“میں تمہیں ایک ایسی بات بتانے جا رہی ہوں کہ مجھے یقین ہے کہ تم اسے اپنی آنکھوں سے دیکھنے کی خواہش کروگی۔ ہمارے ملک (انگلستان) میں چیچک کا پہلاؤ اور ہلاکت خیزی جتنی زیادہ ہے، یہاں (ترکی میں)  پیوندکاری کی تکنیک کی حیرت انگیز ایجاد کی وجہ سے بالکل نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس تکنیک کو انجام دینے  کے لئے باقاعدہ تجربہ کار خواتین موجود ہیں جو ہر موسمِ خزاں میں یہ عمل انجام دیتی ہیں۔ ہر سال ایک عمر رسیدہ عورت احتیاط سے منتخب کئے گئے چیچک کے زہر کی تھوڑی سی مقدار کے ساتھ آتی ہے اور نشان دہ رگ میں چیچک کے زہر کی نہات معمولی سی مقدار سوئی کی مدد سے خون میں داخل کردیتی ہے۔۔۔۔ ہر سال ہزاروں افراد اس عمل سے گزرتے ہیں اور اس کی وجہ سے آج تک کسی کے بھی مرنے کی کوئی مثال موجود نہیں ہے۔ میری بات کا اعتبار کرو کہ مجھے اس عمل کے محفوظ ہونے پر کامل یقین ہے۔۔۔ اور بحیثیت ایک محب وطن، میں اپنی پوری کوشش کروں گی کہ یہ مفید ایجاد انگلستان میں بھی رائج ہوجائے۔”

یہ خط لیڈی میری ورٹلی مونٹاگو نے ترکی میں اپنے قیام کے دوران اپنی ایک سہیلی کو 1717 ء میں لکھا تھا۔ 1716 ء میں لیڈی میری کے  شوہر ایڈورڈ ورٹلی مونٹاگو کو سلطنتِ عثمانیہ میں انگلش سفیر کی حیثیت سے تعینات کیا گیا تو وہ بھی ان کے ساتھ ترکی آگئیں۔ ترکی میں جہاں پہلی مرتبہ کسی یورپی عورت کو مشرقی ملک کا سفر کرنے کا موقعہ ملا وہیں لیڈی میری نے اپنی انشاء پردازی کی صلاحیت سے، ان حاصل ہونے والی معلومات کو اپنے خطوط کی شکل میں محفوظ کرلیا۔ درج بالا خط بھی اسی دوران ہی تحریر کیا گیا۔   

اس خط میں جس ‘پیوند کاری’ نامی تکنیک کا ذکر لیڈی میری کر رہی ہیں یہ سلطنتِ عثمانیہ میں صدیوں سے رائج ایک طبی آپریشن تھا  جس کی مدد سے ترکی میں لوگ خود کو اور اپنے بچوں کو چیچک جیسے موذی مرض سے بچاتے تھے۔ لیڈی میری کے لئے یہ ایک خاص توجہ کا باعث تھا کیونکہ چند برس قبل ہی 1713 ء میں  ان کے بھائی کا انگلستان میں چیچک کی وجہ سے انتقال ہوا تھا اور1715 ء میں لیڈی میری خود بھی اس مرض کا شکار ہوکر بدشکل ہوچکی تھیں۔ اپنے بھائی کی موت اور اپنی بیماری کے تجربے کی روشنی میں لیڈی میری نے جب اس پیوند کاری کی تکنیک کو پرکھا تو انھیں احساس ہوا کہ اس وقت یورپ میں چیچک کی وباء  کی روک تھام کے لئے کوئی تدبیر موجود نہیں ہے۔ انھوں نے اس تکنیک کے بارے میں کافی جانچ پڑتال کی اور ہر لحاظ سے اپنے دلی اطمینان کے بعد اپنے بیٹے کو چیچک سے بچاؤ کی خاطر یہ پیوند کاری  کروائی۔ 1718 ء میں ترکی سے انگلستان واپسی کے بعد لیڈی میری نے جب اس تکنیک کے بارے میں بات کرنا شروع کی تو انھیں شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا ، عام عوام کو تو چھوڑئیے، انگریز ڈاکٹروں کی طرف سے اس تکنیک کو مشرق کا جھاڑ پھونک، ٹونہ ٹوٹکہ اور عطائی علاج تک قرار دے کر اس کی مخالفت کی گئی۔

