انسان حضرت آدم اور اماں حوا کے وقت سے لے کر آج تک رشتوں میں بندھا چلا آیا ہے۔ زندگی میں خوبصورتی انہی رشتوں کی وجہ سے ہے جس کا احساس حالیہ وبا میں قید انسان کو ایک دفع پھر سوچنے پر مجبور کر رہا ہے کہ محض مادی ترقی ہی نہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ انسان کی اپنی ایک فطرت بھی موجود ہے جس کی تسکین ایک مضبوط معاشرتی نظام میں پنہا ہے۔ شائد ایسا پہلی بار ہوا ہے کے شفا ایک دوسرے سے دور رہنے میں پوشیدہ ہے۔ اجڑے اور ویران شہروں میں ہی اب شہر کی بھلائی ہے، اور ہجر ہی سکون اور آرام کا ضامن۔

مغربی دنیا کے معاشرتی نظام پر شائد یہ اتنا اثر انداز نہ ہو مگر مشرق میں یہ وبا کافی گہرے نشانات چھوڑ جائے گی۔ ہر عمر کے لوگ اس خوف کے ماحول سے متاثر ہو رہے ہیں۔ بچے گھروں میں اس طرح سے مقید شائد پہلے کبھی نہیں ہوئے نہ ہی انہیں قید کیا جا سکتا تھا، مگر اس بار شائد وہ بھی خوف کی وجہ سے ہمت ہار چکے ہیں۔ جوان جو کے قوم کا سرمایا ہوتے ہیں وہ بھی عجیب کشمکش میں ہیں کیوں کے زورِ بازو کا کام تو یہ ہے نہیں۔ سب سے زیادہ ذہنی دباؤ کا شکار عمر رسیدہ لوگ ہیں کیوں کے اگر کورونا سے اموات پر نظر ڈالیں تو سب سے زیادہ متاثر بزرگ ہی نظر آتے ہیں۔ ایسے حالات میں حضرتِ انسان نے ایک دوسرے سے دور رہنے کو ہی ترجیح دی ہے تاکے اپنی جان بچا سکے۔ دوسرے الفاظ میں کہیں تو جان کی لالچ اور احتیاط زمین وآسمان کی ہر شے پے بھاری نظر آتی ہے۔

تبلیغی اجتماع

احتیاط اپنی جگہ مگر اس وبا نے لوگوں کے ذہنوں میں زہر بھر دیا ہے۔ دو فیصد ملحق مرض اخوت کے سو فیصد کے قتل پر اتر آیا ہے۔ بھائی بھائی سے چھپتا پِھر رہا ہے، دوست تو دور کی بات ہے۔ خدارا اتنی گنجائش رکھیئے کے پھر آنکھیں ملا سکیں، وہی شودر والی مثال یہاں بھی قائم ہورہی ہے۔ وہ بچے عجیب عجیب سوال کر رہے ہیں جنہیں ہم آج تک تیماداری کے فضائل گنواتے تھے۔ ہمارا آسرہ تو صرف قصّے ہی ہیں کورونا کے بعد کس منہ سے اخوت اور بھائی چارے کے قصّے سنائینگے؟

 

Qazi Nazeef

Biotechnologist , NUST , Islamabad