میں شروعات میں آپ سے ایک سوال کرنا چاہتا ہوں: آخر غریب اتنے احمقانہ فیصلے کیوں کرتے ہیں؟ یہ یقیناً ایک تلخ سوال ہے لیکن اگر آپ ڈیٹا کو دیکھیں تو شاید آپ کو زیادہ حیرت نہ ہو۔ غریب لوگ قرضے زیادہ لیتے ہیں اور بچت کم کرتے ہیں، زیادہ سگریٹ نوشی کرتے ہیں اور ورزش وغیرہ کی طرف کم توجہ ہوتی ہے، شراب پیتےہیں اور صحت کے لئے نقصان دہ غزائیں کھاتے ہیں۔ آخر کیوں؟

برطانیہ کی سابقہ وزیر اعظم مارگریٹ تھیچر نے سادہ سے الفاظ میں اس کی عام فہم وجہ یوں بیان کی کہ غربت اصل میں “شخصیت کا ایک نقص” یا پرسنیلٹی ڈیفیکٹ ہے۔ یعنی ایک طرح سے اقدار یا کردار کی کمی۔ مجھے امید ہے کہ آپ فیصلہ کرنے میں اتنی جلد بازی اور بے حسی کا مظاہرہ نہیں کریں گے۔ لیکن یہ تصور کہ غربت اصل میں لوگوں کی اپنے اندر کی کسی خرابی کی وجہ سے ہے، صرف مارگریٹ تھیچر تک محدود نہیں۔ بہت سے لوگوں کا یہ خیال ہو گا کہ غریبوں کے حالات ان کی غلطیوں کی غمازی کرتے ہیں۔ اور بعض لوگوں کا یہ خیال ہوگا کہ ہمیں صحیح فیصلے کرنے میں ان کی مدد کرنی چاہیئے۔ لیکن ان دونوں خیالات کے پیچھے مفروضہ اور طرز فکر ایک ہی ہوتا ہے: “ان غریبوں کی سمجھ بوجھ میں کہیں کوئی خرابی ہے۔ اگر کسی طرح ہم ان کو بدل سکیں، ان کو بہتر زندگی گزارنے کے اصول سکھا سکیں، اگر وہ صرف ہماری بات ہی دھیان سے سن لیں تو سب مسئلے حل ہو جائیں”۔ اور سچ پوچھیں تو میں بھی لمبے عرصے تک ایسا ہی سوچتا تھا۔ لیکن چند سال پہلے مجھے معلوم ہوا کہ غربت کے بارے میں جو کچھ میں جانتا تھا وہ دراصل غلط تھا۔

میری سوچ تب تبدیل ہوئی جب میں نے اتفاقیہ طور پر ایک امریکی ماہر نفسیات کی ریسرچ پڑھی۔ اس نے آٹھ ہزار میل دور بھارت میں ایک حیران کن تحقیق کی۔ اس کی ریسرچ گنے کے کاشتکاروں پر تھی۔ یہ کاشت کار اپنی سال بھر کی کمائی کا ساٹھ فیصد حصہ فصل کی کٹائی کے وقت معاوضہ کی صورت میں وصول کر لیتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ کہ سال کا کچھ حصہ وہ غربت ہو کر گزارتے ہیں اور باقی حصہ کسی حد تک امیر۔ محققین نے فصل کی کٹائی سے تھوڑا پہلے اور بعد میں ان کی ذہانت کا ٹیسٹ کیا۔ نتائج انتہائی حیران کن تھے۔ دیکھا یہ گیا کہ فصل کی کٹائی سے پہلے ان کی ذہانت (آئی کیو) بعد والی سطح سے چودہ درجے کم تھی۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ ذہانت میں اتنی کمی تب آتی ہے جب کسی کو ساری رات سونے نہ دیا جائے یا وہ شراب کے نشہ میں ہو۔

کچھ ماہ بعد میں نے سنا کہ پرنسٹن یونیورسٹی کے ایک پروفیسر ایلڈر شفیر، جنہوں نے اس تحقیق میں حصہ لیا تھا، ہالینڈ آ رہے ہیں۔ لہٰذا ہم نے ایمسٹرڈیم میں ان کے اس انقلابی کام کے بارے میں بات کرنے کے لئے ملاقات کی۔ اور اس ملاقات کا خلاصہ صرف ان الفاظ میں کیا جا سکتا ہے: قلت زدہ ذہنیت۔ معلوم ہوتا ہے کہ جب لوگوں کو محسوس ہو کہ کوئی چیز قلیل مقدار میں ہے تو ان کے سوچنے کا انداز بدل جاتا ہے۔ اس سے فرق نہیں پڑتا کہ وہ کون سی چیز ہے – خواہ وقت کم ہو، پیسہ یا خوراک۔

