معیشت کے برے حالات کی وجہ سے ہمارے ملک میں ہر قسم کی پیداوار پر اخراجات دیگر ممالک کی نسبت بہت زیادہ آتے ہیں۔ مثلا پلاسٹک کا سامان دیگر ممالک سے زیادہ سستا درآمد ہو جاتا ہے جبکہ اپنے ملک میں بنانا مشکل ہے۔ اسی طرح سبزیاں اور آلو بھارت سے سستے مل جاتے ہیں بنسبت اپنے ملک میں پیدا کرنے کے۔ اسلیے ہمارا کوئی بھی شعبہ درآمدی مال کا مقابلہ نہیں کر پاتا اور سرمائے کی کمی کا شکار رہتا ہے۔ اس سے آگے ریسرچ وغیرہ کرنا تو ویسے ہی ناممکن ہے کیونکہ بنیادی وسائل، مشینری اور پیشہ ورانہ مہارت دستیاب نہیں۔ ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے زراعت بھی متاثر ہو رہی ہے۔ اسلیے بہتر ہے کہ صنعت اور زراعت کے بجائے نوجوانوں کی تربیت کر کے ان کو پوسٹ انفارمیشن ایج کے لیے تیار کر لیا جائے۔ آئی ٹی سروسز بیچیں اور زر مبادلہ حاصل کریں جس سے آپ گندم سے لے کر مشینری تک، سب کچھ درآمد کر سکتے ہیں۔ اس سے جو پیسہ آئے گا وہ مختلف طرح کے بزنسز اور انڈسٹریز بنانے اورچلانے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یہاں یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ جب انڈسٹری کی بات کرتے ہیں تو اس سے مراد صرف فیکٹریاں نہیں ہوتیں۔ مثلا ڈھابے اور ریڑھی پر چائے اور بریانی بیچنے والا ہوٹل اینڈ ہاسپٹیلٹی انڈسٹری میں آتا ہے اور ایک ریڑھی والا یا اس کا بیٹا اگر دکان بنا لے تو یہ بھی تو انڈسٹری کی ترقی ہی ہے۔

یورپ نے تجارت کی آڑ میں جارحیت (بروٹ فورس) کے بل پر ساری دنیا سے وسائل اور پیسہ اکٹھا کیا۔ اس کی بنیاد پر وہاں لوٹ مار کے لیے ریسرچ اور ٹیکنالوجی کا کلچر تیار ہوا۔ قرون وسطی کے مسلمانوں کے زیر انتظام بغداد اور سپین کی ترقی کے پیچھے بھی تو دولت کی فراوانی کا ہی کمال تھا۔ البتہ آج کل ہماری حالت اور دنیا کے عمومی حالات یہ ہیں کہ جارحیت سے علاقے فتح کرنا قریب قریب ناممکن ہے (روس اور امریکہ نہیں کر پائے تو اور کس نے کرنا ہے)۔ اسلیے بہتر ہے کہ جس طریقے سے پیسہ آ سکتا ہے اس کو اپنائیں اور پھر اس کی بنیاد پر سائنس اور ٹیکنالوجی میں آگے آنے کی کوشش کریں۔

میرے ساتھ کام کرنے والے لڑکوں نے اس مہینے تقریبا تین چار لاکھ کا آئی ٹی سروسز کا کاروبار کیا ہے جبکہ میں نے اٹھارہویں گریڈ کی سرکاری نوکری میں لاکھ روپے کے حیاتیات کے رٹے لگوائے ہیں۔ میں خود بھی آن لائن کام کرتا ہوں اور اس سے حاصل کردہ آمدن سے میرا حتمی ٹارگٹ یہ ہے کہ اپنی بائیوٹیکنالوجی (دوا سازی) کی کمپنی کھڑی کی جائے یا کم سے کم کسی یونیورسٹی کو (موجودہ ریٹ کے مطابق) پچیس تیس لاکھ کی گرانٹ دی جائے اور ایک ایسی بیماری کی دوا تیار کی جائے جس کی وجہ سے ہمارے یہاں آج بھی بچے معذور ہو رہے ہیں۔ باقی دنیا یہ دوا تیس چالیس سال پہلے تیار کر چکی ہے۔ یہاں تک کہ ہمسایہ ملک ایران، جو بہت حد تک عالمی سطح پر تنہائی کا سامنا کرتا ہے، بھی اپنے بل بوتے پر بنا چکا ہے لیکن ہم آج بھی مغربی ممالک کی بھیک کا انتظار کررہے ہیں جبکہ ہمارے بچے تکلیف سے چینخیں مار رہے ہیں۔ میں دس پندرہ سال سے، جب سے تحقیق سے منسلک ہوا تو سوشل میڈیا کی وساطت سے ملک کی ہر یونیورسٹی میں ریسرچرز کو درخواست کی کہ یہ وقت کی ایک اہم ضرورت ہے لیکن ہر کوئی فنڈنگ نہ ہونے کی وجہ سے ہاتھ کھڑے کر دیتا ہے۔ اسلیے احساس ہوا کہ واحد راستہ یہی ہے کہ اپنی فنڈنگ آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے۔ مقصد یہی ہے کہ آنے والی نسلوں کو وہ تکلیفیں برداشت نہ کرنی پڑیں جو ہم نے کیں۔

