کرونا کی آمد سے پہلے کی بات ہے میری کزن نے اپنی بیٹی کا کالج میں داخلہ کرانا تھا۔ میں ان کے ساتھ کالج گئی، تھوڑا رش تھا تو ہم نے سوچا کہ ذرا کالج کا جائزہ لے آتے ہیں۔ ہم برآمدے میں گھومتے ایک کلاس کے سامنے کھڑے باتیں کرنے لگے۔ پریڈ کی بیل ہو چکی تھی اور طالبات اپنی استانی کے انتظار میں گپ شپ میں مصروف تھیں۔ اتنے میں ایک چھوٹے سے قد کی استانی کچھ کتابیں اٹھائے اس کلاس میں داخل ہو گئیں ۔ ٹیچر نے سٹوڈنٹس کو محبت بھرا سلام کہا اور حاضری لینے لگیں۔ میں نے نوٹ کیا کہ کئی لڑکیاں ٹیچر کو دیکھ کر ہنسی سے لوٹ پوٹ ہو رہی تھیں۔ کچھ کی نظروں میں مذاق تھا کچھ منہ پہ ہاتھ رکھے ہنس رہی تھیں اور کچھ باقاعدہ کچھ القابات دے رہی تھیں۔ کالج کی لڑکیوں کی طرف سے اس طرح کے رویہ پر میرا خون کھول رہا تھا لیکن میں نے دیکھا کہ وہ ٹیچر اطمینان سے حاضری لگانے کے بعد لیکچر کی طرف آ گئیں ان کا انداز تکلم مسحور کن تھا۔
کچھ لڑکیاں دھیرے دھیرے خاموش ہو کر توجہ سے سننے لگیں لیکن کچھ ابھی اسی طرح ہنسے چلے جا رہی تھیں۔ ہم دونوں اپنی باتیں بھول کر ان کی طرف دیکھے چلے جا رہے تھے۔ چہرے پہ مسکراہٹ سجائے وہ عمدگی سے لیکچر دے رہی تھیں۔ انہیں اپنے مضمون پہ دسترس تھی۔ وہ ان لڑکیوں کی طرف بھی مسکرا کر دیکھ رہی تھیں جو دھیمے دھیمے مسلسل ان کو القابات دے رہی تھی کھسر پھسر اور پھر کھسیانی ہنسی۔
ہم دونوں خاموشی سے ایڈمیشن روم چلے گئے کام ختم ہوا۔ واپس جانے لگے تو انہی ٹیچر پہ نگاہ پڑی وہ کوئی رجسٹر رکھنے آئی تھیں۔ میں ان کے پاس گئی سلام کیا اور کہا آپ ماشاء اللہ بہت اچھا پڑھاتی ہیں بڑی دسترس ہے آپ کو اپنے مضمون میں۔ خوبصورت مسکراہٹ کے ساتھ انہوں نے میرا شکریہ ادا کیا تو ہمت بندھ گئی تو میں نے کہا ایک سوال پوچھنا چاہتی ہوں وہ متانت سے بولی جی جی کہیے۔
“میں نے کہا “آپ پڑھا رہی تھیں تو کچھ سٹوڈنٹس آپ کا مسلسل مذاق اڑا رہی تھیں، ہنس رہی تھیں آپ کو معلوم ہے؟
وہ ہنس کے بولیں “جی معلوم ہے”۔
تو آپ نے انہیں ڈانٹا کیوں نہیں؟ آپ کو غصہ کیوں نا آیا۔ آپ کو چاہیے تھا تھپڑ ان کے منہ پہ مارتیں، کم از کم میں تو برداشت نا کروں۔
ان ٹیچر نے بڑا خوبصورت جواب دیا کہنے لگیں “گو کہ کالج پہنچنے تک ان کی تربیت ہو جانی چاہیے تھی لیکن ہو سکتا ہے انہیں ایسے اساتذہ ایسے والدین میسر نا آئے ہوں جو انہیں یہ بتا سکتے کہ کوئی انسان اگر خوبصورت ہے تو اس میں اس کا ذاتی کوئی کمال نہیں، نا ہی یہ اس کی ذات کی کوئی خوبی ہے اور اگر کوئی چھوٹے قد کا یا موٹا یا کالا یا معذور ہے تو اس میں اس کا ذاتی کوئی قصور نہیں یہ تو اللہ ہے جو جب چاہے کسی کا حسن چھین کے اسے پل بھر میں معذور کر کے اسے اسی صف میں لا کھڑا کرے جہاں وہ لوگوں کی اس بنیاد پہ تحقیر کرتا تھا یا سمجھتا تھا کہ حسن و خوبصورتی ہی محبت کا معیار ہے ۔ ابھی ان کے کالج کی شروعات ہے میں ہر دن 5 یا چار لیکچر دیتی ہوں سال کے شروع کے چار ماہ تک مجھے یہ اذیت روز ہر کلاس میں برداشت کرنا ہوتی ہے۔ لیکن مجھے یہ امید ہوتی ہے کہ میں ان کو اپنی محبت سے اور اپنے اس پیشے سے جو پیغمبروں کا پیشہ ہے ٹھیک کر لوں گی۔ ان کی تربیت کر لوں گی اور سال کے آخر تک انہی میں سے کچھ بچے یہاں سے جاتے ہوئے میرے ہاتھ تک چوم کے جاتے ہیں۔ ان کی آنکھوں میں آنسو ہوتے ہیں”۔
لیکن سب سے تکلیف دہ تو وہ دن ہوتا جب ٹیچرز پیرنٹ میٹنگ ہوتی والدین یہ ماننے کو تیار نہیں ہوتے کہ تربیت کرنا ان کا بھی کام بچے یہاں 5 گھنٹے کے لیے آتے ہیں جس میں سے آدھا گھنٹہ اسمبلی اور آدھا گھنٹہ بریک کا نکال دیں تو 4 گھنٹے بچتے ہیں۔ ہر ٹیچر 45 منٹ کا لیکچر دینے جاتی ہے۔ اس میں سے دس منٹ حاضری کے نکال دیں تو ٹوٹل 30 منٹ ہر ٹیچر کے حصے میں آتے ہیں۔ والدین کو احساس نہیں کہ بچی 18 گھنٹے گھر گزارتی تو تربیت پہ حرف اگر آئے تو ٹیچرز زمہ دار کیسے ہیں؟
پھر وہ تھوڑی دیر زمین پہ نظریں جھکائے جیسے کچھ سوچنے لگی اور بولی ایک بار ایک سٹوڈنٹ کے پاس سے موبائل نکل آیا اس میں کسی لڑکے کے ساتھ نازیبا گفتگو تھی موبائل ضبط کر لیا گیا والدین کو بلایا تو لڑکی کا بھائی کالج آیا اور دھمکیاں دینے لگا کہ کس ٹیچر نے میری بہن کو ذلیل کیا ہے دیکھنا میں اس کے ساتھ کیا کرتا ہوں ۔
حکومت کی طرف سے ہر دوسرے دن لمبا سا مسیج موصول ہوتا ہے کہ کسی سٹوڈنٹ کو ہاتھ نہیں لگانا ڈانٹنا نہیں ہے۔ ٹیچرز اپنی تنخواہوں، پرموشنز کے مسائل کے لیے سڑکوں پہ پولیس کے ڈنڈے کھاتے ہیں یہ خبریں سوشل میڈیا کی، ٹی وی کی زینت بنتی ہیں۔ سٹوڈنٹ ہر بات سے باخبر ہیں ہماری حیثیت تو ان کے سامنے دو کوڑی کی بھی نہیں۔
میں اگر ڈانٹ ڈپٹ کروں واویلا مچاؤں انتظامیہ کو بتاوں کہ یہ میرا مذاق اڑاتی ہیں۔ پرنسپل ان کو ڈانٹیں بے عزتی کریں، تو بچیاں مجھ سے اور نفرت کریں گی لیکن میری نرمی ‘ خاموشی ‘ برداشت محبت اور ان کے برے رویے کے بدلے اچھا رویہ ان کو ضرور بدل دے گا۔ اور ایک بات کہوں ان کا برا رویہ یا معاشرے میں اور بہت سے لوگوں کا برا رویہ دل پہ گہری ضربیں ضرور لگاتا ہے لیکن اقبال فرما گئے نا
تو بچا بچا کے نا رکھ اسے تیرا آئینہ ہے وہ آئینہ
کہ شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہ آئینہ ساز میں
ان کی آنکھیں نم تھیں لیکن وہ مسکرا رہی تھی ۔
میں نے بے اختیار جھک کے ان کے ہاتھ چوم لیے اور کہا آج سے آپ میری استاد ہیں جو بات آج تک مجھے کسی نے نا سمجھائی تھی آپ نے سمجھا دی ہے۔ یہ سٹوڈنٹس کتنے خوش نصیب ہیں کہ آپ جیسی استاد ان کو میسر ہے کاش یہ قدر کریں ۔
!سوچتی ہوں جو قوم اپنے محسنوں کی قدر نہیں کرتی وہ بھلا ترقی کیسے کر سکتی ہے.