ہمارے ہاں نکاح کو رواج دینے کی بجائے رکاوٹیں ڈالی جاتی ہیں۔ یقین جانئیے گناہ ہوتا ہی وہاں ہے جب ہم اللہ کی طرف دی گئی آزادیوں کو روندنا شروع کرتے ہیں۔  نکاح کے حوالے سے بہت سے پہلو ہیں جنہیں اس عظیم نبوی سنت کے خلاف رکاوٹ کہہ سکتے ہیں لیکن آج میں ایک ایسے پہلو کی جانب توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ جو ہمیشہ اس مسلم معاشرے میں درگزر کر دیا جاتا ہے: مطلقات اور بیواؤں کے نکاحوں کو رواج دیجیے۔

اس پہلو سے میں کیوں لکھ رہا ہوں تو اس کی وجہ ایک مطلقہ کی دہائی اور درد ہے جسے میں لکھتے ہوئے بھی رو پڑا۔ عموما ہم جب کہتے ہیں کہ دوسری شادی کیجیے تو ٹھٹھہ اڑایا جانے لگتا ہے، اور اعتراضات کچھ یوں ہوتے ہیں:
1. پہلی کے حقوق کبھی پورے نہیں ہوتے اور دوسری کی جانب چل نکلے۔ لیکن جو اس حالت میں مبتلا ہے ان سے پوچھیے تو سہی۔
2. شرم بھی نہیں آتی اس عمر میں شادی، ہوس سر پر چڑھ کر بول رہی ہے۔ اس کا ایک پہلو ہوس پرستی کوئی کہہ سکتا ہے لیکن مطلقات و بیواؤں سے کیسی ہوس؟

اس تحریر کی وجہ ایک مکالمہ ہے۔ آج مجھے کسی نے کہا کہ مجھے رشتہ ڈھونڈ دیجیے۔
میں: عمر کتنی ہے؟
جواب ملا : 60 سے زائد
میں نے پوچھا : اس عمر میں کیا ضرورت ہے؟
جواب ملا : کئی سال شوہر کے ساتھ وفا میں بیتے لیکن شوہر کی وجہ سے ماں نہیں بن سکی۔ بالآخر مجھے پچاس سے زائد عمر میں طلاق دے دی گئی۔
میں نے کہا اب کیوں کرنی ہے؟
جواب ملا : کوئی ساتھ نہیں سب بیرون ملک جا چکے۔ تنہائی مار کھاتی، زندگی کے کرب جاگ جاتے ہیں، پچھتاوے کے کچوکے مار ڈالتے ہیں، کون میرا خیال کرے، کس سے میں باتیں کروں، کس کے کندھے پر سر رکھ کر درد سناؤں۔ میرا نکاح کروا دیجیے۔

اس مکالمے سے ہی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ہمارے ہاں بالخصوص مطلقہ بیوہ سے شادی کو عیب سمجھا جاتا ہے۔ ہاں ہندو پدرسری معاشرے میں یہی کچھ ہی نتیجے سے نکلے گا نا کہ بھلا انہیں کیا ضرورت ہے؟ اس کمزور لاچار طبقے کو بھی ضرورت ہے۔ ہم نے سماج میں انا کے بتوں پر ان کی بلی چڑھا دی۔ میں یہاں پر مشہور ایک کیس کا تذکرہ کروں گا جسے عمرانہ کیس کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ جس میں بہو سے سسر نے زبردستی کی۔ عجیب معاملہ ہوا۔

عمرانہ کے لیے فتاوی ملے کہ شوہر کے لیے حرام ہو چکی دوسری جانب عدالت سے سسر کو سزا دی گئی۔ کسی نے سوچا کہ سسر نے دست دارزی کیوں کی، میں اس کی حمایت نہیں کر رہا لیکن اس سسر کے لیے شادی کا چانس نہیں تھا بیوی کی وفات کے بعد۔ کہا گیا اب بوڑھا ہے کیا ضرورت ہے۔ دوسری طرف عمرانہ کا کیا قصور تھا کہ شوہر کے لیے حرام ہو گئی حالانکہ وہ اس قبیح فعل میں مجبور کی گئی اور زبا بالجبر کیا گیا؟

