت کا حامل ہی ہوگا ان کے علاوہ اور کوئی رنگت نہیں ہو سکتی ہے۔ اگر ہوسکتی  ہو تی تو آج سب میں نہ صحیح کسی نا کسی انسان میں  تو لازمی نظر آتی۔  یہ بھی نہیں ہو سکتا کہ اس ماضی قدیم کے انسان  کی جلد کہیں سے سفید ہو تو کہیں سے سیاہ اور کہیں سے گندمی ،کیونکہ ایسی رنگت والا کوئی انسان ہم نے کہیں نہیں دیکھا نا کسی کتاب میں ایسے کسی انسان کا ذکر پڑھا۔

اختلافِ زبان و رنگ : آیتِ الٰہی؟ 2

ان دونوں مفروضوں کی دلیل یہ ہے کہ ہم جانتے ہیں کہ بچوں میں  ان کے والدین کی جینز موجود ہوتی ہیں، بعض مرتبہ یہ جینز اپنا اثر دکھاتی ہیں اور کبھی کبھار نہیں بھی دکھاتی، لیکن یہ اثر اولاد کی اولاد یا ان سے بھی آگے جا کے نظر آسکتا ہے  (اگر اس بارے میں آپ تفصیل جاننا چاہتے ہیں کہ جینیات اور موروثیت کیسے کام  کرتی ہیں تو مینڈل کے تجربات جو کہ میٹرک اور انٹر کی بیالوجی کی کتب میں پڑھائے جاتے ہیں کا مطالعہ کیجئے)۔ مثال کے طور پہ اگر اولین بشر کا رنگ فرض کرلیتے ہیں کہ سبز  یا نیلا تھا تو دنیا میں موجود کسی ایک بھی  انسانی  نسل میں کسی ایک دو یا چند افراد کا رنگ تو سبز یا نیلا ہونا چاہیئے تھا  لیکن ایسا نہیں ہے، لہٰذا منطق اور دلیل کے اعتبار سے تواولین انسان کی جلد سیاہ، گندمی یا پھر سفید میں سے ایک ہی ہوسکتی ہے۔

اختلافِ زبان و رنگ : آیتِ الٰہی؟ 3

ایک رنگ سے درجنوں رنگوں کا وجود میں آنا اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ انسانی جسم خود کو اپنے حالات اور ماحول کی مناسبت سے اس طرح سے  ڈھالتا ہے کہ اس کو سب سے زیادہ فائدہ حاصل ہوسکے۔ یہ  بہت سست رفتار اور آہستہ عمل ہے جو کہ سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں لاکھوں برسوں پہ محیط ہوتا ہے۔ اس عمل کی نگہبانی قدرت خود کر رہی ہوتی ہے، جو صفات اور خصوصیات انسانوں کے لئے نقصان دہ اور مضر ہوتی ہیں وہ وقت کے ساتھ یا تو ختم ہو جاتی ہیں یا پھر ایسی خصوصیات سے بدل جاتی ہیں جو کہ کسی ایک خطہ کے مخصوص حالات کے تناظر میں  وہاں کے آباد انسانوں کے لئے مفید ہوتی ہیں۔  یہ عمل صرف انسانوں کے لئے مخصوص نہیں ہے بلکہ تمام تر  جاندار بناتات، حشرات، حیوانات، جرثومے حتیٰ کہ وائرسوں میں بھی مسلسل جاری رہتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال تو کرونا وائرس کی ہے کہ کیسے ہماری آنکھوں کے سامنے ہی دو برسوں میں ایک وائرس سے کتنی ا قسام  (اومیکرون، ڈیلٹا وغیرہ) وجود میں آچکی ہیں۔

اختلافِ زبان و رنگ : آیتِ الٰہی؟ 4

قرآنِ حکیم کی سورۃ روم میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

وَمِنْ آيَاتِهِ خَلْقُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافُ أَلْسِنَتِكُمْ وَأَلْوَانِكُمْ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِّلْعَالِمِينَ (الروم، 30 : 22)

ترجمہ: اور اس کی نشانیوں میں سے آسمانوں اور زمین کی تخلیق (بھی) ہے اور تمہاری زبانوں اور تمہارے رنگوں کا اختلاف (بھی) ہے، بیشک اس میں اہلِ علم (و تحقیق)  والوں کے لئے نشانیاں ہیں۔

