یہ تو ہم سب جانتے ہیں کہ زحل سیارہ شمسی سیاروں میں سب سے مختلف نظر آتا ہے کیونکہ اس کے گرد rings ہیں- یہ رِنگز دراصل برف اور چٹانوں کے چھوٹے بڑے ٹکڑے ہیں جو زحل کے گرد تیزی سے گردش کر رہے ہیں-

بعض اوقات لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ زمین کے گرد ایسے رِنگز کیوں موجود نہیں ہیں- چاند کی تشکیل سے کچھ عرصہ پہلے زمین کے گرد بھی ایسا ہی رنگ موجود تھا- آج سے تقریباً سوا چار ارب سال پہلے زمین سے ایک سیارہ آ ٹکرایا تھا جسے تھیا کا نام دیا گیا ہے- اس ٹکراؤ سے زمین اور تھیا کی سطح کا بہت سا حصہ اڑ کر خلا میں بکھر گیا اور زمین کے گرد ایک حلقے کی صورت میں گردش کرنے لگا- لیکن چند کروڑ سال کے اندر اندر ہی اس حلقے میں موجود چٹانیں ایک دوسرے سے مل کر ایک بڑا جسم بنانے لگیں اور آخرکار یہ تمام چھوٹے بڑے اجسام ایک ہی جسم میں ضم ہو گئے جسے ہم چاند کہتے ہیں

کیا زمین کے گرد کوئی مصنوعی رِنگ بنایا جا سکتا ہے جو انسان کی بنی اشیا پر مشتمل ہوں- جی ہاں- ایسا رنگ نہ صرف بنایا جا سکتا ہے بلکہ امریکی فوج نے ساٹھ کی دہائی میں زمین کے گرد ایسا رنگ بنانے کی بھرپور کوشش کی تھی اگرچہ یہ کوشش مکمل طور پر کامیاب نہیں ہو پائی

اس مصنوعی رِنگ کا قصہ کچھ یوں ہے کہ پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں جب امریکہ اور روس کے درمیان سرد جنگ عروج پر تھی اور ایٹمی جنگ کے خطرات بہت زیادہ تھے، دنیا بھر میں امریکی فوجوں کے کمانڈرز کے ساتھ اعلی فوجی حکام کی تمام کمیونیکیشن سمندر کی تہہ میں ڈالی گئی فون کی کیبلز کے ذریعے ہوتی تھی- اس وقت کمیونیکیشن سیٹلائٹس ایجاد نہیں ہوئی تھیں- البتہ سائنس دانوں کو یہ علم ضرور تھا کہ وائرلیس سگنلز کرہ ہوائی کی بالائی تہوں یعنی ionosphere سے منعکس ہو سکتے ہیں- اس لیے اصولاً ionosphere کے انعکاس کو استعمال کر کے کوڈڈ (یعنی خفیہ پیغامات پر مبنی) وائرلیس سگنلز کو دور دراز کے فوجی کمانڈرز تک بھیجا جا سکتا تھا- لیکن یہ طریقہ زیادہ قابل اعتماد نہیں تھا- ionosphere کے انعکاس کا انڈیکس لمحہ بہ لمحہ تبدیل ہوتا رہتا ہے اس لیے منعکس شدہ سگنل کی strength بھی تبدیل ہوتی رہتی ہے اور وصول ہونے والے سگنل میں بہت زیادہ سٹیٹک پیدا ہوتا ہے- اس وجہ سے ionosphere کے ذریعے کمیونیکیشن عملی طور پر ممکن نہیں تھی اور سمندر کی تہہ میں بچھے ٹیلی فون کے تار کو کمیونیکیشن کا واحد ذریعہ سمجھا جاتا تھا

امریکہ کے فوجی حکام کو یہ خطرہ شدت سے محسوس ہو رہا تھا کہ اگر روس سمندر میں موجود فون کی کیبل کو کاٹ دے تو فیلڈ میں موجود فوجی کمانڈرز کا سینیئر حکام سے رابطہ منقطع ہو جائے گا- چنانچہ فوجی حکام نے زمین کے کرہ ہوائی میں برقی مقناطیسی سگنلز کے انعکاس کو بہتر بنانے کے لیے ایک انوکھا منصوبہ بنایا- اس زمانے میں فوجی کمیونیکیشن کے لیے آٹھ گیگاہرٹز کا کیریئر استعمال ہوتا تھا- آٹھ گیگاہرٹز کی برقی مقناطیسی لہروں کی ویوو لنگتھ 3.56 سینٹی میٹر ہوتی ہے- اگر فضا میں 1.78 سینٹی میٹر کا اینٹینا موجود ہو (جو کہ آٹھ گیگا ہرٹز کی لہروں کی ویوولنگتھ کا نصف ہے) تو یہ لہریں اس اینٹینا سے ٹکرا کر انتہائی عمدہ طور پر منعکس ہونے لگیں گی- چنانچہ پلان یہ بنایا گیا کہ زمین کے کرہ ہوائی میں 3800 کلومیٹر کی بلندی پر تانبے کی بنی 1.78 سینٹی میٹر لمبی اور محض 25 مائیکرومیٹر موٹی سوئیاں بکھیر دی جائیں- اس مقصد کے لیے تقریباً پچاس کروڑ ایسی سوئیاں تیار کی گئیں اور انہیں فضا میں بکھیرنے کا پلان بنایا گیا- اس پراجیکٹ کو ویسٹ فورڈ کا نام دیا گیا

