ہماری بات شروع ہوئی تھی ارتقاء کے حوالے سے اور پھر ہم نے جانا کہ جینیات اور سائنس کی مدد سے ہم کیسے اولین مرد تک پہنچنے کی کوشش کرسکتے ہیں۔ اب اگر دیکھا جائے تو تمام تر انسانوں کےاندرونی جسمانی اعضاء کا رنگ پوری دنیا میں ایک جیسا ہی ہوتا ہے ۔ ہمارے دماغ کا رنگ سرمئی ہے، ہڈیاں سفیدی مائل زرد، اور خون سرخ۔ جب تمام انسانوں کے اندرونی اعضا کا رنگ ایک جیسا ہی ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ ہماری جلد کا رنگ ہر خطہ اور نسل کے اعتبار سے مختلف ہے؟
سائنسی اور تاریخی شواہد اور آثارِ قدیمہ کی موجودگی میں یہ بات ایک مسلمہ حقیقت کے طور پر تسلیم کی جاتی ہے کہ انسانی آبادی کی ابتدا براعظم افریقہ سے ہوئی، اور یہیں سے حضرتِ انسان ہجرت کر کے باقی دنیا میں آباد ہوتا چلا گیا۔ افریقہ میں آباد انسانوں کی رنگت سیاہی مائل ہے اور آج سے نہیں بلکہ شروع سے ایسا ہی ہے، جبکہ باقی تمام خطوں میں تو رنگ میں کافی تنوع پایا جاتا ہے۔ آئیے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ایسا کیوں ہے۔
مضمون کے پہلے حصہ میں ہم نے وائے کروموسوم کے حوالے سے بات کی تھی ، اور ہم نے جانا تھا کہ ہمارے ڈی این اے میں مختلف جینز ہوتی ہیں ، ان جینز میں ہمارے جسمانی خدوخال اور تمام تر افعال کی انجام دہی کے بارے میں مفصل تحریری احکامات ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پہ ہمارے لبلبہ کے کچھ خلیات کا کام انسولین بنانا ہے ، اب یہ انسولین کیسے بنے گی، کس وقت اور حالات میں بنے گی، کیسے استعمال ہوگی ، کب تک استعمال ہو گی اور کب اس کا بنانا ختم کردینا چاہیئے یہ تمام کی تمام معلومات اور احکامات انسولین اور اس سے متعلقہ جینز میں ود ہیں۔ اگر ان تمام جینز میں سے ایک میں بھی کوئی گڑبڑ یا میوٹیشن ہوجائے تو اس کا اثر ذیابیطس کی مختلف شکلوں میں ظاہر ہوتا ہےجیسے کبھی انسولین بالکل بنتی ہی نہیں ہے یا نا کافی مقدار میں بنتی ہے ، یا پھر ہمارا جسم اس انسولین کو صحیح طریقے سے استعمال ہی نہیں کرپاتا۔ اگر ہم کسی شخص کے ڈی این اے میں موجود انسولین والی تمام جینز کو پڑھ لیں تو ہمیں اس بات کا بخوبی ادراک ہو جاتا ہے کہ کیا اس شخص کو کبھی مستقبل میں شوگر ہونے کا کوئی معمولی سا بھی امکان ہے یا نہیں۔
انسولین کی طرح ہی ہماری جلد کی رنگت کو ہماری بہت ساری جینز ہی کنٹرول کرتی ہیں۔ ان میں سب سے اہم ایم سی ون آر (MC1R) جین ہے ۔ یہ جین ہمارے بالوں اور جلد کے رنگ کو کنٹرول کرتی ہے، اور اس کی مختلف اقسام ہیں۔ ایک قسم جو افریقہ میں بہت سے بھی زیادہ پائی جاتی ہے وہ گہرا رنگ دیتی ہے جبکہ باقی دنیا میں سفیدی مائل اور گندمی رنگ والی قسمیں زیادہ عام ہیں۔ اب سوال پیدا ہونا چاہیئے کہ ایسا کیوں ہے، کیا وجہ ہے کہ صرف انسانی جلد کی رنگت میں اتنا فرق ہے ، اگر فرق ہونا ضروری ہی تھا تو پھر خون یا باقی اعضاء کے رنگ میں کیوں فرق نہیں ملتا ہمیں؟ ان سوالوں کے جواب ڈھونڈنے کے لئے ایک بار پھر ہمیں سائنس دانوں کے پاس جانا ہوگا تاکہ ان کے تجربات سے اپنے سوالات کا حل تلاش کرسکیں۔