سوچیے یہ مسائل مزاح نہیں، سماج کے اندرون کے چٹخنے کی آوازیں ہیں۔ اس لیے ہمیں اس کرب والے ماحول سے نکل کر دینی رخصت کی طرف آنا ہوگا۔ کسی بھی عمر میں شادی ہو سکتی ہے۔ بس زنا نا ہو۔ یہ تو مرد کی کہانی ہے لیکن معاشی بحران کا شکار مطلقہ بیوہ کے درد کو کون سمجھے گا؟ عموما مستحکم اور نوکری پیشہ خواتین کا اعتراض ہوتا ہے کہ مرد حقوق پورے کرے تو پھر دوسری کرے۔ یہ بیویاں ہی اگر ایک ایسی عورت کو شیلٹر دینے کے لیے اپنے شوہروں کے ساتھ کھڑی ہوں، دو روٹیاں دو سوٹ بڑھانے سے تو کتنے چہروں پر ہنسی سجائی جا سکتی ہے؟ ایک مسلمان دکھیارے یا دکھیاری کے درد کو دور کرنا سنت ہے اور اس دور کی مشکل سنت پر عمل سے سو شہیدوں کا ثواب بھی۔ جانتے ہیں انہی مسائل کے حل کے لیے اللہ جل شانہ نے سورہ النور آیت نمبر 32 میں فرمایا ہے کہ نکاح کرواؤ تنگ دستی دور ہوجائے گی؟

وَ اَنۡکِحُوا الۡاَیَامٰی مِنۡکُمۡ وَ الصّٰلِحِیۡنَ مِنۡ عِبَادِکُمۡ وَ اِمَآئِکُمۡ ؕ اِنۡ یَّکُوۡنُوۡا فُقَرَآءَ یُغۡنِہِمُ اللّٰہُ مِنۡ فَضۡلِہٖ ؕ وَ اللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیۡمٌ ﴿۳۲﴾

ترجمہ:
تم میں سے جن (مردوں یا عورتوں) کا اس وقت نکاح نہ ہو، ان کا بھی نکاح کراؤ، اور تمہارے غلاموں اور باندیوں میں سے جو نکاح کے قابل ہوں، ان کا بھی۔ اگر وہ تنگ دست ہوں تو اللہ اپنے فضل سے انہیں بےنیاز کردے گا۔ اور اللہ بہت وسعت والا ہے، سب کچھ جانتا ہے۔

گوکہ اس آیت کے لفظ “الایامی” کا ترجمہ عام مرد و عورت بھی کیا جاتا کہ کوئی بھی مرد عورت جوان بوڑھا، کنوارہ، کنوارہ مطلقہ، بیوہ سبھی اس سے مراد لیے جا سکتے ہیں لیکن ایک خاص پہلو سے دیکھیں تو “الایامی” لفظ ” الایم “سے ہےاور حدیث کے مطابق الایم بیوہ اور مطلقہ کو کہا جاتا ہے۔ اس لفظ کے حدیثی مفہوم سے اور آیت سے یہ نتیجہ اخذ ہوا کہ معاشرے میں کمزور مالی اعتبار سے چار طرح کے افراد تھے جنہیں مالی شیلٹر کی ضرورت ہوتی ہے: 1. بیوہ 2. مطلقہ 3. غلام 4. باندی۔ ان کے نکاح کا حکم دیا کہ اس سے ان کے مالی حالات بہتر ہونگے.

خداوند کریم کے پیارے حبیب آقائے کائنات صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ جو کسی کی تکلیف کو دور کرے گا اللہ اس کی تکلیفیں قیامت کے دن دور کریں گے۔ خدانخواستہ ہم سے کسی کو یہ حادثہ پیش آجائے کہ بیوی فوت ہو جائے یا شوہر تو کیا کریں گے؟ اللہ ایسا نہ کریں۔ مجھے علم ہے اس سب پڑھنے کے بعد بھی ہم کچھ نہیں بدلیں گے کیونکہ جب تک ہمارے سر پر نا پڑے ہم بدلتے نہیں۔ دوسروں کے درد کو سمجھنا اور دور کرنا ایسا نیک عمل ہے۔ اللہ ہمیں سماجی مسائل سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔

Tayyab Usmani

Phd: Islamic Theology (Pakistan) Post Graduate: Islamic Theology & Scientific Literacy (USA) Fazil Dars e Nizami Lecturer Islamic Studies : Govt Murray College Sialkot