تحریر: امجد عمر رانجھا
ہمارے گاؤں میں ایک خاندان کو جانتا ہوں جو عرصہ دراز سے معاشی بحرانوں کا شکار ہے. اس خاندان کے ہمسائے میں ایک بڑھیا رہتی تھی جو معاشی طور پر اس مذکورہ خاندان سے کافی بہتر تھی. اس خاندان کے تمام افراد کا متفقہ ایمان تھا کہ وہ ہمسائی عورت جادو ٹونہ کرتی ہے اور ان کی معاشی بدحالی کا سبب بنتی ہے. میں نے بچپن سے اس خاندان کو اپنی ناکامیوں اور نااہلیوں پر اس عورت کو گالیاں بکتے اور برا بھلا کہتے سنا اور دیکھا ہے. کیونکہ ان کا خیال تھا کہ ان کی ہر ناکامی اور نامرادی کی وجہ اس عورت کا کیا گیا جادو ہے.
میں نقطے کی وضاحت کے لئے اس خاندان کے چند آنکھوں دیکھے واقعات پیش کرتا ہوں جن کا سبب جادو کو سمجھا جاتا تھا. مج نے دودھ نہیں دیا یا کم دیا ہے تو وجہ جادو ہے. بھائی بھائی سے لڑ پڑا ہے تو وجہ جادو ہے. بھائی بہن سے الجھ پڑا ہے تو وجہ جادو ہے. اولاد والدین کی گستاخی کرنے لگی ہے تو وجہ جادو ہے. گاڑی لگ گئی ہے نقصان ہوگیا ہے تو وجہ جادو ہے. گھر میں گرا ہوا پرندے کا پر ملا ہے تو وجہ جادو ہے. بیٹے یا بیٹی کا رشتہ ٹوٹ گیا ہے تو وجہ جادو ہے. رات کے سمے گھر میں کالی بلی گھس آئی ہے تو وجہ جادو ہے. رات کے سمے گھر کے باہر کتے بھونکتے سنائی دیے ہیں تو وجہ جادو ہے. وغیرہ وغیرہ. قصہ مختصر یہ کہ ان کی ہر محرومی، ہر نااہلی اور ہر قدرتی مظاہرے کا سبب محض جادو کو سمجھا جاتا رہا اور ہر دفعہ ہر واقعے پر اس عورت کو بآواز بلند گالم گلوچ بھی کیا جاتا رہا اور آئے روز نئے نئے پیروں اور فقیروں کے در بھی کھٹکھٹائے جاتے رہے.
انہی مصروفیات کے کارن ایک مدت تک یہ خاندان جمود کا شکار رہا اور معاشی حالات بد سے بدتر ہوتے چلے گئے. اس خاندان کے تمام افراد ان پڑھ اور نکمے تو تھے ہی ان کی اولادیں بھی انہی پر گئیں اور آج اس جادوگرنی کے انتقال ہوجانے کے آٹھ سال بعد بھی اسی ڈگر پر گامزن ہیں. نہ ہی ان پر ہونے والا جادو تھما ہے اور نہ ہی انہوں نے تصویر کے دوسرے رخ پر کبھی سوچنے سمجھنے کی غلطی کی ہے. مجھے یقین ہے کہ جب تک مذکورہ بالا خاندان اپنی سوچ کو نہیں بدلے گا. اپنی ناکامیوں کا سبب خود کو نہیں سمجھے گا. اپنے آپ سے سوال نہیں کرے گا. تب تک ان کے دل میں عمل کی تحریک پیدا نہیں ہوگی وہ اپنے حالات کو بدلنے کے لئے کبھی آمادہ نہیں ہوں گے. حالات کو بدلنے کے لئے کوئی حقیقی کاوش نہیں کر پائیں گے. اور حالات نہیں بدلیں گے.
کچھ یہی انداز فکر میری قوم کا ہے. ہماری تمام ناکامیوں، نااہلیوں اور نامرادیوں کی وجہ امریکہ ہے. ہمارے دگرگوں معاشی حالات کی وجہ امریکہ ہے. ہماری جہالت کی وجہ امریکہ ہے. ہمارے ملک میں آنے والے سیلابوں، زلزلوں، طوفانوں اور بحرانوں کی وجہ امریکہ ہے. امریکن تھنک ٹینک، پینٹاگون، نیو ورلڈ آڈر، ڈیل آف دا سینچری اور اب کرونا حیاتیاتی ہتھیار سب امریکہ نے مسلمانوں باالخصوص پاکستانی مسلمانوں کے اقوام عالم میں بڑھتے ہوئے اثرورسوخ و کامیابیوں و کامرانیوں سے خوفزدہ ہوکر بنائے ہیں. یہ ہم پر مسلط کرپٹ حکمران امریکہ کے منتخب کردہ ہیں. یہ ہمارا نظام عدل امریکہ نے پائمال کیا ہے. یہ ہماری اخلاقی گراوٹ کا سبب امریکہ ہے. اسی طرح یہ کرونا وائرس بھی امریکہ کی ہی چال ہے. یہ لیبارٹری میں تیار کیا گیا ایک مہلک ہتھیار ہے اس کی ویکسین بھی اس کی ایجاد کے ساتھ ہی تیار کر لی گئی تھی.
اس لئے ہمیں اس کے اسباب، منتقلی، طریقہ واردات اور علاج پر سوچنے سمجھنے اور تحقیق کرنے کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں ہے. ہمیں اپنا قیمتی وقت لیبارٹریز میں ضائع کرنے کی بجائے امریکہ کی ان بھیانک چالوں سے خبردار ہوکر علم و عمل کو ترک کر کے بحرانوں کے گزر جانے کا انتظار کرنے کی ضرورت ہے. خدا کو مطلق العنان اور رب العالمین مان کر اس کی علم و تحقیق اور کفار کے مقابل اپنے گھوڑے تیار رکھنے کی تعلیمات کو پس پشت ڈال کر وقت اور انسان کے انجام پر حشر برپا ہوجانے تک انتظار کی ضرورت ہے. یا پھر شاید ایک دوسرا راستہ اختیار کرنے کی اشد ضرورت آن پڑی ہے جو تمام جہانوں کے رب نے تمام انسانوں کے ارتقاء و ارتفاع کا بتلا دیا ہے کہ
” انسان کے لئے کچھ نہیں ہے مگر جس کی وہ کوشش کرے”
(القرآن)
یاد رہے یہ خدائی اصول تمام انسانوں کے لئے ہے. اور اقبال نے بھی فرما دیا ہے کہ..
نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسم شبیری
علامہ محمد اقبال
کہ فقر خانقاہی ہے فقط اندوہ و دلگیری
اللہ ہمیں راست سمت میں چلائے اور راست عمل کی توفیق عطا فرمائے. آمین