حسنِ اتفاق دیکھئے کہ اس ساری بحث کے دوران ہی 1721ء میں انگلستان میں چیچک کی وباء پھوٹ پڑی۔ اس وباء کے دوران ہی لیڈی میری نے اپنی بیٹی کو بھی چیچک سے بچانے کے لئے پیوند کاری  کروائی اور اس امر کی تشہیر بھی کی۔ اپنی کوششوں سے لیڈی میری نے پرنسس آف ویلز شہزادی کیرولین کو کافی حد تک قائل کرلیا اور اگست 1721 ء میں سزا موت کے منتظر سات قیدیوں پر یہ تکنیک تجرباتی طور پر آزمائی گئی۔ یہ تجربہ کامیاب رہا اور ان ساتوں کے سات قیدیوں کی صحت پر کوئی برا اثر نہیں دیکھا گیا مگر اس تکنیک کی مخالفت میں کوئی خاص کمی تو نہیں آئی، لیکن شہزادی کیرولین نے اس حفاظتی تکنیک کی افادیت کو سمجھتے ہوئے اپریل 1722ء میں اپنی بیٹیوں اِمیلیہ اور کیرولین کو پیوند کاری کروائی۔ شدیدتر ہوتی مخالفت کے باوجود لیڈی میری کی ہمت میں کوئی کمی نہیں آئی اور وہ چیچک سے بچاؤ کے لئے تادمِ مرگ مصروفِ عمل رہیں۔ لیڈی میری کی جدوجہد  نے انگلستان میں ویکسین کے لئے زمین تیار کی اور ان کی وفات کے کچھ  ہی برس بعد ایڈورڈ جینر نے اپنے تجربات کی روشنی میں  ویکسینالوجی کی باقاعدہ  بنیاد رکھی۔

اس پوری کہانی میں دو بنیادی نکتے ہیں جب پر میں آپ کی توجہ چاہتا ہوں۔ پہلا نکتہ لیڈی میری کا بیماری کے حوالے سے ذاتی تجربہ اور علاج کا مشاہدہ ہے۔ لیڈی میری کو اپنے بھائی کی موت کا صدمہ برداشت کرنا پڑا وہ خود بھی اس بیمار ہوئیں اوراس بیماری کے اثرات عمر بھر کے لئے ان کے جسم پر رہے۔ لیکن جیسے ہی لیڈی میری کو علاج یا بچاؤ کا پتہ چلا انھوں نے اس کا مشاہدہ کیا اس طریقہ کو جانچا پرکھا اور اپنی مکمل تسلی کرلینے کے بعد نہ صرف اپنے بیٹے اور بیٹی کو چیچک سے محفوظ کرلیا بلکہ انگلستان واپسی کے بعد اپنی بھرپور کوشش کی کہ دوسروں کو بھی اس موذی مرض سے نجات دلائی جائے۔

دوسرا نکتہ معاشرے میں اس نئے طریقے کے خلاف ردعمل اور مخالفت ہے۔  اس چیز کو علامہ اقبال اپنے شعر میں یوں بیان کرتے ہیں:

آئینِ نو سے ڈرنا، طرزِ کُہن پہ اَڑنا

منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں

قدرت کی ستم ظریفی دیکھئے آج سے ٹھیک تین سو سال قبل جو طرز عمل انگریزوں نے اپنایا تھا آج وہی کام ہم کر رہے ہیں۔ کل تک تو صرف پولیو کی ویکسین ہی نا قابلِ قبول تھی مگر اب تو ٹائی فائیڈ کی ویکسین پر بھی ہمیں یہود و نصاریٰ کی سازش کا شک ہے۔ جی ہاں  وہی یہود و نصاریٰ جنھوں نے خلافتِ عثمانیہ کے مسلمانوں سے ویکسینیشن کا طریقہ سیکھا تھا۔