دنیا بھر کے فزسسٹس اور ماہرین فلکیات نے اس پلان کی شدید مخالفت کی اور اسے سپیس میں آلودگی پھیلانے کا بدترین طریقہ قرار دیا- لیکن چونکہ معاملہ فوجی نوعیت کا تھا اس لیے ماہرین کے احتجاج کو نظر انداز کر دیا گیا اور 21 اکتوبر 1961 میں سوئیوں کی پہلی کھیپ روانہ کی گئی- یہ پہلی لانچ بری طرح ناکام ہو گئی کیونکہ یہ سوئیاں الگ الگ ہو کر ہوا میں بکھرنے کے بجائے جتھوں کی شکل میں بٹ گئیں جو جلد ہی اپنی بلندی کھونے لگیں اور چند سالوں کے اندر اندر سوئیوں کے بیشتر جتھے زمین پر آ گرے- تاہم دوسری لانچ جو 9 مئی 1963 کو کی گئی کامیاب رہی اور یہ سوئیاں فضا میں دور دور تک پھیل گئیں- یہ تاریخ میں پہلی بار تھی کہ زمین کے گرد کسی انسان کی بنی چیز ring کی صورت میں پھیل گئی- اس رنگ سے سگنل کمیونیکیشن واقعی آسان ہو گئی اور سگنل کی کوالٹی بہت بہتر ہو گئی-

لیکن یہ پراجیکٹ زیادہ دیر تک نہیں چل پایا- ساٹھ کی دہائی میں سیٹلائٹ ٹیکنالوجی ایجاد ہو چکی تھی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے زمین کے گرد سینکڑوں کمیونیکیشن سیٹلائیٹس کا جال سا پھیل گیا- سیٹلائٹ کمیونیکیشن زمینی ٹرانسمشن سے اس قدر بہتر، سستی، اور قابل اعتماد ہے کہ اس کے بعد ان سوئیوں کا کوئی کام نہیں رہا اور جلد ہی اس پراجیکٹ کو بند کر دیا گیا- لیکن جو سوئیاں سپیس میں بھیجی جا چکی تھیں وہ بدستور زمین کے گرد مدار میں گردش کرتی رہیں- یہ سوئیاں اس قدر چھوٹی اور کم وزن ہیں کہ محض سورج سے آنے والے فوٹانز کے پریشر سے ان کا زمین سے فاصلہ کم ہونے لگا اور یکے بعد دیگرے ہزاروں کی تعداد میں سوئیاں زمین کی طرف واپس آنے لگیں- ان کے زمین پر گرنے سے کسی کو کوئی خطرہ نہیں کیونکہ کرہ ہوائی میں داخل ہوتے وقت ان کا درجہ حرارت اس قدر بڑھ جاتا ہے کہ ان کا تانبہ پگھل کر بخارات بن جاتا ہے جو ہوا میں تحلیل ہو جاتا ہے-

ہمیں یہ علم نہیں ہے کہ ساٹھ کی دہائی میں جو کروڑوں سوئیاں لانچ کی گئی تھیں ان میں سے کتنی زمین پر داخل ہونے کے عمل میں ہوا میں تحلیل ہو چکی ہیں اور کتنی ابھی تک مدار میں ہیں- یہ سوئیاں اب سپیس جنک تصور کی جاتی ہیں اور انہیں باقی سیٹلائٹس کے لیے خطرہ تصور کیا جاتا ہے- اگرچہ ان کا ماس اتنا کم ہے کہ یہ سیٹلائٹس کو کوئی بڑا نقصان نہیں پہنچا سکتیں لیکن ان کی رفتار اتنی زیادہ ہے کہ اپنے مومینٹم کی وجہ سے سیٹلائٹس کے نازک حصوں کو متاثر کر سکتی ہیں

سوئیوں کی پہلی لانچ جو بکھرنے میں ناکام رہی تھی، اس کے کئی جتھے زمین پر گر گئے لیکن کئی جتھے ابھی تک زمین کے گرد گھوم رہے ہیں- ماہرین کا اندازہ ہے کہ کم از کم 36 جتھے ابھی تک زمین کے گرد مدار میں ہیں- ابھی پچھلے ہی ہفتے ان میں سے ایک جتھے کے زمین پر گرنے کی خبر ملی ہے- لیکن غالباً کروڑوں مہین مہین سوئیاں ابھی تک زمین کے گرد ایک رنگ بنائے گھوم رہی ہیں- چنانچہ اگر آپ کو کبھی یہ غم ہو کہ زمین کے گرد زحل کی طرح کا رِنگ کیوں نہیں ہے تو یہ ضرور یاد رکھیے گا کہ پراجیکٹ ویسٹ فورڈ کی بدولت زمین کے گرد بھی نازک سوئیوں کا ایک رِنگ موجود ہے

اصل آرٹیکل کا لنک