ہم سب نے ہی محسوس کیا ہے کہ جب ہمیں بہت زیادہ کام ہو یا کسی وجہ سے دوپہر کے کھانے کا وقفہ نہ کریں اور خون میں شوگر کی مقدار کم ہو جائے تو کیسا لگتا ہے۔ ہماری تمام تر توجہ صرف ایک چیز پر مرکوز ہو جاتی ہے، کہ بس اب کھانا کھائے بغیر گزارہ نہیں، یا میٹنگ پانچ منٹ میں شروع ہونے والی ہے یا کل ہر حال میں بل جمع کروانا ہے۔ ایسی حالت میں طویل مدتی فیصلے کرنے کی صلاحیت بالکل ختم ہو جاتی ہے۔ اس کا موازنہ کسی ایسے نئے کمپیوٹر سے کریں جس پر اکٹھے دس پروگرام چل رہے ہوں۔ وہ سست سے سست ہوتا جاتا ہے اور اس میں خرابیاں آنے لگتی ہیں، یہاں تک کہ وہ بالکل رک جاتا ہے، اسلئے نہیں کہ وہ اچھا کمپیوٹر نہیں، بلکہ اس لئے کہ اس پر اکٹھا بہت سا بوجھ ڈال دیا گیا ہے۔ غریبوں کو بی ایسے ہی مسئلے کا سامنہ کرنا پڑتا ہے۔ وہ احمقانہ فیصلے کرتے ہیں، اسلئے نہیں کہ وہ احمق ہیں بلکہ اسلئے کہ وہ ایسے ماحول میں پھنسے ہیں جس میں کوئی بھی احمقانہ فیصلے کرے گا۔

اور اس سے ہمیں یہ سمجھنے میں بھی مدد ملتی ہے کہ زیادہ تر غربت کے خاتمے کے پروگرام ناکام کیوں ہو جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر غریبوں کی تعلیم پر کی گئی سرمانہ کاری اکثر بے سود ہوتی ہے۔ غربت علم کی کمی کا نام نہیں۔ ایک تازہ ترین سروے میں دو سو ایک ایسے تحقیق سرگرمیوں کا جائزہ لیا گیا جن میں غریبوں کو پیسے کے مناسب استعمال کے حوالے سے تربیت دی گئی تھی۔ معلوم یہ ہوا کہ ان تربیتی پروگرامز کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ میری بات کا غلط مطلب نہ لیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں بنتا کہ غریب بالکل کچھ نہیں سیکھ سکتے – انہوں نے سیکھا ضرور۔ لیکن یہ سیکھنا کافی نہیں۔ اور جیسا کہ پروفیسر شفیر نے مجھے بتایا “یہ ایسے ہے کہ آپ کسی کو تیراکی سکھائیں اور پھر طوفان کے دوران اس کو سمندر میں دھکا دے دیں”۔

مجھے آج بھی وہ وقت یاد ہے جب میں وہاں متحیر بیٹھا تھا اور اچانک مجھے خیال آیا کہ یہ باتیں تو ہمیں دہائیوں پہلے سمجھ آ جانی چاہیئیں تھیں۔ یعنی ماہرین نفسیات کو اس معمہ کو سلجھانے کے لئے دماغ سکین کرنے والے آلات کی تو ضرورت نہیں تھی۔ انہوں نے صرف کسانوں کا ذہانت کا ٹیسٹ کرنا تھا۔ اور یہ ٹیسٹ تو ایک سو سال پہلے سے دستیاب ہیں۔ اصل میں مجھے یاد آیا کہ میں پہلے بھی غربت کی نفسیات کے بارے میں پڑھ چکا ہوں۔ جارج آرویل نے، جو شاید وقت کا سب سے بڑا مصنف تھا، اپنی زندگی میں انیس سو بیس کی دہائی میں شدید غربت دیکھی۔ اس نے تب لکھا تھا “غربت کا خمیر مستقبل کو فنا کر دیتا ہے”۔ اور وہ بھی حیران تھا کہ “لوگ کیسے بلا سوچے یہ سمجھ لیتے ہیں کہ جیسے ہی آپ کی آمدن ایک خاص حد سے کم ہو تو آپ کو نصیحتیں کرنا اور آپ کے لئے دعا کرنا ان پر فرض ہو گیا ہے”۔

