کرونا وائرس جب نیا نیا آیا تو بہت سی متھس عام ہو گئیں, بتانے کی ضرورت نہیں، اب تو آپ نے سب پڑھ ہی لی ہوں گی، ایک متھ بچپن سے ہی ہمارے سر پر لاد دی گئی تھی اور وہ تھی زندہ قوم کی متھ۔ ایک تو ابن انشا سفر نامے لکھ لکھ ہمیں ڈراتے رہے کہ یہ ہوتی ہیں زندہ قومیں، صفائی ستھرائی،قانون کی پابندی، اخلاقیات اور پتہ نہیں کیا کیا۔ ہم بھی تب ایک تو نا سمجھ تھے ، دوسرے سفر ناموں کے مداح۔ بس دل میں بیٹھ گیا کہ ہم سی مردہ بلکہ مردود قوم شاید ہی دنیا میں کہیں ہو۔ بچپن تو اس وہم میں گزرا ہی گزرا کہ بڑے ہو کر رہی سہی کسر سابقہ کپتان اور موجودہ وزیراعظم نے پوری کر دی ، ہر تقریر کے آغاز اور اختتام پر فلاں ملک میں یہ اور فلاں میں وہ۔( اب رہنے دیں کیا یاد دلانا ، خوامخواہ شرمندہ ہوں گے)۔ اچھا خاصہ ہم یہ سب سمجھے ہی بیٹھے تھے کہ ایک ذرا سا وائرس کیا آیا سب متھس کا پول کھل گیا۔ اور ہمیں کچھ کچھ احساس ہوا کہ یہ جو زندہ قومیں تھیں انہیں ان کی حکومتوں اور سخت قوانین نے کچھ زبردستی سا زندہ رکھا ہوا تھا۔ اب ان قوموں کے حالات دیکھیں تو اپنے بچپن کی مرعوبیت پر شرم سے ڈوب مرنے کو جی چاہتا ہے۔

Table of Contents

Myth_no_1

پہلی غلط فہمی ہمیں یہ تھی کہ یہ جو قومیں ترقی یافتہ ہوتی ہیں یہ بہت صفائی پسند ہوتی ہیں، مسئلہ ان کا یہ ہے کہ انہیں کوڑا اٹھانے کہ پیسے دینے پڑتے ہیں اور کوڑا الگ الگ کر کے رکھنا پڑتا ہے اور چونکہ ماری طرح اوپن جگہیں دستیاب نہیں ہوتیں اس لئے مجبوری میں صاف رہتی ہیں۔ اب یہ صفائی ستھرائی والی سمجھ دار قومیں کھانس رہی ہیں ، چھینک رہی ہیں ،پارٹیز کر رہی ہیں۔ لاپرواہی کر رہی ہیں اور وائرس پھیلا رہی ہیں۔

Myth_no_2

یہ غلط فہمی بھی تھی کہ درد دل سے یہ قومیں مری جارہی ہیں، ہر شخص حاتم طائی ہے اور ہر رات گلیوں میں گشت ہوا کرتے ہیں جو غربا کے گھر سامان پہنچا رہے ہوتے ہیں، غریب کوئی نہیں۔ اب ان لوگوں نے جو پینک بائنگ کر کر کے گھر بھر لئے، اور یہ جو اپنے ہمسائے ماں جائے ہیں، پیارے آنکھ کے تارے ہیں، انہوں نے محض اس بیماری کی خبریں دبانے کے لئے جو جو کیا، اللہ نہ دکھائے(ان کے بارے میں زیادہ نہیں بولنا۔۔۔)

Myth_no_3

ان کا ہیلتھ سسٹم، الامان کبھی آپ کو کسی فارن پلٹ سے ملنے کا اتفاق ہوا ہو تو آپ اس بات سے لازمی اتفاق کریں گے کہ قصیدہ گوئی میں سب سے زیادہ تعریف ان کے ہیلتھ سسٹم کی ہوتی ہے کیا تمہارے ہاں یہ قصائی ڈاکٹر بغیر پوری بات سنے دوائیوں کے تھیلے بھر بھر تھام دیتے ہیں، ہمارے وہاں تو معمولی سر درد کے ہزاروں ٹیسٹ۔ جب تک مکمل تشخیص نہ ہو جائے دوا نہیں ۔دوا انتہائی معمولی اور صحت یقینی۔

چائنہ پلٹ کی باتیں سن کر تو لگتا تھا کہ گویا چین میں کوئی مرتا ہی نہیں ، زیادہ بوڑھے خود ہی زہر کھا لیتے ہوں گے۔ Myths تو اور بھی بہت سی تھیں جن کی قلعی کھل گئی لیکن حاصل وصول یہ ہے کہ اب یہ جو زندہ قومیں ہیں، جن کی حکومتیں انہیں بچانے ، انہیں سہولتیں دینے کے لئے جتن کاٹ رہی ہیں، یہ بھی وہی کام کر رہی ہیں جو ہم مردہ قومیں کیا کرتی تھیں، یعنی ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز،

ادھر ہماری مردہ قوم کا مسیحا کہتا ہے کہ کچھ نہیں کر سکتے ، سب بھوکوں مریں گے اور ہماری مردہ قوم کہتی ہے کہ لاک ڈاون کریں ، بھوکوں کو کھانا کھلانا ہمارے ذمہ، اس مردہ قوم کی حکومت کہتی ہے کہ ہیلتھ سسٹم بیٹھ جائے گا، اورقصائی ڈاکٹرز جواب دیتے ہیں کہ آپ ہسپتال پر غیر ضروری بوجھ نہ ڈالیں ہم وٹس ایپ پر 12 گھنٹے فری سروس مہیا کریں گے، اس مردہ قوم نے لاک ڈاون کا سنتے ہی گھر بھرنا نہیں شروع کئے ، بلکہ پہلے ان کا سوچنا شروع کر دیا ہے جن کے چولہے لاک ڈاون میں بجھ گئے۔

!تو صاحبو یہ قومیں کوئی زندہ وندہ نہیں تھیں اگر کوئی زندہ قوم ہے تو وہ ہم ہی ہیں، آئیں اور اس مشکل گھڑی میں ثابت کریں کہ السابقون السابقون نہ سہی، ہم اصحاب الیمین ہیں ، جو ثلت من الاولین اور ثلت من الآخرین ہیں۔