کیا صرف مرد ٹھرکی ہوتے ہیں؟ اگر ہم لفظ ٹھرک کے بجائے “نسل بڑھانے کی خواہش” کہہ لیں تو سوال یہ ہو گا کہ کیا وجہ ہے کہ یہ خواہش صرف مردوں میں ہی زیادہ نظر آتی ہے جبکہ خواتین اس حوالے سے محتاط رویہ اختیار کرتی ہیں؟

میری کوشش ہوتی ہے کہ اس قسم کے موضوعات سے دور رہوں لیکن مجبوری ہے کیونکہ میرا سبجیکٹ حیاتیات ہے اور مجھے اکثر سائنسدانوں کی طرح انسانی اور حیوانی روئیوں میں مماثلت سمجھنے کی کوشش کرنے کا شوق ہے۔

یونیورسٹی میں جو مضمون مجھے سب سے زیادہ پسند تھا وہ سلوک الحیوانات یعنی جانوروں کے روئیوں کا مضمون تھا۔ تمام جانوروں میں ٹھرک ایک جبلی جذبہ ہے۔ حیاتیات کی رو سے تمام جاندار (بشمول پودے) زیادہ سے زیادہ بچے پیدا کرنے یا اگلی نسل میں پہنچانے کی خواہش رکھتے ہیں البتہ وہ اس کے لیے مختلف راستے یا طریقے استعمال کر سکتے ہیں۔ رچرڈ ڈاکنز کے مطابق یہ روئیے دراصل ہماری جینز سے پیدا ہوتے ہیں اور یہ جینز ہمارے اجسام کو بطور ایک وہیکل یا گاڑی استعمال کرتی ہیں تاکہ ایک نسل سے اگلی نسل تک پہنچ سکیں۔ ان کو پتہ ہے کہ یہ گاڑی ناپائیدار ہے اسلیے وہ خود کو اگلی نسل تک پہنچانے اور امر رہنے کی ہر ممکن کوشش کرتی ہیں۔

آپ دیکھیں گے کہ اولاد ہونے کے بعد سے لوگوں کی ایک واضح اکثریت کی تمام تر کوشش، خواہشات، اور مشقتیں اسی اولاد کی فلاح میں خرچ ہوتی ہیں۔ چاہے وہ اپنے بچوں کے گن گا رہے ہوں، یا ان کی تصویریں سوشل میڈیا پر پوسٹ کر رہے ہوں، خواہ کوئی ماں اپنے جسم سے توانائی نچوڑ کر بچے کو پلا دے یا باپ خود محروم رہ کر بچوں کو سہولیات مہیا کرتا رہے۔ ہماری گاڑی میں بیٹھی جینز ہمیں اپنی بنائی ہوئی نئی کاپی کو چلائے رکھنے کے لیے استعمال کر رہی ہیں۔

سلوک الحیوانات پسند ہونے کی بڑی وجہ یہ تھی کہ اس مضمون میں جانوروں کے حوالے سے خاصی دلچسپ مثالیں پڑھنے کو ملتی تھیں۔ ایسی ہی ایک دلچسپ مثال میکسیکو میں پائی جانے والی ایک ننھی سی مچھلی کی ہے۔ ان مچھلیوں میں نر اور مادہ کی رنگت اور جسامت میں واضح فرق ہوتا ہے۔ نر مچھلی “ماچو” (ہسپانوی لفظ جو انگریزی میں بھی مستعمل ہے) یعنی جسامت میں بڑی اور طاقتور ہوتی ہے جبکہ مادائیں دبلی پتلی سی ہوتی ہیں۔ نر لڑاکے ہوتے ہیں اور اپنے علاقے میں کسی دوسرے نر کو برداشت نہیں کرتے جبکہ مادائیں زیادہ طاقتور نر کے علاقے میں آرام سے رہنا اور کھانا پینا پسند کرتی ہیں۔ اگر دو ایک جیسی جسامت کے مرد ایک علاقے کے دعوے دار بن جائیں تو ان میں گھمسان کی جنگ ہوتی ہے اور جیتنے والا پورے علاقے کی ماداؤں کا حقدار بن جاتا ہے۔ یوں ایک طرف ایک نر کے حرم میں کئی کئی مادائیں ہوتی ہیں تو دوسری طرف چھوٹی جسامت والے نروں کو علاقہ جیتنے میں اکثر منہ کی کھانی پڑتی ہے اور وہ اکیلے رہ جاتے ہیں۔