آج بھی یہ الفاظ اپنی حقانیت کے ساتھ گونج رہے ہیں۔ اصل سوال بہر حال یہ ہے کہ: ہم کیا کر سکتے ہیں؟ جدید ماہرین معاشیات کے پاس اس کے کچھ ممکنہ جواب ہیں۔ کیوں نہ غریبوں کو لکھت پڑھت میں مدد کر دی جائے یا ان کو ایس ایم ایس کر کے یاد کروا دیا جائے کہ وقت پر بل جمع کروانا ضروری ہے۔ موجودہ سیاست دانوں کے یہاں ایسے حل انتہائی مشہور ہیں کیونکہ ان پر خرچہ کوئی خاص نہیں آتا۔ یہ حل آج کے دور کی عکاسی کرتے ہیں جس میں ہم عام طور پر علامات کا تو علاج کرتے ہیں، پر اصل بیماری کا نہیں۔

تو میرا سوال یہ ہے کہ کیوں نہ وہ حالات ہی بدل دیے جائیں جن میں غریب زندگی گزار رہے ہیں؟ یا اپنی کمپیوٹر والی مثال کی طرف واپس آتے ہوئے: سافٹ ویئر میں چھیڑ خانی کے بجائے کیوں نہ مزید ریم انسٹال کر کے مسئلہ حل کر لیا جائے؟ اس سوال پر پروفیسر شفیر نے خالی نظروں سے مجھے دیکھا۔ چند لمحوں بعد وہ بولے “اوہ اچھا، آپ کا مطلب ہے کہ آپ غربت مکانے کے لئے غریبوں کو زیادہ پیسے دینا چاہتے ہیں۔ ہاں ضرور، کیوں نہیں۔ لیکن افسوس کہ بائیں بازو کی یہ والی سیاست امریکہ میں نہیں ہوتی”۔

لیکن کیا یہ واقعی بائیں بازو کا کوئی قدیم سیاسی نعرہ ہے؟ مجھے ایک پرانا منصوبہ یاد ہے جو تاریخ کے کچھ بہترین دماغوں نے پیش کیا تھا۔ پانچ سو سال پہلے فلسفی تھامس مور نے اپنی کتاب “یوٹوپیا” میں اس کا ذکر کیا تھا۔ اور اس کے ماننے والے بائیں بازو سے لے کر دائیں بازو کی ہر سطح پر موجود رہے ہیں۔ خواہ وہ شہری حقوق کی مہم چلانے والے مارٹن لوتھر کنگ ہوں یا ماہر معاشیات ملٹن فرائیڈمین۔ اور یہ ایک انتہائی سادہ سا تصور ہے: بنیادی آمدن کی ضمانت۔

اس کا مطلب کیا ہے؟ سادہ الفاظ میں یہ ایک ماہانہ وظیفہ ہے جو بنیادی ضروریات جیسے خوراک، رہائش اور تعلیم کے کو پورا کر سکے۔ اس کے ساتھ کوئی شرائط نتھی نہیں۔ لہٰذا کوئی آپ کو یہ نہیں کہے گا کہ یہ پیسے حاصل کرنے کے لئے کیا کام کرنا پڑے گا اور نہ کوئی آپ پر یہ پابندی لگائے گا کہ آپ ان پیسوں کو کیسے خرچ کریں گے۔ یہ بنیادی آمدن کوئی بھیک نہیں بلکہ ایک حق ہے۔ اس میں کوئی عار بھی ساتھ نہیں جڑی۔ تو جب میں نے غربت کی اصل نوعیت سمجھ لی تو مجھ سے رہا نہیں گیا۔ کیا یہی وہ حل ہے جس کا سب کو انتظار تھا؟ کیا اتنے بڑے مسئلے حل واقعی اتنا سادہ ہو سکتا ہے؟ تو اگلے تین سال مجھے بنیادی آمدن کے بارے میں جو کچھ ملا میں نے پڑھ ڈالا۔ میں نے ان درجنوں تجربات کے بارے میں پڑھا جو پوری دنیا میں ہوئے ہیں اور جلد ہی میں ایک قصبے کی کہانی تک پہنچا جہاں یہی کیا گیا تھا اور اس سے واقعی غربت ختم ہو گئی تھی۔ لیکن پھر سب اس بارے میں بھول بھی چکے تھے۔

