کج بحثی اور کم علمی، یہ دونوں کسی شخص میں موجود ہوں تو پھر اس شخص سے کچھ بھی بعید نہیں کہ وہ کیا کہتا اور کرتا پھرے۔ بلاشبہ بحث و مباحثے اور مکالمے صحت مند معاشرے کی تشکیل کے لیے ضروری ہیں اور دنیا کی مہذب اقوام میں ہمیں اس طرح کی چیزیں دیکھنے کو ملتی بھی ہیں، لیکن ہمارے ملک میں چونکہ شرحِ تعلیم کم ہے جس کی وجہ سے عوام کی بڑی اکثریت ان اصولوں اور قواعد اور ان اخلاقی پہلوؤں سے نا واقف ہے جو کسی مفید اور نتیجہ خیز بحث کے لیے ضروری ہیں۔ اصل میں ہمارے ملک میں عوام دو بڑے طبقوں میں بٹی ہوئی ہے، ایک جانب قدامت پرست روایتی مذہبی طبقہ ہے تو دوسری طرف نسبتاً آزاد خیال لبرل حلقہِ اثر۔ یہ دونوں طبقات ہی اپنے اپنے نکتہِ نظر میں کافی شدت رکھنے لگے ہیں، لیکن ان دونوں کے بر عکس مذہبی سائیڈ پر بھی اور لبرل سائیڈ  پر بھی ایسے لوگ بڑی تعداد میں موجود ہیں جو اعتدال پسند رویہ اختیار کیے ہوئے  ہیں اور ان میں اکثریت با شعور اور تعلیم یافتہ لوگوں کی ہوتی ہے، یہ لوگ ہر دو طرح کی فکر سے واقف ہوتے ہیں اور اپنی سوچ اور افکار مطالعے و مشاہدے کے بعد ترتیب دیتے ہیں۔

ان کے مقابلے میں مار وہ لوگ کھا جاتے ہیں جو اپنے آپ کو اس قدر اور اس شدت کے ساتھ ان لوگوں اور ان نظریات اور فکر کے حوالے کر دیتے ہیں جن سے وہ خود واقف نہیں ہوتے۔ جو اپنے آپ کو مذہبی اکابرین کے سپرد کر دیتے ہیں تو پھر وہ انہیں کے ہو رہتے ہیں اور پھر وہ خود جاننے اور غور وفکر کے راستے پر نہیں لگتے، اس کا نتیجہ ان کی سوچ میں شدت اور انتہا پسندی کی صورت میں سامنے آتا ہے کیونکہ ان کے پیشوا اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے ان جیسے لوگوں کو بروئے  کار لاتے ہیں۔ جب کہ ان کے مقابل دوسری جانب بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو خود کو لبرل اور سیکولر ثابت کرنے میں ہلکان ہوئے جاتے ہیں اور ان کی بڑی اکثریت ان اصطلاحوں سے صرف ناموں کی حد تک ہی واقف ہوتی ہے۔

یہاں بھی وہی سوچ کارفرما ہے کہ اوپری سطح پر موجود لوگ سب جانتے ہیں اور پھر اسی طرح یہاں بھی وہ اپنی سیاست اور مقاصد کی تکمیل کے لیے” بے چارے“ سمجھ سے عاری اور کم تعلیم یافتہ اور سسٹم میں اپنےآپ کو ایڈ جسٹ نہ کرنے والے نوجوانوں کو اپنا ہتھیار بنا لیتے ہیں۔ ان کے بڑے دن رات ان کو سسٹم کی خرابیاں گنواتے رہتے ہیں اور ہر وقت ملک کے حوالے سے منفی پہلوں کو سامنے لانے کی کوششوں میں لگائے رکھتے ہیں۔

ان دونوں مکاتبِ فکر کے مقابلے میں عوام کا ایک واضح حصہ معتدل مزاج و نظریات کا حامل ہوتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ ان دونوں طبقات کو اعتدال پسند کیسے راہ راست پر لائیں؟ کیسے ان کو ان راہوں سے ہٹایا جائے جن پر ان کو چلا کر دوسرے لوگ فوائد حاصل کر رہے؟ ان کے کندھوں پہ دھری یہ بندوقیں فکری بندشوں کی شکل میں نہایت گہری ہو چکی ہیں کہ ان سے چھٹکارہ حاصل کرنا یقینأ مشکل ترین کام ہو گا ۔

میری رائے میں اس کا بہترین حل یہ ہے کہ ڈائیلاگ کا راستہ اختیارکیا جائے اور مکالمے اور بحث و مباحثے کی بہترین فضا کو قائم کیا جائے۔ لیکن ایک بڑی مشکل تب اس راہ میں حائل ہو جاتی ہے جب درج بالا لوگوں سے علمی انداز میں بات کی جاتی ہے اور دلائل کو سامنے رکھا جاتا ہے۔ ایسے میں کم علم اور دوسروں کے آلہ کار بنے ہوئے لوگ ہر اس عمل پر اتر آتے ہیں جو مزید بات کرنے کے قابل نہیں رہنے دیتا۔ پہلے تو یہ کچھ حد تک بات تو کرتے نظر آئیں گے اور پھر جب انہیں اپنی خود ساختہ علمیت اور حیثیت چیلنج ہوتی نظر آئے گی تو پھر یہ راہِ فرار اختیار کرنے کے لیے ذاتیات اور بد اخلاقی پر اترتے دکھائی دیں گے۔ اس کے دو بہترین حل ہو سکتے میری نظر میں۔ اگر آپ کا ایسے لوگوں سے واسطہ پڑے تو آپ ان کی اصلاح کی غرض سے ان کی طرف سے ہونے والی ہر بد اخلاقی اور کم علمیت اور دلائل کے بغیر ہونے والی گفتگو کو یا تو برداشت کرتے جائیں تاکہ ان کی سمجھ میں کچھ نہ کچھ آتا رہے۔ لیکن یہ کام آپ اس حد تک کریں جہاں تک آپ سمجھتے ہیں کہ ان سے گفتگو جاری رکھی جا سکتی ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ اوپر موجود لوگ جو انہیں استعمال کرتے ہیں ان سے ڈائیلاگ ہو اور یہ سب کے سامنے ہو تاکہ نچلی سطح پر موجود لوگ واقف ہو سکیں کہ بحث ومباحثے کے لیے علمیت اور خلاقی پہلوں کا ہونا ضروری ہے۔ اور جب دونوں اطرف بات چیت کا سلسلہ شروع ہو گا تو یقینأ اس کا فائدہ عام لوگوں کو بھی ہو گا کیونکہ عوام اپنے بڑوں کی دوریوں اور سیاست کی وجہ سے آپس میں گتھم گتھا ہوتی ہے۔

Fazeel Margaish

My Name is Fazeel Margaish. I am an Urdu writer. My main focus is articles related to politics and social issues.