“ریاست علی! تمہیں پتہ ہے کہ ایک مہینے میں دو سے زیادہ چھٹیوں کی اجازت نہیں ہے۔ ابھی مہینہ آدھا بھی نہیں گزرا اور تم تیسری دفعہ چھٹی کی درخواست لے آئے ہو۔ ایسے کام کیسے چلے گا۔ میں تمہیں چھٹی نہیں دے سکتا۔ جا کر اپنا کام مکمل کرو۔”
ریاست علی کے دماغ پر الفاظ ہتھوڑے بن کر لگ رہے تھے۔ اس کو آنکھوں کے سامنے کچھ نظر نہیں آ رہا تھا۔ وہ تو صرف خلا میں گھور رہا تھا جیسے اپنے افسر کے بجائے خدا سے ہم کلام تھا۔
“سر میرے بیٹے کی طبیعت بہت خراب ہے۔ میں نے اسے ہسپتال لے کر جانا ہے۔ گھر میں کوئی دوسرا اس کو لے جانے والا نہیں ہے۔” اس کے دل نے ایک اور فریاد خدا کے سامنے رکھی۔
“ایسا کون سا مسئلہ ہے جس کے لیے تم روز چھٹی لینے آ جاتے ہو؟ ہمارے بچے بھی بیمار ہوتے ہیں۔ مجھے یا باقی لوگوں کو تم نے چھٹی کرتے دیکھا ہے؟ میں اس سے زیادہ کوئی بات سننا نہیں چاہتا۔ اگر واقعی تمہارا بیٹا بیمار ہے تو کل اسے یہاں لے کر آؤ۔ میں بھی دیکھوں ایسی کون سی قیامت آئی ہوئی ہے۔”
رفاقت پچھلی رات سے بستر پر پڑا چینخیں مار رہا تھا۔ گھر میں سات لوگ ہونے کے باوجود مکمل سناٹا طاری تھا جیسے کسی بات کا سوگ منایا جا رہا ہو اور صرف اس کے رونے، سسکنے اور چینخنے کی آوازیں تھیں۔ اسکی عمر شاید نو یا دس سال تھی۔ دوسرے بچوں کی طرح اس کا بھی کھیلنے کو دل کرتا تھا۔ گرچہ اب یہ تکلیف تقریبا ہر دس پندرہ دن کا معمول بن گئی تھی لیکن اس ننھے سے دماغ کو یہ بات سمجھ نہیں آتی تھی کہ تھوڑا سا کھیل لینے سے ڈاکٹر اور والدین ہر وقت کیوں منع کرتے رہتے ہیں۔ اس کی باتیں، حرکتیں، خواب، امیدیں، شوق، صلاحیتیں، کارکردگی سب کلاس اور محلے کے دوسرے لڑکوں کی طرح ہی تھیں۔ تو پھر کیوں بار بار اس کو یہ کہا جاتا تھا کہ وہ دوسروں کی طرح نہیں ہے؟ ہر تھوڑے دن بعد وہ گھر والوں سے نظر چرا کر محلے کے لڑکوں کے ساتھ کھیلنے نکل جاتا۔ کھیل میں اس کی کارکردگی بھی بہت اچھی نہیں ہوتی تھی۔ لیکن پھر شام ہوتے ہی اس کو معلوم پڑ جاتا کہ کچھ ٹھیک نہیں ہے۔ اس کے دماغ میں خطرے کی گھنٹیاں بجنے لگتیں۔ اس کو وقت سے پہلے معلوم ہو جاتا کہ اب بہت دیر ہو چکی ہے۔ وہ سہم کر گھر کے کسی الگ تھلگ کونے میں دبک جاتا اور سب سے نظریں چرانے لگتا۔ ڈاکٹر نے بتایا ہوا تھا کہ ایسی صورتحال ہو تو فوراَ جوڑ پر برف لگانی ہے۔ لیکن گھر میں فریج تو نہیں ہے۔ اگر امی یا باجی سے برف کا کہا تو ان کو پتہ لگ جائے گا کہ وہ کھیلنے گیا تھا اور پھر ڈانٹ پڑے گی۔ اسلیے وہ مضبوطی سے جوڑ پر پٹی باندھ کر سو جاتا۔
چند گھنٹوں کے اندر اندر اس کے گھٹنے میں اتنا خون بھر جاتا کہ گھٹنے کا سائز عام حالت سے تین گنا زیادہ ہو جاتا یہاں تک کہ خون کے پریشر سے کھال بالکل غبارے کی طرح پھول کر تن جاتی۔ آہستہ آہستہ خون ٹانگ کے نچلے حصے میں بھی جمع ہونے لگتا اور پھر ٹخنہ، پاؤں اور کولہے تک ساری ٹانگ خون سے بھر جاتی۔ حالت یہاں تک پہنچ جاتی کہ جسم میں خون کی کمی ہو جاتی اور اسے چکر آنے لگتے، دماغ گھاؤں گھاؤں کرنے لگتا اور درد کی شدت سے مزید سونا ممکن نہ رہتا۔ اب صبح تک کا ایک لامتناہی انتظار شروع ہو جاتا۔ اس کے درد کا تریاق جس ہسپتال میں ہے وہ صبح نو بجے کھلے گا۔ لیکن نو بجنے میں ابھی دس گیارہ گھنٹے باقی ہیں۔ تکلیف کی شدت سے چینخیں مار مار کر اس کا حلق شاید رات ایک بجے تک ہی خشک ہو جائے گا۔ ماں یا بہن دلاسا دینے قریب آ بھی جائے تو وہ ان پر غصہ ہو کر انہیں سو جانے کو کہتا۔ وہ دس سال کا بچہ یہ بات بخوبی سمجھتا تھا اب کوئی پیار بھرا ہاتھ کا لمس، کوئی درد میں ڈوبا آنسو، تسلی کا کوئی جملہ اور شاید مضطرب دل کی کوئی دعا بھی اس کا مسئلہ حل نہیں کر سکتی۔ ماں دعائیں پڑھ پڑھ کر اس پر پھونکیں مارتی تو اس کو اپنی تکلیف سے زیادہ اپنی بے بسی اور ماں کی معصومیت پر رونا آتا۔ صبح نو بجے کا وقت ایک ایک سیکنڈ اور دل کی ایک ایک دھڑکن گن کر گزارنا پڑتا کیونکہ ہر دھڑکن کے ساتھ پریشر کی شدت میں اضافہ ہوتا جاتا۔