یہ کہانی ڈافن، کینیڈا میں انیس سو چوہتر میں شروع ہوئی۔ اس سال اس قصبے میں ہر کسی اس شخص کو بنیادی آمدن کی ضمانت دی گئی جو غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہا تھا۔ تجربے کی شروعات سے پہلے محققین کی ایک فوج نے اس قصبے پر دھاوا بول دیا۔ چار سال تک سب کچھ ٹھیک چلتا رہا۔ لیکن پھر ایک نئی حکومت الیکشن جیت کر آ گئی۔ اس نئی کیبنٹ کو اس مہنگے تجربے کا کوئی فائدہ سمجھ نہیں آیا۔ لہٰذا جب حکومت کی طرف سے محقیقین کو دی جانے والی گرانٹ ختم ہو گئی تو وہ سب بھی نتائج کا تجزیہ کیے بغیر واپس لوٹ گئے۔ انہوں نے اپنی فائلیں دو ہزار کے قریب ڈبوں میں بند کر کے سنبھال دیں۔ پچیس سال گزرنے کے بعد ایک کینیڈین پروفیسر ایولین فارگیٹ کے ہاتھ یہ ریکارڈ لگ گیا۔ تین سال تک اس نے اس ڈیٹا کو ہر طرح کے شماریاتی تجزیہ سے گزارا۔ ہر طرح سے نتیجہ ایک جیسا ہی رہا: یہ تجربہ بے تحاشہ کامیاب رہا تھا۔

ایولین فارگیٹ کو معلوم ہوا کہ ڈافن کے لوگ نہ صرف پہلے سے زیادہ امیر ہو چکے تھے بلکہ زیادہ سمجھ دار اور صحت مند بھی تھے۔ طلبا کی اسکول میں کارکردگی بہت بہتر ہو چکی تھی۔ ہسپتالوں میں بیماروں کا داخلہ ساڑھے آٹھ فیصد کم ہو چکا تھا۔ گھریلو تشدد کے واقعات بھی کم ہو گئے اور نفسیاتی مسائل بھی۔ لوگ نوکریوں سے جان نہیں چھڑا رہے تھے۔ صرف وہ لوگ کچھ کم کام کر رہے تھے جو یا تو طالبعلم تھے (اور زیادہ دیر سکول میں وقت گزارتے تھے) یا جن ماؤں نے بچوں کو جنم دیا تھا۔ ایسے ہی نتائج اس کے بعد بھی امریکہ سے بھارت تک ساری دنیا کے بہت سے ملکوں میں دیکھے جا چکے ہیں۔

اس سب سے میں نے جو سیکھا وہ یہ ہے کہ جب معاملہ غربت کا ہو تو امیر لوگوں کو یہ نہیں سمجھنا چاہیئے کہ وہ سب جانتے ہیں۔ ہمیں ایسے غریبوں کو جوتے اور کھلونوں کی بھیک دینا بند کر دینا چاہیئے جن سے ہم کبھی ملے بھی نہیں۔ اور ہمیں غربت ختم کرنے کے محکموں کے تمام بیوروکریٹس کو نکال دینا چاہیئے اور ان کو دی جانے والی تنخواہ غریبوں میں بانٹ دینی چاہیئے۔

کیونکہ سرمائے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس سے وہ لوگ وہ چیزیں خرید سکتے ہیں جو ان کو واقعی چاہیئیں، بجائے اس کے کہ ان کو وہ چیزیں دی جائیں جن کو خود ساختہ ماہرین ضروری سمجھتے ہیں۔ ایک لمحے کو اندازہ کریں کہ کتنے بہترین سائنسدان، بزنس مین اور جارج آرویل جیسے لکھاری غربت کی وجہ سے عین اس لمحے مرجھاتے جا رہے ہیں۔ سوچیں کہ اگر ہم غربت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں تو دنیا میں کتنی جدت، توانائی اور ٹیلنٹ کا اضافہ ہو جائے گا۔ مجھے یقین ہے کہ بنیادی آمدن انسانوں کے لئے کاروبار میں لگائے گئے سرمائے کی طرح کام کرے گی۔ اور اس پر عمل نہ کرنے کا خرچ بہت زیادہ ہو گا کیونکہ غربت بہت مہنگی پڑتی ہے۔ مثال کے طور پر امریکہ میں بچوں کی غربت کے اعداد و شمار دیکھیں۔ ایک اندازے کے مطابق غریب لوگوں پر صحت، سکولوں چھوڑ دینے اور جرائم کی وجہ سے ہر سال پانچ سو ارب ڈالر ضائع ہوتے ہیں۔ یہ انسانی صلاحیتوں کا بے تحاشہ ضیاع ہے۔

