میرے خیال میں فوج ایک جن ہے جس کو زیادہ دیر بوتل میں بند رکھنا بھی ممکن نہیں اور زیادہ دیر فارغ رکھنا بھی ممکن نہیں۔ اس جن کو ہر وقت کوئی نہ کوئی کام بتائے جاؤ تو یہ اس میں مگن رہے گا۔ جیسے ہی فارغ ہوا تو یہ اپنی طاقت استعمال کرنے کا کوئی نیا راستہ ڈھونڈنے لگے گا۔ آپ نے نیا کام بتا دیا تو ٹھیک، نہیں تو پھر آپ کو ہی کھا جائے گا۔ اتنی بے بہا طاقت کو قابو رکھنا کسی کے بس کی بات نہیں (کم سے کم ہم جیسی عوام کے بس کی تو بالکل نہیں)۔
بھارت کی فوج آزادی سے ہی کسی نہ کسی ریاست میں برسر پیکار رہتی ہے، چار پانچ ریاستوں میں ہر وقت ہی آپریشن چل رہے ہوتے ہیں۔ شاید اسی لئے وہاں مارشل لا کی کبھی نوبت نہیں آئی۔ امریکہ کی فوج سو سال سے کسی نہ کسی محاذ پر مسلسل لڑ رہی ہے۔ پاکستان کی فوج پچھلے بیس سال سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پھنسی ہوئی ہے اسلئے ملکی تاریخ میں پہلی دفعہ ڈھائی جمہوری حکومتیں سکون سے گزر چکی ہیں۔ افغانستان سے امریکہ کی پسپائی کے بعد کیا صورتحال ہو گی یہ اللہ بہتر جانتا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ فوج کے پاس یہ طاقت آتی کہاں سے ہے؟ میرے خیال میں فوج کی اصل طاقت اس کا ڈسپلن ہے۔ جونیئر رینک والے کو سینئر رینک والا جو حکم دے (چاہے ذاتی نوعیت کا کیوں نہ ہو) اس کی پاسداری مجبوری بن جاتی ہے۔ میرے ایک جاننے والے فوج میں تھے۔ ایک دفعہ ان کی بریگیڈ کو کسی اور جگہ مارچ کرنے کا حکم ہوا۔ فوج نے سامان اٹھایا اور چل پڑے۔ آگے بریگیڈیئر صاحب کی گاڑی، پیچھے پورا قافلہ جس میں کافی سارے پیدل فوجی تھے۔ اتنے میں جنرل صاحب وہاں سے گزرے۔ انہوں نے بریگیڈئر کو روک کر پیدل مارچ کا حکم دے دیا۔ بریگیڈئر کی یہ مجال نہ ہوئی کہ جنرل کو کہے کہ میرا یہ رینک ہے اور یہ گاڑی میرے رینک نے مجھے قانونی طور پر دی ہے۔ حکم کی تعمیل ہوئی۔ یہاں تک کہ کچھ گھنٹے کی پیدل مارچ کے نتیجے میں بریگیڈئر صاحب ہیٹ سٹروک سے گر پڑے اور دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے۔ سینکڑوں جوان اور افسر یہ منظر دیکھ رہے تھے کسی ایک کی بھی یہ مجال نہ ہوئی کہ جنرل کا گریبان پکڑ کر پوچھے کہ یہ تم نے کیا کیا، اس کی ناحق جان لے لی۔ حکم تھا سو تعمیل ضروری تھی۔ اس تعمیل میں ایک دو یا سینکڑوں یا ہزاروں کی بھی جان چلی جائے تو حکم مقدم رہے گا۔ حکم کی تعمیل کا یہی سبق ان کو گولیوں اور بموں کی بوچھاڑ میں آگے بڑھتے رہنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ حکم کی تعمیل لازمی ہوتی ہے چاہے آگے موت ہو یا پارلیمنٹ۔ اصل سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب آپ نچلے رینک والے لاکھوں کو حکم کی اس حد تک تعمیل سکھاتے ہیں تو اوپر کے رینک والے چند ایک کو آئین کی بالادستی کیسے سکھائی جائے؟