رفاقت پیدائشی طور پر خون کی ایک بیماری ہیموفیلیا میں مبتلا تھا۔ ہمارے خون کی ایک حیران کن صلاحیت یہ ہے کہ اگر جسم میں کوئی چوٹ لگ جائے اور خون رگوں سے باہر نکل آئے تو کچھ ہی سیکنڈز میں جم جاتا ہے اور یوں ایک حد سے زیادہ خون ضائع نہیں ہوتا۔ اگر زخم کھلا نہیں ہے تو جسم پر ایک معمولی سا نیل پڑ جاتا ہے اور کچھ دن میں ٹھیک ہو جاتا ہے۔ لیکن رفاقت کے خون میں یہ صلاحیت نہیں تھی۔ اس کا خون رگوں میں بند رہنے کا قائل نہیں تھا۔ اس کے نتیجے میں جو کچھ رفاقت کو بھگتنا پڑتا تھا اس کو زیادہ تر لوگ سوچ بھی نہیں سکتے۔ عام چلنے پھرنے، معمولی سی ٹھوکر لگنے، کسی سے کہنی ٹکرا جانے یا کھیل کے دوران گیند لگ جانے، سکول میں استاد کے ڈنڈے کھانے، گلی میں کسی تیز رفتار موٹر سائیکل سے ٹکرا جانے، سیڑھیوں سے گر جانے، بیڈ یا میز کا کنارہ لگ جانے اور ایسی بہت سی معمولی چوٹوں سے، جو ہم سب ہی کی زندگی کا حصہ ہیں، خون کی چند نالیاں کھال کے نیچے ہی ٹوٹ جاتیں۔ عموما یہ ٹھوکریں اور ٹکریں اتنی معمولی ہوتیں کہ لگتے وقت ان کا احساس بھی نہ ہوتا۔ لیکن پھر ان نالیوں سے گھنٹوں خون رستے رہنے کی وجہ سے جسم کے اس حصے میں جسم کا زیادہ تر خون بھر جاتا اور پھر اس کو حرکت دینا بالکل ممکن نہ رہتا۔ بار بار ایک ہی حصے میں چوٹ لگنے اور بروقت طبی امداد نہ ملنے کی وجہ سے اگلی دفعہ اس حصے میں خرابی کے امکانات بڑھ جاتے اور پہلے سے زیادہ معمولی زخم پہلے سے زیادہ شدید تکلیف کا باعث بنتا یہاں تک کہ جسم کے جوڑ مکمل طور پر ناکارہ ہو جاتے۔
ریاست علی کو اس روز چھٹی نہیں ملی۔ رفاقت کی صبح نو بجے ہسپتال جانے کی امید ٹوٹ گئی۔ جب تک باپ گھر آیا اس وقت تک ہسپتال کا وقت بھی ختم ہو چکا تھا۔ یوں اس کی تکلیف میں مزید چوبیس گھنٹوں کا اضافہ ہو گیا اور وہ اگلے دن کے نو بجے تک کے سیکنڈ گننے لگا۔ اگلی صبح باپ نے بچے کو سائیکل پر بٹھایا اور ہسپتال کی طرف جانے کے بجائے رخ دفتر کی طرف کر لیا۔ بچہ حیران تھا کہ ہم الٹی طرف کیوں جا رہے ہیں۔ اس کو غصہ تھا کہ اس کی ایسی حالت میں بھی باپ کو دفتر کی فکر ہے اور وقت کی اہمیت کا بالکل احساس نہیں۔ لیکن باپ کے چہرے کی سنجیدگی دیکھ کر خاموشی سے درد برداشت کرنا مناسب سمجھا۔ سائیکل کے کیرئیر کے جنگلے سے ٹانگ لٹکانے کی وجہ سے ٹانگ میں پریشر مزید بڑھ رہا تھا لیکن اب وہ پہلے کی طرح چینخیں نہیں مار رہا تھا، صرف سسک رہا تھا۔ سائیکل پر لگنے والے ہر جھٹکے، ہر بریک، ٹریفک کے ہر اشارے پر وہ دل میں اپنی قسمت کو روتا اور خدا سے لاکھوں شکوے کرتا۔ دفتر پہنچ کر ریاست علی نے دس سالہ بیٹے کو گود میں اٹھایا اور اپنے افسر کے کمرے میں لے گیا۔ صورتحال کو بھانپ کر بیٹے کا دل بھی شاید باپ ہی کی طرح اندر سے مر گیا۔
باپ نے بیٹے کی ٹانگ سے کپڑا اٹھایا کہ دیکھو میرا بیٹا بہت تکلیف میں ہے۔ دونوں کو احساس ہو رہا تھا کہ جیسے ان کو برہنہ کر دیا گیا ہے۔
(جاری ہے)