ہم جانتے ہیں کہ سورج سے روشنی کے علاوہ بھی بہت ساری دوسری شعاعیں اور تابکاریاں نکلتی ہیں جن میں سرِ فہرست الٹرا وائلٹ یا ‘یو۔وی۔ ‘ شعاعیں ہیں۔ ہماری زمین کی فضاء کے اوپر اوزون کی تہہ ہے جو ان نقصان دہ شعاعوں کو کافی حد تک فلٹر کر کے روک دیتی ہے، اور ان میں سے بہت معمولی سی مقدار کو ہی زمین کی سطح تک پہنچنے دیتی ہے۔ لیکن یہ معمولی سی مقدار بھی ہمارے لئے کافی خطرے کا باعث ہو سکتی ہے جیسے کہ سکن کینسر وغیرہ۔ آج کل تو ویسے ہی ہر موبائل اور کمپیوٹر پہ آپ کو اپنے علاقے کا موسم اور درجہ حرارت کے ساتھ ساتھ سورج سے آنے والی ان یو۔وی ۔شعاعوں کا بھی پتا چل جاتا ہے کہ آ پ کے علاقے کا یووی انڈیکس کتنا کم یا زیادہ ہے۔ یہ یووی شعاعیں ہماری جلد میں موجود خلیات کے ڈی این اے میں توڑ پھوڑ کرتی ہیں جس سے اس میں موجود معلومات اور احکامات کی تحاریر میں بے تحاشا غلطیاں ہوجاتی ہیں، اگریہ غلطیاں ٹھیک ہونے کی حد سے زیادہ ہو جائیں تو پھر یا تو ہمارے خلیوں کی موت ہوجاتی ہے یا پھر وہ کینسر جیسی بیماری کا موجب بن جاتے ہیں۔ ہماری جلد میں میلانوسائٹ نامی کچھ مخصوص خلیے موجود ہوتے ہیں جن میں ایم سی ون آر جین اپنے کام میں ہمہ دم مشغول ہوتی ہے اور میلانین پروٹین بنا رہی ہوتی ہے۔ یہ میلانین پروٹین دو طرح کی ہوتی ہے ایک گہرے رنگ والی اور دوسری معتدل یا ہلکے رنگ والی، اور اس کا بنیادی کام سورج سے آنے والی یووی شعاعوں سے ہماری حفاظت کرنا ہے۔ ایک تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ سطح زمین پر جیسے خطِ اِستوا کے آس پاس، جہاں یووی شعاعوں کی مقدار سب سے زیادہ پہنچتی ہے وہاں پر آباد انسانوں کی جلد کی رنگت ہمیشہ گہری سیاہی مائل ہوگی، جبکہ اس کے مقابلے میں جیسے جیسے یووی شعاعوں کی مقدار کم ہوتی جائے گی ویسے ویسے رنگت ہلکی اور سفیدی مائل ہوتی جائے گی۔
کینسر اور میوٹیشنز کے علاوہ بھی گہری رنگت کا ایک نہایت ہی اہم فائدہ اور بھی ہے اور وہ ہے فولیک ایسڈ۔ فولیٹ یا فولیک ایسڈ بھی ایک وٹامن ہے جو کہ نہ صرف ہمارے تولیدی نظام کے لئے بلکہ دورانِ حمل بچوں کی صحت مند نشونما کے لئے بھی بہت ضروری ہے۔ یہ فولیک ایسڈ یو وی کے معاملے میں بہت حساس ہوتا ہے کہ ذرا سی بھی یووی کا سامنا ہوا تو فوراً ہی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو کر ہمارے جسم کے لئے بے فائدہ ہو جاتا ہے۔ جلد کی گہری رنگت ایک طرف تو ہمیں کینسر سے بچانے میں معاون ہوتی ہے تو دوسری جانب زیادہ فولیک ایسڈ کی ٹوٹ پھوٹ اس کینسر سے بھی زیادہ ضرر رساں ہوتی ہے۔ آپ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ ایک طرف جان لیوا کیننسر اور دوسری جانب محض ایک وٹامن۔ جی ہاں یہ ‘ایک وٹامن’ ہمارے لئے کتنا اہم ہے اندازہ کیجیئے کہ حمل ٹھہرنے سے لیکر دورانِ حمل رحمِ مادر میں بچوں کی مناسب نشونما سب عمل میں اس محض ایک وٹامن کا کلیدی کردار ہوتا ہے، جبکہ اس کے برعکس جلد کا کینسر عمومی طور پہ ادھیڑ عمر میں ہوتا ہے یعنی آدھی سے زیادہ زندگی گزارنے کے بعد۔ جلد کی گہری رنگت کے پیچھے سب سے بنیادی وجہ ہمارے خون میں گردش کرتے فولیک ایسڈ کو یو وی کے ہاتھوں ٹوٹ پھوٹ سے بچانا ہوتا ہے تاکہ انسانی نسل کی افزائش بہتر اور موثر انداز میں ہوسکے۔
چلیں یہ بات یہاں تک تو سمجھ میں آتی ہے کہ گہری رنگت ہمارے لئے بہت زیادہ مفید ہے اور اسی لئے افریقہ اور دیگر خطوں میں رنگ گہرا ہوتا ہےجہاں یو وی شعاعوں کی زیادہ مقدار زمین کی سطح تک پہنچتی ہے ۔ لیکن یہاں ایک اور سوال سر اٹھاتا ہے کہ اگر گہری رنگت اتنی ہی فائدے مند اور مفید ہے تو پھر باقی کی اقوام کی جلد کا رنگ بھی سیاہی مائل گہرا کیوں نہیں ہے۔ اگر یہ مفید ہے جو ثابت ہوگیا کہ ہے تو پھر تو سب کا رنگ ایک جیسا ہی ہونا چاہئے نا۔
