ایک دن میں صبح کام سے باہر گئی۔ جب گھر سے نکلی تھی تو بجلی نہیں آ رہی تھی۔ جب دوپہر ایک بجے واپس آئی تو لائٹ تب بھی نہیں تھی۔ بہت حیرت ہوئی۔ میں نے بجلی کا بل نکالا، اس پہ نمبرز دیکھے۔ ایک نمبر پہ کال کی جو لاہور کا تھا اور بتایا کہ یہاں صبح سے لائٹ نہیں۔ مجھے ہولڈ کرایا گیا چیک کیا گیا اور کہا گیا آپ کی طرف تو آج لوڈ شیڈنگ کا ایسا کوئی شیڈول نہیں ہے۔ ہم نے کمپلین درج کر لی ہے آپ کی لائٹ کچھ دیر میں آ جاے گی۔ ٹھیک پانچ منٹ بعد لائٹ آ گئ اور مجھ سے دوبارہ فون کر کے کنفرم کیا گیا کہ لائٹ آئی ہے یا نہیں۔ اور مجھے حیرت رہی کہ سارا محلہ آرام سے ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھا تھا اور پھر ایسا کئی بار ہوا جب لائٹ گئی اور کئی گھنٹے کے لئے نا آے تو میں اس نمبر پہ کال کر کے بتاتی، کبھی وہ بتاتے کہ کام ہو رہا اور کبھی بلاوجہ لائٹ بند ہوتی تو فوری لائٹ آ جاتی۔
دوسرا واقعہ یوں ہوا کہ ہمارے گھر کے سامنے کافی سبزہ ہے۔ سردیوں میں درخت کاٹنے کے واقعات ہونے لگے۔ ایک دو بار دیکھا تو منع کیا لیکن یہ لوگ منع کب ہوتے ہیں۔ میں چھت پہ ہوتی تھی۔ ادھر کلہاڑی درخت پہ پڑتی ادھر میرے دل میں درد ہونے لگتا۔ بس پھر کیا تھا بلا لیا میں نے پولیس کو اور پولیس نے سی ڈی اے والوں کو۔ کچھ دن سکون رہتا، پھر کوئی درخت کاٹتا۔ میں گھر پہ ہوتی تو پولیس بلا لیتی۔ لیکن پورے محلے سے کوئی نہ بولتا۔ گھر سے بھی ایک دو بار کہا گیا کہ اور کوئی نہیں بولتا تو تمہیں کیا مسئلہ ہے؟
تیسرا واقعہ یہ کہ نواز شریف حکومت کا تیسرا سال تھا۔ ہمارے گھر کے سامنے کی خوبصورت سرسبز جگہ کو اسلام آباد کے پڑھے لکھے جاہلوں نے، جن کے ہہاں روز صبح سویپر کوڑا لینے آتا ہے، کوڑا ڈال ڈال کے کوڑا دان بنا دیا، بڑی سی ڈھیری۔ دل کڑھتا تھا کہ کسی کو احساس نہیں۔ یا اللہ یہ انسان ہیں یا جانور آخر ایک دن میں نے درخواست لکھی اور سی ڈی اے کے دفتر چلی گئی۔ نواز شریف دور تھا ادارے بہت ایکٹیو تھے۔ اسی شام کو میرے گھر کی بیل بجی سی ڈی کا ایک بندہ آیا اور کہا کہ آپ نے درخواست دی تھی، مجھے جگہ وزٹ کرا دیں۔ اسے وزٹ کرایا اگلی صبح دس مزودر لے کے وہ سی ڈی اے کا اہلکار آیا اور ایک گھنٹے میں جگہ صاف ستھری ہوگئی۔
اب ہے ایک ہفتہ پہلے کا واقعہ۔ ایک نئی فیملی گھر کے پچھلی طرف شفٹ ہوئی ہے۔ رات بارہ بجتے تو فل آواز میں ڈیک لگا لیتے۔ ڈیک بند ہوتا تو چھت پہ بندھا کتا بھونکنے لگتا اور فجر تک بھونکتا رہتا۔ وہ لوگ فجر کے بعد سوتے تو کتے کی آواز بند ہوتی اور چند گھنٹے ہم بھی سو لیتے۔ اگلی گلی کے تمام لوگ ڈسٹرب۔ تھے جب ملاقات ہوتی سب رونا روتے کہ نیند خراب ہوئی پڑی ہے، لیکن کوئی وہ کام نہیں کر رہا تھا جو کرنے والا تھا۔ دو رات پہلے تو حد ہی ہو گئی۔ پوری رات کتے کی وجہ سے کوئی نہ سو سکا بالآخر میں نے پولیس کو فون کیا اور کمپلین درج کرائی۔ پولیس آئی اب دو راتوں سے سکون ہے۔ میں نے پولیس سے کہا میرا نام خفیہ رکھیں محلے میں دشمنی ہوتی ہے۔ لیکن مجھے شدید حیرت ہے لوگ اتنے بے حس کیوں ہیں؟ پولیس کو برا کہتے ہیں، سی ڈی اے کو برا کہتے ہیں، حکومت پہ انگلیاں اٹھاتے ہیں۔ کبھی خود کو بھی تو دیکھیں کہ کیا آپ اپنے حصے کا کام کر رہے ہیں؟
میں نے جب جب پولیس سے مدد لی مجھے مایوسی نہیں ہوئی۔ آپ اپنے حصے کا کام تو کریں کم از کم۔
بچپن میں جو کہانیاں پڑھتی تھی وہ دل پہ نقش ہو جاتی تھیں۔ جس میں نصيحت ہوتی تو وہ نصيحت ہمیشہ کے لیے یاد رکھتی۔ ایسی ہی ایک کہانی اس شدید گرمی کے دن کی تھی جب زمین والے گرمی سے بلبلا رہے تھے اور آسمان پہ چھائے بادلوں سے سخت حبس زمین والوں کی جان جا رہی تھی۔ کہانی میں بادل کے قطروں کے بیچ مکالمہ ہوتا ہے۔ ایک رحمدل قطرہ سب کو کہتا ہے زمین والوں پہ رحم کرو اور کود پڑو۔ کوئی قطرہ زمین کی طرف خوف کی وجہ سے کودنے کو تیار نہیں ہوتا تو آخر وہ قطرہ خود ہی کود پڑتا ہے۔ اس کی دیکھا دیکھی دوسرا تیسرا اور پھر ساون کی پہلی بارش سے زمین جل تھل ہو جاتی ہے۔
مجھے اطمینان ہے کہ اللہ کے حضور میرا شمار اس پہلے قطرے میں ہو گا جو لوگوں میں آسانیاں بانٹنے کے لیے سب سے پہلے کود پڑتا تھا۔ میرا شمار ان لوگوں میں ہو گا جو صرف اچھی اچھی باتیں لکھتا نہیں ان پہ عمل بھی کرنے کی کوشش کرتا۔ جو کسی حال میں ظالم کا ساتھ نہیں دیتی چاہے وہ کسی کے ساتھ ہو۔ وہ ظلم پہ چپ رہنے کو بھی ظالم کا ساتھ دینا شمار کرتی ہے۔
اور ميں شکر ادا کرتی ہوں کہ میرے رب نے ایسے مواقع پہ تنہا ہوتے ہوئے بھی میرا ساتھ دے کے، مجھے عزت دے کے، میرا مان رکھا اور بتایا کہ تم اکیلی نہیں ہو میں تمہارے ساتھ ہوں!