پہلی قسط یہاں پڑھیں

دوسری قسط یہاں پڑھیں

ایک مشہور لطیفہ ہے کہ ایک دفعہ کسی کاشتکار کی بھینس بیمار ہوگئی اس نے کسی سے بھینس کی بیماری کی علامات بتا کر پوچھا تو اس پتہ چلا کہ  گاؤں کے نمبر دار کی بھینس کو بھی یہی تکلیف تھی اور اس نے اپنی بھینس کو مٹی کا تیل پلایا تھا۔  کاشتکا ر نے فوراً سے پیشتر مٹی کے تیل کا انتظام کیا اور بھینس کو پلا دیا  نتیجہ میں بھینس مرگئی اور وہ روتا دھوتا نمبردار کے پاس پہنچا  اسے سارا ماجرہ بتایا اور ساتھ ہی اپنی بھینس کے مرنے کی بھی اطلاع دی۔ آگے سے نمبردار نے بھی اسے یہی بتایا کہ اس کی بھینس کابھی متی کا تیل پینے کے بعد یہی  حال ہوا تھا۔

کورونا کے علاج کے لئے ٹوٹکے؟ کورونا بیتی (قسط سوم) 1

یہ لطیفہ ہمارے قومی مزاج کے حوالے سے بالکل صادق آتا ہے، خدا جانے ہمیں کیوں دواؤں سے چڑ ہے کہ جہاں کوئی ہمیں کوئی معمولی سا بھی ٹونہ ٹوٹکہ بتا دے ہم اسے ایسے اعتقاد کے ساتھ تسلیم کر لیتے ہیں کہ گویا وہ اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرائیل ؑ کے ہاتھ خاص ہمارے لئے ہی نازل کیا ہو۔ کورونا کے اس تمام تر  ہنگامے میں ایک چیز شروع سے متواتر ہے اور وہ ٹوٹکوں کی بھرمار۔۔۔ ایسا نہیں ہے کہ مجھے ٹوٹکوں سے کوئی خاص دشمنی  یا نفرت ہے جی نہیں  بالکل بھی نہیں،  بلکہ اس وقت میرے کچھ تحقیق میں مصروف شاگرد  روایتی ٹوٹکوں میں سے گنٹھیا  اور جوڑوں کے درد کے علاج پہ کام کر رہے ہیں۔  یعنی مجھے ٹوٹکوں سے کوئی براہِ راست پرخاش نہیں ہے۔ مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب کہ لوگ مستند طبی ہدایات کو پسِ پشت ڈال کر ان ٹوٹکوں کو ہی اصل منتہاء نظر تصور کر لیتے ہیں۔

کورونا کے علاج کے لئے ٹوٹکے؟ کورونا بیتی (قسط سوم) 2

ٹوٹکوں کے حوالے سے سب سے پہلی اور سب سے اہم بات یہ ہونی چاہیئے  کہ آیا یہ مستند بھی ہیں یا نہیں۔  صنعا مکھی والے ٹوٹکے کی طرح نہیں جہاں ایک واٹسایپ وائس میسج کیا  آگیا   اور پوری قوم پاگل ہوکر اس کے پیچھے پڑ گئی، حتیٰ کہ قومی طب کونسل کو وضاحتیں جاری کرنا پڑیں مگر اس سے بھی کسی کو کوئی اثر نہیں پڑا۔ یقین کیجیئے ایسے کسی ٹوٹکے کو پرکھنا تو دور کی بات آپ کے پاس اس میسج کی بھی تصدیق کا کوئی ذریعہ موجود نہیں ہے کہ آپ جان سکیں کہ جوشخص آپ کو یہ میسج ریکارڈ کروا کے بھیج رہا ہے وہ مسلمان بھی ہے یا نہیں؟

اس کورونا کے دوران مجھے  تو بہت زیادہ ٹوٹکے نہیں بھیجے کیونکہ اپنی عادت کے تحت میں ان ٹوٹکوں پہ جب تک پوری جراح نہ کرلوں مجھے تسلی نہیں ہوتی اور ٹوٹکہ بھیجنے والا جو محض ایک وقتی احسان میرے سر منڈھنا چاہ رہا ہوتا ہے میرے سوالات کی عموماً تاب نہیں لاپاتا  ، اور یہی وجہ ہے کہ میں زیادہ ٹوٹکوں سے محفوظ رہا، لیکن اس دوران میں نے دو ٹوٹکوں پہ عمل ضرور کیا ہے۔  یہ بات لازمی جان رکھیں کہ ان ٹوٹکوں پہ عمل کرنے سے پہلے میں نے اپنے معالج سے مشورہ اور رہنمائی لازمی لی تھی  اور ایسا نہیں کہ  جوکسی نے کہہ دیا اس پہ آنکھیں بند کر کے آمنا و صدقنا  پڑھ لیا۔