آن لائن سروسز دے کر میرے وہ طلبا جن کو اساتذہ “نالائق” گردانتے تھے میری سرکاری نوکری سے کئی گنا زیادہ کما رہے ہیں۔ استاد رٹے لگانے، لگوانے اور طلبا کی زبانیں بند کروانے سے باہر آئیں تو ان کو سمجھ آئے کہ ان کے اردگرد دنیا کتنی بدل چکی ہے۔ دو تین سال میں جن لوگوں کو میں نے ٹریننگ دی ان میں سے تین نے اپنے اپنے بزنس شروع کر لیے ہیں اور دس دس لوگوں کو ملازم رکھا ہوا ہے۔ ہفتے میں چند گھنٹے کام کر کے ہزاروں ڈالر ماہانہ تنخواہوں والے بھی ہیں۔

اللہ کے فضل سے میں نے سٹوڈنٹس کے ساتھ مل کر دو کمپنیاں شروع کروائیں جو کچھ نہ کچھ منافع دے رہی ہیں۔ اب تیسری شروع کرنے کی کوشش ہے۔ میں تو بار بار یہ کہتا ہوں کہ بی ایس کروانے والے ادارے اس وقت گولڈ مائن پر بیٹھے ہیں۔ انٹر والے بچے اکیڈمی کی طرف بھاگتے ہیں، کالج کی طرف توجہ کم دیتے ہیں کیونکہ ہم نے ان کو ڈاکٹر اور انجینئر والی ٹرک کی بتی کے پیچھے لگایا ہوتا ہے۔ میرے پاس چونکہ صرف انٹر کلاسز ہوتی ہیں تو اس کا حل میں نے یہ کیا کہ جو بچے مجھ سے پڑھ کر بی ایس کرنے نکل جاتے ہیں ان کے ساتھ مغز کھپائی کرتا رہتا ہوں کہ شاید میرے ترنم سے کبوتر کے تنِ نازک میں شاہیں کا جگر پیدا ہو جائے۔ تعداد اور صلاحیتوں کی بنیاد پر نوجوان ہمارا سب سے بڑا سرمایہ ہیں۔ ملک میں افرادی قوت کے علاوہ ویسے ہی کچھ نہیں بچا۔ ان کو گائیڈ کریں تو ایک ایک بندہ آپ کو ماہانہ لاکھوں کما کر دے سکتا ہے۔ یہی لوگ جب پیزا، برگر، سنیما، انٹرٹینمنٹ پارکس اور دودھ اور ڈائپروں کی دکانوں پر پیسے خرچ کریں گے تو معیشت بہتر ہو گی۔ لیکن ہم اساتذہ نے اکیڈمیوں اور پریکٹیکل کاپیوں سے آگے نہیں سوچنا۔

یہاں یہ بھی وضاحت کرتا چلوں کہ طلبا کو نمبروں کی دوڑ چھوڑ کر عملی میدان میں جوہر فشانی کے خواب دکھا کر میں اپنے پیشے، حکومتی ہدایات اور قوانین کی خلاف ورزی نہیں کر رہا بلکہ یہ کام حکومتی ہدایات کی روح (لیٹر اینڈ سپرٹ) کے عین مطابق ہے۔ پنجاب کے تمام کالجوں کو حکم ہے کہ طلبا کے درمیان بزنس پلان کا مقابلہ کروائیں، کالج میں دفتر مہیا کریں اور کمپنی رجسٹر کرنے میں مدد فراہم کریں۔ یہ الگ بات ہے کہ میرے علم کے مطابق کسی کالج نے حکم پورا کرنے کی زحمت نہیں کی۔ جس دن میں نے اپنے کالج میں آرڈر دیکھا تھا میں تب سے اسی کام میں لگا ہوں۔ پرنسپل سے ان بن ہوئی تو مجبورا کالج کے بجائے الگ جگہ تنخواہ سے کرائے پر لے کر بچوں کو مفت میں انٹرپرینورشپ کا کام سکھانا شروع کیا اور اب اللہ کے فضل سے کئی لڑکوں کو بی ایس کی تعلیم جاری رکھنے کے لیے سکالرشپ بھی دیتا ہوں اور تربیت بھی کرتا ہوں۔

بقول علامہ اقبال ؎

وہ عِلم نہیں، زہر ہے احرار کے حق میں
جس علم کا حاصل ہے جہاں میں دو کفِ جوَ
ناداں! اَدب و فلسفہ کچھ چیز نہیں ہے
اسبابِ ہُنر کے لیے لازم ہے تگ و دَو

Muhammad Bilal

I am assistant professor of biology at Govt. KRS College, Lahore. I did my BS in Zoology from University of the Punjab, Lahore and M.Phil in Virology from National University of Sciences and Technology, Islamabad. I am Administrator at EasyLearningHome.com and CEO at TealTech