پہلی قسط یہاں پڑھیں

میں اپنی تحاریر و گفت وشنید حتیٰ کہ عام ملاقاتوں میں بھی ویکسین کا بڑا شدید پرچارک رہا ہوں اور اب بھی ہوں۔ نتیجتاً اب جب کہ مجھے کورونا انفیکشن ہوا تو جو سوال مجھ سے سب سے زیادہ پوچھا گیا وہ ظاہر ہی ہے کہ ویکسین کی افادیت کے حوالے سے ہی تھا۔  تمام کے تمام سوال ایک ہی طرح کے پیٹرن پہ پوچھے گئے، سب سے پہلے دوست احباب نے صحت دریافت کی، ہر قسم کی مدد کی یقین دہانی کروائی،  اور پھر گھما پھرا کر یہ سوال کہ تم نے ویکسین لگوائی تھی نا یا نہیں اور اگلے مرحلے میں کہ ویکسین کے باوجود بھی کورونا کا انفیکشن کیوں اور کیسے ہوگیا ہے؟ اس سوال کا ابتدا میں میرے پاس کوئی خاص جواب نہیں تھا کیونکہ ایک تو بیماری اپنی شدت پہ تھی اور اوپر سے سانس میں دشواری  نے کافی مشکلات پیدا کر رکھی تھیں۔  ایک دو دوستوں کو تو میں نے اس سوال کا سرے سے کوئی جواب ہی نہیں دیا۔

ویکسین کے باوجود بھی کورونا؟ کورونا بیتی (قسط دوم) 1

خیر آئیے اس سوال کا جواب سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ویکسین  لگوانے کے باوجود بھی مجھے اور میرے گھر والوں کو انفیکشن کیونکر ہوا۔ پہلی بات تو یہ کہ الحمدللہ میرے تمام گھر والے مکمل طور پہ ویکسینیٹڈہیں، مجھے اور میری والدہ کو سائینوفارم ویکسین  لگی ہوئی ہے جبکہ باقی گھر والوں کو سائینو ویک۔  اگرچہ عام طور پہ ان ویکسینز کو چائینیز ویکسینز کہہ کر ان کی افادیت مغربی ویکسینز (موڈرنا، فائزر وغیرہ) کے مقابلے میں کم ترسمجھی جاتی ہے۔  پہلی بات تو یہ سمجھ لیں ہم چار افراد میں سے صرف ایک شخص یعنی مجھے بیماری کی علامات ظاہر ہوئیں (جو کہ عمومی طور پہ مردوں میں ویسے بھی تھوڑی شدید ہی دیکھی گئی ہیں، کہ شائد آج کل کے وائرس بھی تھوڑے بہت ٹھرکی ہوگئے ہیں)۔

اپنے پچھلے چار اقساط پہ مشتمل مضمون میں میں نے انسان اور وائرس کے درمیان جاری  اس لڑائی کی بابت بات کی تھی کہ کیسے ایک جانب وائرس خود کو ہمارے مدافعتی نظام سے بچانے کی تگودو میں مشغول  ہے تو دوسری جانب ہمارا مدافعتی نظام وائرس کو ہر قدم ہر مرحلے پہ روکنے میں سرگرداں (اس کی تفصیل آپ یہاں پڑھ سکتے ہیں) ۔  