پہلا ٹوٹکا بھاپ لینے کا تھا جیسا کہ پچھلے بلاگ میں بتا چکا ہوں کہ مجھے آکسیجن کی کمی کا مسئلہ درپیش آیا  اور کچھ ایام کے لئے مجھے آکسیجن سپلائی بھی دی گئی، اسی دوران کچھ احباب نے بھاپ لینے کا مشورہ دیا جس کی تائید معالج سے بھی ہوگئی تو پھر دن میں تین سے چار بار بھاپ لینے کا انتظام کیا گیا۔  مستقل علاج ، آکسیجن کی متواتر سپلائی اور ساتھ ساتھ بھاپ لینے سے پھیپھڑوں پہ کافی اچھا اثر پڑا اور کچھ دنوں میں ہی میری سانس کی دشواری میں بہتری آنے لگی۔ دوسرا ٹوٹکا جو کہ میں نے استعمال کیا وہ تھا شہد اور کلونجی کا استعمال۔  یہ مشورہ ایک دوست نے دیا جو کہ خود فارماکولوجی میں پی ایچ ڈی ہیں اور کچھ عرصہ قبل وہ اور ان کے گھر والے بھی کورونا گزار چکے ہیں، اور اس دوران انھوں نے اس ٹوٹکے پہ خود بھی عمل کیا تھا۔

کورونا کے علاج کے لئے ٹوٹکے؟ کورونا بیتی (قسط سوم) 3

ایک سوال جو کے آپ سب کے ذہنوں میں لازمی آنا چاہیئے  وہ یہ ہے کہ مجھے ٹوٹکوں سے کیا مسئلہ ہے؟ کیوں میں ان کا گویا ایک طرح سے مخالف ہوں ، اورکوئی وجہ تو ہونی چاہیئے نا اس ‘مخاصمت’ کی۔   بطور انسان ہم پہ بہت سارے فرائض اور حقوق ہیں جن میں ہمارے گھر والوں سے لیکر دوست احباب سب شامل ہیں، لیکن ان سب میں سب سے بڑا حق ہم سب پہ ہماری اپنی جانوں کا ہے۔ یہ جسم صحت و تندرستی ہمیں اللہ تعالیٰ کی جانب سے عطا کی گئی ہے تاکہ ہم اس کا شکر ادا کرسکیں جیسا اس کا حکم ہے۔ جب ہمیں ہر طرح کی الٹی سیدھی چیزیں کھانے کی اجازت نہیں  کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے حلال و طیب  رزق مقرر فرمایا ہے تو ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ ہر طرح کا الٹا سیدھا ٹوٹکا  بھی ہمارے لئے فائدے مند ہو جائے؟  ایک بہت غلط العام تصور ہمارے ہاں راسخ ہو گیا ہے کہ اگر فائدہ نہیں تو نقصان بھی نہیں ہوتا۔ یہ بالکل اور صریحاً غلط بات ہے ۔  اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو ایک خاص تناسب کے ساتھ پیدا کیا ہے اور اس میں زرا سی بھی چھیڑ چھاڑ  کسی بھی بیمار کے لئے سنگین نتائج کا پیش خیمہ بن سکتی ہے۔

کورونا کے علاج کے لئے ٹوٹکے؟ کورونا بیتی (قسط سوم) 4

اور کچھ نہیں تو پانی سے زیادہ  محفوظ کوئی شے نہیں ہے لیکن یہ جان لیں کہ اگر آپ تقریباً 7 لیٹر پانی کچھ گھنٹوں میں پی لیں تو اس کا اثر ہمارے دماغ کے خلیات پہ پڑے گا اور ان میں پانی کی کثرت سے سوجھنے کا عمل ان کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا کے چھوڑے گا۔  اور اگر آپ کو اس سے بھی زیادہ پیاس لگ رہی ہو تو پھر یہی پانی ہمارے جسم کے باقی کے تمام کیمیائی معاملات  میں دخل در معقولات کا باعث بن کر جان لیوا بھی ثابت ہو سکتا ہے۔  یعنی پانی جیسی غیر مضر چیز بھی جسے ہم روزانہ کی بنیاد پہ استعمال کرتے ہیں اس کے استعمال میں بے احتیاطی خطرناک ہو سکتی ہے۔

کورونا کے علاج کے لئے ٹوٹکے؟ کورونا بیتی (قسط سوم) 5

لہٰذا آپ سب سے میری ایک ہی گزارش ہے کہ نا صرف اپنے لئے بلکہ اپنے عزیز و اقارب  سبھی کے لئے ایسے کسی ٹوٹکے کا مشورہ ہرگز نہ قبول کریں اور نہ  دیں جو آپ نے محض سن رکھا ہو۔مشورہ وہ دیں جس پہ آپ نے خود عمل کیا ہوا ہو اور آپ کو فائدہ بھی ہوا ہو، ورنہ کم از کم ایسا مشورہ دیں کہ جو آپ نے اپنی آنکھوں سے اپنے مشاہدے سے اس پہ عمل ہوتا  اور فائدہ ملتا دیکھا ہو۔

کیا آپ کی یا آپ کے عزیز کی صحت کی محض ایک واٹسایپ میسج  کے برابر ہے ؟ یا آپ صرف ایک وقتی احسان  کرنا چاہ رہے ہیں تاکہ اس سے بڑھ کر آپ کو کچھ اور نہ کرنا پڑے،   سوچئیے۔

Dr. Muhammad Ibrahim Rashid Sherkoti

Hi, I am a Ph.D. in biotechnology from National University of Sciences and Technology, Islamabad. I am interested in biotechnology, infectious diseases and entrepreneurship. You can contact me on my Twitter @MIR_Sherkoti.