تین صدی پہلے لیڈی میری کو اپنی اولاد کو ویکسینیٹ کر کے لوگوں کو دیکھا نا پڑا تھا آج ہمارے بڑے بڑے ڈاکٹرز پولیو اور ٹائی فائیڈ کی ویکسین اپنے بچوں کو میڈیا کے سامنے لگانے اور دکھانے پر مجبور ہیں۔

سب سے مزیدار بات یہ ہے کہ ویکسین کی افادیت پر کوئی اعتراض نہیں کرتا ہے۔ آپ کسی بھی ویکسین کے مخالف سے بات کر لیں وہ آپ کو مسلمانوں کی آبادی کو کنٹرول کرنے سے لیکر سلو پؤازنگ تک طرح طرح کے سازشی نظریات عین الیقین والے تیقن سے بیان کرے گا مگر آپ کو ایک بھی ایسا بندہ نہیں ملے گا جو یہ کہہ سکے کہ میرے بیٹے یا بیٹی کو پولیو کی ویکسین دی گئی مگر اس کو پھر بھی پولیو ہو گئی، تجربہ شرط ہے۔

اگر بحث کی غرض سے تسلیم کر بھی لیا جائے کہ پولیو کی کمپینز پاکستان کے مسلمانوں کی آبادی کو قابو کرنے کے لئے کی جا رہی ہیں،  تو بھائی ایک بات بتائیے کہ کیا صرف پولیو کی ویکسین ہی رہ گئی ہے کہ جس کی مدد سے آبادی کو کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔ اول تو یہ جان لیجیئے کہ پیناڈول سے لیکر انسولین تک ہر دوا پاکستان باہر سے درآمد کرتا ہے پھرتو آپ کوئی بھی دوا استعمال نا کیا کریں، کیونکہ پولیو کی ویکسین کے تو صرف دو ہی قطرے پینے ہوتے ہیں وہ بھی تین چار مہینے بعد،مگر کھانسی بخار میں تو آپ اپنے بچوں کو دواؤں کی پوری کی پوری بوتل ہی پلا دیتے ہیں۔ اسی طرح صرف دواؤں پر ہی کیا موقوف، جتنی کھپت پاکستان میں سافٹ ڈرنکس کی ہے اس کا تو کوئی حساب ہی نہیں ہے، خود اندازہ کیجیئے آپ اور آپ کے اردگرد موجود لوگ ایک ہفتے میں کتنی مقدار میں کوک، سپرائٹ، سیون اپ، پیپسی، ڈیو وغیرہ پی جاتے ہیں۔ ان سب کا شیرہ بھی باہر سے تیار پاکستان آتا ہے۔ لیکن پیپسی یا کوک پیتے ہوئے تو کبھی آپ کو یہ آبادی کنٹرول ہونے کا ڈر نہیں لگا۔ایک لمحے کے لئے ان سب شکوک و شبہات سے بالاتر ہو کر  سوچیئے کہ اگر آپ کسی کی آبادی کنٹرول کرنا چاہتے  ہیں تو کوک اور پیپسی کا انتخاب کرتے یا پولیو کی ویکسین کا؟

 ہمیں اپنے بچوں کے لئے اپنی قوم کے مستقبل کی خاطر سنجیدہ ہونے کی ضرورت ہے۔ اگر آج ہم نے اپنے طرزِ عمل کو ٹھیک نہ کیا توآنے والی نسلیں ہمیں کبھی معاف نہیں کریں گی۔

Dr. Muhammad Ibrahim Rashid Sherkoti

Hi, I am a Ph.D. in biotechnology from National University of Sciences and Technology, Islamabad. I am interested in biotechnology, infectious diseases and entrepreneurship. You can contact me on my Twitter @MIR_Sherkoti.