فوج بہر حال مملکت کا ایک اہم محکمہ ہے۔ مملکت کے دیگر محکمے بھی اسی قدر اہمیت کے حامل ہوتے ہیں یا شاید بعض تو اس سے بھی زیادہ اہم ہوتے ہیں۔ مثلا تعلیم کے محکمے کو ہی لے لیں۔ یہ محکمہ دیگر تمام محکموں اور شعبہ ہائے زندگی کی اساس ہے کیونکہ یہاں سے جیسے لوگ نکلیں گے وہ باقی تمام شعبوں کو چلائیں گے۔ جو اس کا حال ہو گا وہی عکس باقی سب جگہ نظر آئے گا۔ اس کلیدی اہمیت کے حامل محکمے کے حالات یہ ہیں کہ سینئر ترین عہدوں پر بیٹھے پرنسپل کئی دفعہ کلرکوں کے ہاتھوں کٹھ پتلی بنے ہوتے ہیں۔ سترہویں گریڈ کے لیکچرار سے لے کر بیسویں گریڈ کے پروفیسر تک کو اپنی تنخواہ جاری کروانے، سروس، چھٹی، پروموشن اور پینشن جیسے معاملات کے لیے کلرکوں کو رشوت دینی پڑتی ہے۔ سائنس کے سترہویں گریڈ کے افسران پہلے گریڈ کے اٹینڈنٹ سے لیب کی صفائی یا پریکٹیکل کے سامان کی تیاری نہیں کروا سکتے۔ یہاں تک کہ کئی دفعہ نچلے درجے کے ملازموں کے ہاتھوں پرنسپلز پر قاتلانہ حملے، طلبا کے ہاتھوں اساتذہ کے قتل اور اس نوعیت کے دیگر اندوہناک واقعات بھی اخباروں کی زینت بنتے رہتے ہیں۔
ایک سینئر فوجی اپنے سے ایک رینک کے جونئیر کو قابو کرنا بخوبی جانتا ہے۔ لیکن بیسویں گریڈ کا پروفیسر پہلے گریڈ کے لیب اٹینڈنٹ سے الماری میں بند پریکٹیکل کا سامان نہیں نکلوا سکتا۔ آدھے سے زیادہ کالجوں میں ایک آدھ شرابی، چرسی یا اس قبیل کا کوئی ملازم پورے کالج کی ناک میں دم کیے رکھتا ہے۔ ایسے حرام خور ملازموں کے خلاف نہ تو کوئی استاد قلم کی تلوار چلا سکتا ہے نہ پرنسپل کاروائی کر سکتے ہیں کیونکہ ایسے لوگ بہت آسانی سے اپنے سے اوپر والوں کو احتجاج، یونینز، غنڈہ گردی، یا سیاسی اشیر باد جیسے ہتھکنڈوں سے ناکوں چنے چبوانا جانتے ہیں۔
سالانہ پرفارمنس رپورٹوں اور پروموشن کے لیے فوج میں کس حد تک پرفارمنس دکھانی پڑتی ہے سب جانتے ہیں۔ پھر بھی کئی لوگوں کو جبری ریٹائرمنٹ دی جاتی ہے، کئی پروموشن سے محروم رہ جاتے ہیں اور کئی ہاتھ پاؤں تڑوا بیٹھتے ہیں۔ اس کے باوجود کسی کو احتجاج کی جرات نہیں ہوتی، نہ اوپر والوں کے خلاف کوئی مہم چلتی ہے، نہ کوئی سفارشیں ہی ان کو بچا پاتی ہیں۔
اس کے مقابلے میں اچھی سالانہ پرفارمنس رپورٹ اور پروموشن تعلیمی ادارے کے گندے سے گندے ترین ملازم بھی اپنا حق سمجھتے ہیں۔ اگر کوئی افسر ہمت کر کے سچ لکھ بھی دیں تو دوست احباب، شریک کار افراد، افسران بالا اور سیاسی چیلے لکھے ہوئے کو باآسانی تبدیل کروا دیتے ہیں۔ پیچھے صرف وہی رہ جاتے ہیں جن پر اللہ کی طرف سے ہی مشکل وقت طے ہوا ہو۔ چور، منشیات کے عادی، راشی ،زانی، اقربا پرور، کام چور، احمق، خطرناک، غرض ہر طرح کے لوگ سالانہ رپورٹوں میں حاجی اور متقی قرار پاتے ہیں۔
یہ حال محکمہ تعلیم کا ہے، جہاں سب نے شاید ذہنی طور پر یہ تسلیم کر لیا ہے کہ یہ سب خرابیاں سسٹم کا بنیادی جزو ہیں اور ان کو تبدیل یا ٹھیک نہیں کیا جا سکتا۔ ہم سب نے ان کے ساتھ ہی جینا سیکھ لیا ہے۔ یا یہ کہ ہم میں سے ہر ایک یہ سمجھتا ہے کہ اس گندگی کو ٹھیک کرنا اس کا کام نہیں بلکہ اس سے اوپر والوں کی ذمہ داری ہے۔ یہ سب تو میں نے ذاتی طور پر ہوتے دیکھا ہے۔ دیگر محکموں کا بھی شاید یہی حال ہو گا۔ پھر فوج سے شکوہ کس بات کا ہے؟ اس بات کا کہ وہ ہماری طرح اپنے محکمے کو تباہ کیوں نہیں کرتے؟