یہ رنگوں کا تنوع اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی  ہے جیسے کے زمیں و آسماں کی تخلیق۔ ان کے ساتھ ہی زبان کے اختلاف کو بھی اللہ تعالیٰ اپنی نشانی کہہ رہے ہیں کہ جو تمام انسان الگ الگ بولیاں بولتے ہیں  جیسے عربی، فارسی، اردو، انگریزی، عبرانی، فرانسیسی، روسی، ترکی، بنگالی یہ سب بھی اللہ تعالیٰ کی قدرتِ کاملہ کا مظہر ہیں۔  ہم نہیں جانتے کہ عربی ، فارسی  یا عبرانی کی ابتدا کیسے ہوئی، لیکن یہ اردو تو چند صدیوں پہلے ہی وجود میں آئی ہے اور دیکھتے دیکھتے ہی اس کی شکل کیا سے کیا  ہوتی گئی ہے۔ اسی طرح اردو کے اپنے کئی لہجے ہیں جو مختلف علاقوں میں رائج ہیں۔ ان تمام لہجوں کا ارتقاء وقت کے ساتھ ساتھ ہوا ہے اور بعینہ اردو کی لغت، ذخیرہ الفاظ اور گرائمرسب میں وقت کے ساتھ تبدیلی آئی ہے جسے عرفِ عام میں ارتقاء کہا جاتاہے۔ اس ارتقاء کے ایک طرح سے ہم خود شاہد بھی ہیں کہ ہم نے امیر خسرو کی “چھاپ تِلک سب چھین لی رے موسے نیناں مِلائی کے” سے لیکر ”سرہانے میرؔ کے آہستہ بولو ۔۔۔۔۔۔ابھی ٹک روتے روتے سو گیا ہے” اور ” دل کے آئینے میں ہے تصویر یار ۔۔۔۔۔۔جب ذرا گردن جھکائی دیکھ لی” اپنی نصابی کتب میں پڑھ رکھی ہیں۔ سیدھی سی بات  ہے کہ ہم امیر خسرو کے زمانے والی اردو نا تو بولتے ہیں اور شائد ٹھیک سے سمجھ بھی نہ سکیں، اسی طرح میر تقی میر کے زمانے کا لفظ ‘ٹک’ بھی ہم نہیں استعمال کرتے ، شائد جنھوں نے یہ شعر ہی  نہ پڑھا  یا سنا ہو  انھیں تو اس لفظ کا پتہ بھی نہیں ہوگا۔

 

اختلافِ زبان و رنگ : آیتِ الٰہی؟ 5

اب چاہے کسی زبان کا ارتقاء ہو یا انسانی خدوخال ہوں یہ  سب زمین اور آسمان کی تخلیق کی طرح ہی اللہ تعالیٰ کی قدرتِ کاملہ کے مظہر ہیں تو جس عمل یا پراسس سے گزرنے کے بعد یہ مظاہر ہمارے سامنے آتے ہیں  یعنی ارتقاء کا عمل تو پھر وہ کیسے اسلام کے خلاف ہو سکتا ہے؟  زبان کی بدلتی حالت کو اگر آپ ارتقاء کی براہِ راست دلیل نہیں  سمجھ سکتے تو آپ کا ججھکنا سمجھ میں آتا ہے، لیکن یہ رنگوں کا اختلاف تو حیاتیاتی ارتقاء کے علاوہ کچھ اور ہو  ہی نہیں سکتا ہے۔

اختلافِ زبان و رنگ : آیتِ الٰہی؟ 6

تخلیقِ کائنات اور تخلیقِ بشر کے حوالے سے جوعمومی  تصور ہمارے ہاں راسخ ہے وہ یہ ہے کہ جیسے کسی مجسمہ ساز نے بہت سارے مجسمے بنا کر ایک جگہ ڈھیر کر دئیے ہوں۔  جبکہ اس کے برعکس نظریہ ارتقاء بتا تا ہے کہ کیسے بتدریج اور مرحلہ وار جانداروں کی تخلیق کا عمل  ہماری زمین پہ وقوع پذیر ہوا۔  ابتداء میں کونسی قسم کے جاندار وجود میں آئے ان کے بعد کونسے  اور پھر ان کے بعد کونسے۔ اب اگر ان تمام مراحل کے ثبوت اور شواہد بھی دستیاب ہوں اور اتنے مفصل انداز میں ہوں تو پھر بھی کوئی  روزِ روشن کی طرح عیاں حقیقت کو جھٹلائے تو کوئی کیا کر سکتا ہے  سوائے اقبال کا یہ شعر پڑھنے کے

سکُوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں

ثبات ایک تغیّر کو ہے زمانے میں

 (جاری ہے)

Dr. Muhammad Ibrahim Rashid Sherkoti

Hi, I am a Ph.D. in biotechnology from National University of Sciences and Technology, Islamabad. I am interested in biotechnology, infectious diseases and entrepreneurship. You can contact me on my Twitter @MIR_Sherkoti.