آئیں اب اس ناقابل تردید حقیقت کا بھی سامنا کریں کہ ہم سب کے لئے بنیادی آمدن کی ضمانت کا خرچ کہاں سے پورا کریں گے۔ اگر آپ توجہ دیں تو یہ آپ کی سوچ سے کہیں کم خرچ ہو گا۔ ڈافن میں انہوں نے منفی انکم ٹیکس کے ذریعے اس پر قابو پایا تھا۔ یعنی جیسے ہی آپ کی آمدن ایک خاص حد (غربت کی لکیر) سے کم ہو تو صرف اس کمی کو پورا کر دیا جائے۔ تو اس طرح، ہمارے ماہرینِ معاشیات کے مستند ترین اندازے کے مطابق، صرف ایک سو پچھتر ارب ڈالر – امریکی فوج کے خرچ کا ایک چوتھائی، اور جی ڈی پی کا ایک فیصد – سے غربت کی لکیر سے نیچے رہنے والے تمام امریکیوں کو اوپر لا سکتے ہیں۔ یعنی غربت واقعی ختم ہو سکتی ہے۔ یہ ہمارا اصل نصب العین ہونا چاہیئے۔

میرے خیال میں چھوٹے چھوٹے کام کرنے کا وقت گزر چکا ہے۔ یہ انقلابی نئی اقدامات کا وقت ہے۔ بنیادی آمدن صرف ایک نئی پالیسی نہیں۔ یہ نظام کو ایک مختلف زاویے سے دیکھنے کا ایک طریقہ ہے۔ یہ صرف غریبوں کے لئے ہی نہیں بلکہ ہم سب کے لیے فائدہ مند ہو گا۔

آج کل لاکھوں لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی نوکریاں بے مقصد یا بے معنی ہیں۔ ایک سو بیالیس ممالک میں دو لاکھ تیس ہزار ملازمین کے ایک سروے میں معلوم ہوا کہ صرف تیرہ فیصد لوگ اپنے کام کو پسند کرتے ہیں۔ ایک اور سروے کے مطابق برطانیہ میں سینتیس فیصد ملازمین کا خیال ہے کہ ان کی جاب کا سرے سے وجود ہی غیر ضروری ہے۔ یہ ایسے ہے جیسے پریڈ پٹ “فائٹ کلب” میں کہتا ہے “اکثر ہی ایسا ہوتا ہے کہ ہم وہ نوکریاں مجبورا کرتے ہیں جن سے ہمیں نفرت ہے تاکہ ہم وہ فضولیات خرید سکیں جن کی ہمیں ضرورت نہیں”۔

میری بات کا غلط مطلب نہ لیں۔ میں اساتذہ، کوڑا اٹھانے والوں، اور دیکھ بھال کرنے والوں کی بات نہیں کر رہا۔ اگر وہ کام کرنا بند کر دیں تو ہم بڑی مشکل میں پھنس جائیں گے۔ میں تو ان بہترین تنخواہوں والے پروفیشنلز کی بات کر رہا ہوں جن کے سی وی شاندار ہوتے ہیں اور ان کی کمائی کا ذریعہ ۔۔۔ “ترتیبی کانٹ چھانٹ کے ذریعے اجلاس کے دوران باہمی گفت و شنید سے مغز آرائی کر کے نیٹ ورک سوسائٹی میں تخریبی اقدامات کے ذریعے سود و زیاں کے تخمین و ظن کا تعین کرنا” ہے۔ (ہنسئے)