اگر کبھی کوئی نر کسی دوسرے نر کے حرم میں داخل ہونے کی کوشش کرے تو مادہ فورا اپنے مجازی خدا کو اطلاع کرنے اس کی پناہ میں پہنچ جاتی ہے اور نروں کی لڑائی شروع ہو جاتی ہے۔ فاتح کوئی بھی ہو، مادہ کو اس پر اعتراض نہیں ہوتا۔ یعنی اگر پرانا نر جیت گیا تو وہ اسی کے ساتھ رہتی رہے گی اور اگر نیا نر جیت جائے تو مادہ اس کے ساتھ ہنسی خوشی رہنے لگے گی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ چھوٹی جسامت والے نر بچے پیدا نہیں کر سکیں گے اور ایک وقت آئے گا جب صرف بڑی جسامت والے نر ہی باقی رہ جائیں گے۔ اس روئیے کا محرک آسانی سے سمجھ آتا ہے۔ روبرٹ سن اور ویدرہیڈ کے مطابق مادائیں جبلی طور پر یہ جانتی ہیں کہ ان کے بچوں میں جو جینز جائیں گی وہ ویسے ہی بنیں گے اور وہ اپنے بچوں میں ماچو مردوں والی جینز چاہتی ہیں تاکہ ان کے بیٹے بھی ماداؤں میں اپنے باپ کی طرح مقبول ہوں۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہہ لیں کہ وہ چاہتی ہیں کہ ان کے بچوں کو شادی میں مشکل پیش نہ آئے اس لیے وہ طاقتور اور وسائل والے نر کا انتخاب کرتی ہیں۔ اگر آپ ایک مادہ ہیں اور آپ ہر ایرے غیرے کے ساتھ تعلق رکھنا نہیں چاہتیں تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ کچھ نروں سے کوئی مادہ تعلق نہیں رکھے گی۔ چونکہ علاقے میں نر اور ماداؤں کی تعداد برابر ہے اور کچھ نر ناپسندیدہ ہیں تو پسندیدہ نر کم اور مادائیں زیادہ ہیں۔ کچھ نروں کی طلب (ڈیمانڈ) ماداؤں میں زیادہ ہو گی جس کی وجہ ماداؤں کی اپنی چوائس ہے۔ یعنی مادہ کی مرضی کے خصائل والے نروں کو زیادہ مادائیں ملیں گی۔ اور یہی سلسلہ نسل در نسل چلے گا۔

اس کا دوسرا نتیجہ یہ نکلے گا کہ وقت کے ساتھ چھوٹی جسامت بنانے والی جینز آہستہ آہستہ ختم ہوتی جائیں گی۔ تاہم سائنسدانوں نے دیکھا کہ وہاں چھوٹی جسامت والے نر بھی موجود تھے اور ان کی تعداد بھی کم نہیں ہو رہی تھی۔

پھر یہ انکشاف ہوا کہ جو بہت سی مادائیں ایک ہی حرم میں موجود ہیں ان میں سے چند ایک اصل میں مادائیں نہیں بلکہ ان جیسا نظر آنے والے نر ہیں جنہوں نے اپنی رنگت اور جسامت ماداؤں جیسی بنا لی ہے۔ جب ایسا کوئی نر کسی بڑے نر کے سامنے آتا ہے تو اس کو حرم میں داخلے کی اجازت مل جاتی ہے اور وہ بڑے نر سے لڑنے کے بجائے کسی مادہ کی طرح ہی اسے لبھانے کی پوری کوشش اور ایکٹنگ کرتا ہے۔ لیکن دلچسپی کی بات یہ ہے کہ جو مادائیں پہلے کسی تگڑے نر کو دیکھ کر فورا شکایت لگانے پہنچ گئی تھیں وہ اب کی دفعہ حقیقت معلوم ہونے پر بھی کوئی شور نہیں کرتیں حالانکہ وہ دوسرے نمبر کا تگڑا نر بہر حال ان دھوکے بازوں سے تو بہتر ہی تھا۔ حرم میں مادائیں بغیر روک ٹوک ان چھوٹے نروں سے بھی ملتی ہیں اور یوں ان دھوکے باز نروں کی جینز بھی اگلی نسل میں پہنچنے میں کامیاب ہو جاتی ہیں۔ اسی قسم کی دھوکے بازی آپ کو راج ہنس اور دیگر اس قسم کے جانداروں میں بھی مل جائے گی جن کو سائنسدان پہلے عمر بھر تک وفادار سمجھتے تھے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان ماداؤں کے ان دھوکے بازوں کے ساتھ جبلی راضی نامے کے پیچھے کیا محرکات ہیں؟ اس سوال کا جواب میرے پہلے سوال کے ساتھ جڑا ہے۔ کیا آپ اس مچھلی اور انسانوں کے روئیوں میں مماثلت دیکھ سکتے ہیں؟

Muhammad Bilal

I am assistant professor of biology at Govt. KRS College, Lahore. I did my BS in Zoology from University of the Punjab, Lahore and M.Phil in Virology from National University of Sciences and Technology, Islamabad. I am Administrator at EasyLearningHome.com and CEO at TealTech