عموما کہا جاتا ہے کہ عورت غلطی کرے تو مرد طلاق یا سوتن کا طعنہ دے دے کر جینا حرام کردیتا ہے …….. وغیرہ وغیرہ اور اگر مرد غلطی کرتا ہے تو عورت برداشت کرتی ہے…… آئیے ہم اس سوچ کا تجزیہ کرتے ہیں، اس بات کو سمجھنے کے کئی پہلو ہیں:

پہلا پہلو : زمینی حقائق اور سماجی ڈھانچہ چونکہ یہ ایک سماجی مسئلہ ہے، اسی لیے سماج کے زمینی حقائق کی روشنی میں اس مسئلے کو دیکھنے کی اشد ضرورت ہے. …….ہمارے سماج کے اسٹیک ہولڈرز تین ہیں یعنی ریاست ، خاندان اور مذہب اور ان تینوں میں سے خاندان لیڈ کرتا ہے، باقی دو کو بوقت ضرورت ساتھ میں لیتا ہے. …… ہمارے ہاں صدیوں سے پدرسری ہندوی مزاج غالب ہے، جسے نظر انداز کرنے کی بالکل گنجائش نہیں……. لہذا اس مسئلے کو خاندانی پس منظر یعنی Scenario اور Context سے کاٹ کر تجزیہ نہیں کرنا چاہیے……

دوسرا پہلو : شادی کی سماجی ترجیحات جیسا کہ اوپری سطروں میں طے ہو چکا کہ ہماری سماج خاندانی نقطہ نظر سے ایک پس منظر اور زمینی حقائق کی روشنی میں سیاق و سباق رکھتا ہے. عورت سے شادی کا بنیادی مقصد ہمارے ہاں نسل ارتقاء سرفہرست اور شوہر کی دیکھ ریکھ دوسرے درجے کی ترجیحات ہیں…. اسی لیے لڑکی سے عورت تک کا، پیدائش و تعلیم سے شادی تک کا سفر اسی پس منظر میں طے ہوتا ہے. خواہ لبرل، ایلیٹ فیملیز ہی کیوں نا ہوں، نوکری کرنے والی خواتین ہی کیوں نا ہوں، والدین کی مرضی سے یا کورٹ میرج کرنے والی عورت ہی کیوں نا ہو ، ان سب کے سامنے مرد کے شادی کے ترجیحی پہلو یعنی نسلی ارتقاء اور مرد کے گھر کی دیکھ ریکھ سامنے رہتے ہیں….

تیسرا پہلو : مرد کے سامنے شادی کے بعد اہم مقدمات موجودہ خاندانی نظام میں شادی کے بعد چار اہم پہلو سامنے ہوتے ہیں :

1۔ والدین کے ساتھ معاشی و سماجی روابط

2۔ خاندان کے افراد سے روابط

3۔ کاروباری یا نوکری میں روابط و مراسم

4۔ بیوی اور بچوں سے تعلق اور ذمہ داریاں

ان چاروں پہلوؤں کا حصہ بظاہر 1/4 ہے، ہر ایک یہی سمجھتا ہے کہ غالب وہی ہیں، ان کے علاوہ کوئی نہیں لیکن اس مرد کے لیے بیوی بچوں کے لیے شادی کے بعد 3/4 دوسرے حصے بھی ہیں. مرد ہمیشہ کوشش کرتا ہے کہ بہتر سے بہتر کی جانب چلے اور چاروں پہلوؤں میں توازن رکھے. …. عموما ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں، اس معاشرے میں یہ پہلے سے طے شدہ ہے کہ گھر کے داخلی سارے کام عورت نے سنبھالنے ہیں، اس صورت میں دونوں کی مشاورت ہو اور باقی تین حصوں میں اگر مشورہ نہیں کر سکتے تو کم از کم بیوی بچے جن کا حصہ 1/4 ہے، وہ اپنے آپ کو اپنے حقوق کے حصول تک محدود رکھیں اور وہ دیگر حصوں کے حقوق کے حصول میں روکاٹ بھی نا بنیں.

کمی ہمارے ہاں یہیں ہے، مشاورتی ماحول ہمارے ہاں ہے نہیں، تسلط کا ذہن دونوں یعنی میاں بیوی کے اور ان کے گھرانوں کے مابین کشمکش پیدا کرتا رہتا ہے تاکہ ہماری پیٹھ نا لگے، ایسی صورت میں دیگر پہلوؤں میں مرد کے لیے ناقابل برداشت ہو جاتا ہے کہ دیگر کے حقوق کے معاملے میں دخل اندازی ہو اوران سے ناانصافی نا ہو. ……. کرنے کے کام : عورت کو چاہیے(اب یہ سوال بنتا ہے کہ عورت ہی کیوں؟ تو اس کا جواب ہے کہ

1.والدین کے ساتھ معاشی و سماجی روابط

2. خاندان کے افراد سے روابط

3. کاروباری یا نوکری میں روابط و مراسم

یہ تینوں پہلو پہلے سے موجود ہیں اور سالہا سال سے ہیں، لہذا عورت نے باہر سے آکر ایڈجسٹمنٹ کرنی ہے. ) کہ وہ پہلے دو سال میں assess کرے کہ اس گھر میں تینوں دیگر حصوں کے حوالے سے فوقیت اور ترجیحات کیا ہیں. ان ترجیحات کو پورا کرنے کےضمن میں عورت بہترین کردار ادا کر کے یا ان میں بالکل دخل اندازی کیے بغیر دیرپا تسلط حاصل کر سکتی ہے. دیگر تین پہلوؤں میں اگر دسترس نا ہونے کے باوجود بیوی اور اس کی فیملی انٹرفئیر کرتے ہیں یہاں تک کہ انتہائی ضروری فیصلوں اور ترجیحات و اہم مقاصد کو بھی تہ و تیغ کرتے ہیں، ایسی صورت میں مرد کے جب Back Steps ہوتے ہیں تو ایسی صورت میں ذہنی خلفشار پیدا ہوتا ہے، خلفشارکی وجہ سے اس کی اڑان جو کہ سراسر گھر والوں کے لیے تھی کو سبوتاژ کر دیا جاتا ہے، مستقبل کو تباہ کرنے کی موجودہ غیر ضروری دخل اندازی سے بنیادیں رکھی جاتی ہیں…… یہیں سے جب clash of mind آتا ہے تو پرابلم بڑھتی ہے……ایسی صورت میں میں بھی یہی کہتا ہوں کہ یہ بات درست ہے کہ مرد اس وقت کہتا ہے کہ طلاق دونگا یا سوتن لاؤں گا…….. اس کی ذمہ دار عورت ہوتی ہے………

Tayyab Usmani

Phd: Islamic Theology (Pakistan) Post Graduate: Islamic Theology & Scientific Literacy (USA) Fazil Dars e Nizami Lecturer Islamic Studies : Govt Murray College Sialkot