اس مستقل لڑائی کے نتیجہ میں جب وائرس کا داو لگ جاتا ہے تو وہ ایک نئی قسم  کی شکل دھار کر سامنے آجاتا ہے  اب وہ ڈیلٹا قسم ہو یا لمبڈا اس عمل کو ہم پہلے ہی سمجھ چکے ہیں لہٰذا اب مزید تفصیل میں جانے کا موقع نہیں ہے۔  وائرس کی کامیابی تو نئی قسم کی شکل میں سامنے آہی جاتی ہے لیکن ہمارے مدافعتی نظام کی کامیابی کا ہمیں عام طور پہ نہیں پتہ چلتا ہے،  کیوں ؟ اس کیوں کا جواب ہماری نفسیات میں پوشیدہ ہے  ہم ٹھیک ٹھاک تھے کوئی بیماری کی علامت نہیں محسوس ہوئی تو ہمیں کیسے پتہ چلے گا کہ ہمیں کوئی وائرس لگا بھی ہے یا نہیں  جب تک کہ کچھ خاص ٹیسٹ نا کروالیئے جائیں۔ یہی وجہ ہے کہ میں اس وقت دعوے کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اگر کوئی بھی فارماسیوٹیکل کمپنی کورونا کے علاج کی کوئی دوا ایجاد کرلے تو اس کی مقبولیت ویکسین کے مقابلے  سینکڑوں گنا زیادہ ہوگی۔ اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ بیماری کے دوران ہم اپنی حِسوں کی مدد سے بیماری کی شدت کو محسوس کر رہے ہوتے ہیں ، اس وقت ہم دنیا بھر  کی دولت بھی خرچ کردینے کو تیار ہوتے ہیں اپنی اور اپنے گھر والوں کی صحتیابی و تندرستی کے لئے، جبکہ ویکسین ہمیں اس بیماری والی کیفیت تک جانے نہیں دیتی  اسی لئے اس کی قدر ہمیں کبھی صحیح طور پہ نہیں ہو سکتی ہے۔

ویکسین کے باوجود بھی کورونا؟ کورونا بیتی (قسط دوم) 2

خیر واپس چلتے ہیں اپنے موضوع کی جانب کہ مجھے کورونا کی علامات باقی گھر والوں کے مقابلے میں تھوڑی شدت کے ساتھ ظاہر  ہوئیں۔  میں نے اپنا اور اپنے گھر والوں کے سینے کے ایکس ریز کا خود مشاہدہ کیا ہے اور یہ جان کر میری تسلی کی کوئی حد نہیں تھی کہ ہم چاروں افراد میں سے کسی کو بھی کورونا کا سنگین اور پھیلا ہوا انفیکشن نہیں تھا، ہاں معمولی  سا انفیکشن پھیپھڑوں میں  ضرور تھا کہ مجھے 5-6 ایام کے لئے اپنے گھر میں ہی آکسیجن  لگوا کر  صاحبِ فراش ہونا  پڑا،   نا تو آئی سی یو کی کوئی ضرورت پڑی اور نا ہی وینٹیلیٹر کی۔  یعنی 75 فیصد افراد کو تو بالکل ہی کوئی خاص فرق نہیں پڑا جبکہ ایک فرد کو چند ایام کے لئے معمولی سے علامات ظاہر ہوئیں۔  اب اسی کے مقابلے میں   میری بیماری کے دوران ہی مجھے کچھ دوستوں کی جانب سے (نادانستگی میں ہی)  ایسے احباب کی سیریس بیماری کی اطلاعات ملتی رہیں جنھوں نے آخری وقت تک ویکسین لگوانے سے انکار کیا اور نتیجہ کے طور پہ کوئی اس وقت آئی سی یو میں ایڈمٹ ہے تو کوئی وینٹیلیٹر پہ جبکہ ان تمام افراد کے گھر والے ایک طرف  تو ان کی بیماری کی پریشانی کا شکار ہیں تو دوسری جانب وہ خود بھی ویکسینیٹڈ نہ ہونے کے باعث نہ تو ان کی  کوئی مدد کر سکتے ہیں اور نا ہی اپنا بچاؤ، اور ان سب کے مقابلے میں میں اور میرے گھر والے اللہ کے نہایت فضل و کرم کے ساتھ اپنے گھر میں موجود ہیں۔

ویکسین کے باوجود بھی کورونا؟ کورونا بیتی (قسط دوم) 3

اب فیصلہ آپ خود کریں کہ کیا ویکسین لگا کر مجھے اور میرے گھر والوں کو کوئی خاص فائدہ ہوا یا نہیں؟

(جاری ہے)

 

Dr. Muhammad Ibrahim Rashid Sherkoti

Hi, I am a Ph.D. in biotechnology from National University of Sciences and Technology, Islamabad. I am interested in biotechnology, infectious diseases and entrepreneurship. You can contact me on my Twitter @MIR_Sherkoti.