اب ظاہر ہے اس سوال کے تسلی بخش جواب کے لئے ہمیں ایک بار پھر ان کلموہے سائنسدانوں کے ہی پاس جانا پڑے گا۔ ہم جانتے ہی ہیں کہ یووی شعاعوں کی تین اقسام ہیں جن میں سے یووی بی (UVB) شعاعیں ہمارے لئے مفید ہیں کہ وہ ہمارے جسم میں وٹامن ڈی بنانے کے لئے چاہیئے ہوتی ہیں۔ ہماری جلد میں (7-DHC) نامی پروٹین ہوتا ہے جو یووی بی شعاعوں کی موجودگی میں وٹامن ڈی کی فعال شکل ڈی تھری (D3) میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ اب یہ وائٹامن ڈی تھری ہماری ہڈیوں میں کیلشم جذب کرنے میں مدد دیتا ہے اور ہماری ہڈیوں کو مضبوط بناتا ہے ۔
چلئے یہ بات بھی واضح ہو گئی کہ خطِ استوا اور اس کے اردگرد چونکہ یووی شعاعیں بہت زیادہ پڑتی ہیں اس لئے یہاں کی آبادیوں میں گہری رنگت ہوتی ہے اور جیسے جیسے ہم قطب شمالی یا جنوبی کی طرف سفر کرنے لگیں تو یووی شعاعوں کی مقدار کے ساتھ ساتھ جلد کی رنگت بھی ہلکی ہونے لگتی ہے اور جیسے ہی ہم اسکینڈے نیویا ممالک (سویڈن، ناروے، ڈینمارک، آئس لینڈ) تک پہنچتے ہیں تو وہاں ہلکی ترین یا سفید ترین جلد کی حامل اقوام سے تعارف ہوتا ہے۔ لیکن یہاں ان سائنس دانوں نے ایک اور پخ نکال کے ہمارے سامنے رکھ دی ہے کہ براعظم شمالی امریکہ کے انتہائی شمال میں قطب شمالی کے تقریباً پڑوس میں آباد انیویٹ (Inuit) قبائل جو کہ کینیڈا اور الاسکا میں پھیلے ہوئے ہیں ان کی رنگت اسکینڈے نیویائی اقوام کے مقابلے میں گہری ہوتی ہے۔
ایسا نہیں کہ ان کا رنگ نہ تو افریقیوں کی طرح سیاہ ہے اور نہ ہی کاکیشیائیوں کی مانند سفید بلکہ دراصل گندمی ہے۔ اس گہری رنگت کا مطلب تو صرف ایک ہی بنتا ہے کہ ان کا جسم سورج سے یووی بی لینے کے قابل نہیں ہے تو پھر کیسے وٹامن ڈی ان کے جسم میں بنتا ہوگا؟ اسی طرح پھر ان کی ہڈیاں تو بہت زیادہ کمزور ہونی چاہیئں لیکن حقیقت میں ایسا ہے نہیں۔ اب بظاہر تو ایسا لگتا ہے کہ انیویٹ قبائل کی دریافت سے ان سائنس دانوں کے دعووں، تصورات اور مفروضوں کی قلعی کھل گئی ہے۔ جلد کی رنگت اور اس سے متعلق موضوعات پہ تحقیق کرنے والے تمام سائنس دان ایک بار تو سر پکڑ کے بیٹھے ضرور اور غور و فکر کرنے کے بعد وہ اس نتیجہ پہ پہنچے کہ اتنی آسانی سے تو ہم ہار نہیں مانیں گے اور ان کی گہری رنگت کا راز جان کے ہی چین پائیں گے۔ خیر سائنس دانوں کو یہ تو یقین تھا کہ انسانی جلد کا رنگ وٹامن ڈی اور فولیک ایسڈ کے درمیان توازن قائم رکھنے کا ایک ذریعہ ہے تو اگر ان قبائل میں ہڈیوں کی بیماری نہیں ہے ،یہ بات تو پھر طے ہے کہ وہ سورج سے یووی بی نہیں حاصل کر پارہے ہیں، تو لازم ہے کہ ان کی خوراک میں وٹامن ڈی کا کوئی اور ذریعہ موجود ہونا چاہیئے جو ان کے جسم کی ضروریات کو پورا کررہا ہے۔ جب انیویٹ کی عمومی خوراک کا جائزہ لیا گیا تو معلوم ہوا کہ وہ سمندری جانداروں جیسے وہیل مچھلیوں وغیرہ کا بکثرت شکار کرتے اور ان کو اپنے روزمرہ کی خوراک میں شامل رکھتے ہیں ۔ ہم یہ جانتے ہیں کہ ان سمندری جانداروں میں وٹامن ڈی کی مقدار کافی ہوتی ہے اور یوں یہ عقدہ بھی بالآخر حل ہو ہی گیا۔