ایک دفعہ پھر سوچیں کہ ہم کتنا ٹیلنٹ ضائع کر رہے ہیں، صرف اس لئے کہ ہم اپنے بچوں کو یہ سکھاتے ہیں کہ ان کو “زندہ رہنے کے لئے کمانا مجبوری ہے”۔ یا یہ سوچیں کہ جیسا کہ فیس بک میں کام کرنے والے ایک ریاضیاتی جینئس نے کچھ سال پہلے کہا تھا: “میری نسل کے بہترین دماغ اس سوال پر مغز کھپائی کر رہے ہیں کہ لوگوں سے زیادہ سے زیادہ اشتہاروں پر کیسے کلک کروایا جائے”۔

میں ایک تاریخ دان ہوں۔ اور اگر تاریخ ہمیں کچھ سکھاتی ہے تو وہ یہ کہ حالات بدل بھی سکتے تھے۔ ہمارے معاشرے کی بنیاد جن ستونوں پر استوار ہے ان میں سے کوئی بھی ناقابل تبدیل نہیں۔ نئے خیالات دنیا کو بدل سکتے بھی ہیں اور بدل رہے بھی ہیں۔ اور میرے خیال میں پچھلے کچھ سالوں میں یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ ہم “طرزِ کہن” پر ہمیشہ ڈٹے نہیں رہ سکتے – جدت ہماری مجبوری ہے۔

مجھے معلوم ہے کہ بہت سے لوگ بڑھتے تفرقہ و تفاوت، نفرتوں اور ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے مستقبل کے حوالے سے تشویش کا شکار ہیں۔ لیکن صرف یہ سمجھ لینا کہ ہم دل میں اس سب کے خلاف ہیں، کافی نہیں۔ ہمیں اس بارے میں کچھ کرنا بھی ہو گا۔ مارٹن لوتھر کنگ نے یہ نہیں کہتا تھا کہ “میرا ایک ڈراؤنا خواب ہے”۔ اس کا ایک خواب تھا۔ اور یہ میرا خواب ہے۔۔۔

میرا خواب ہے کہ ایک ایسی صبح آئے گی جب آپ کے کام کی اہمیت آپ کو ملنے والی تنخواہ کی رقم سے نہیں بلکہ اس بات سے جانچی جائے گی کہ آپ کتنی خوشیاں بکھیرتے ہیں اور کتنے بامقصد کام کرتے ہیں۔ ایک ایسی صبح آئے گی جب تعلیم کا مقصد بچوں کو ایک بے مقصد نوکری کے لئے تیار کرنا نہیں بلکہ ایک بھرپور زندگی گزارنے کے لئے تیار کرنا ہو گا۔ ایک ایسی صبح آئے گی جب غربت کے بغیر زندگی گزارنا قابلِ فخر نہیں بلکہ بنیادی حق سمجھا جائے گا۔ اور اس صبح کو لانے کے لئے ریسرچ، ثبوت اور وسائل، سب کچھ ہمارے پاس موجود ہیں۔

پانچ سو سال پہلے تھامس مور نے بنیادی آمدن کے بارے میں لکھا تھا اور سو سال پہلے جارج آرویل نے غربت کی اصل نوعیت دریافت کی تھی۔ آج ہم سب کو اپنا زاویہ نظر بدلنے کی ضرورت ہے۔ غربت کردار کی کمی کا نہیں، پیسے کی کمی کا نام ہے۔

Poverty isn't a lack of character; it's a lack of cash | Rutger Bregman

رتگر پرگمین ایک مشہور مورخ اور مصنف ہیں۔ انہوں نے تاریخ فلسفہ اور معاشیات پر چار کتابیں لکھی ہیں۔ ان کی کتاب “حقیقت پسندوں کا یوٹوپیا” بتیس زبانوں میں ترجمہ ہو چکی ہے۔ بتیس سال کی عمر میں وہ یورپ کے سب سے نمایاں نوجوان مفکرین میں جانے جاتے ہیں۔ ان کا یہ لیکچر یو ٹیوب اور TED کی ویب سائٹ پر چالیس لاکھ دفعہ دیکھا گیا اور تیس زبانوں میں ترجمہ کیا گیا۔

Muhammad Bilal

I am assistant professor of biology at Govt. KRS College, Lahore. I did my BS in Zoology from University of the Punjab, Lahore and M.Phil in Virology from National University of Sciences and Technology, Islamabad. I am Administrator at EasyLearningHome.com and CEO at TealTech