آج اِس گھر میں وہ آخری بار آیا تھا, اس امید پر کہ شاید آج وہ اس کی طرف دیکھ لے گی, ایک لمحے کو ہی سہی, اور اس کی آنکھیں اسی ایک پل میں سب کچھ کہہ دیں گی, وہ سب کچھ جو وہ کب سے کہنا چاہ رہا تھا, مگر سازگار وقت نہ ملا. وہ اس سے بہت کچھ پوچھنا بھی چاہتا تھا اور اس کے سب سوالات کے لیے بھی فقط ایک نظر ہی کافی تھی , ایک لاتعلق سی اچٹتی سی نظر ہی سہی, جو ایک بار اس کی طرف اٹھ جاتی تو وہ جان لیتا کہ اس کے دل میں کیا ہے کیونکہ دلوں کے معاملات زبان اور الفاظ کے محتاج کہاں ہوتے ہیں.
وہ, بظاہر اس کو نظرانداز کرتی اپنے کاموں میں بری طرح مصروف تھی, اس افراتفری میں بھی اس نے کہیں سے ایک بڑی سی چادر نکال کر اوڑھ لی تھی, اپنے تئیں اس کی بےتاب نظر کی آنچ سے خود کو بچانے کے لیے اور مسلسل مصروف سے مصروف تر ہوتی جا رہی تھی. اس کی مصروفیت بجا تھی کہ یہاں آج ان سب کا بھی آخری دن تھا, شفٹنگ کے ہنگاموں میں سب سے زیادہ ذمہ داری بھی اسی کی تھی کہ برسوں کی جمع شدہ بےکار چیزوں کےڈھیر سے کام کی ہر چیز کو بڑی ذمہ داری اور سلیقے سے نکالنا,سنبھالنا اور نئے گھر جانے والے سامان تک منتقل کرنا. بھاری اور ضروری سامان پہلے ہی منتقل کیا جا چکا تھا اب بس اس کاٹھ کباڑ کی چھانٹی کرنا باقی تھا جو وہ بڑی مستعدی سے کر رہی تھی.
یہ اسد صاحب کا گھرانہ تھا, جو ان سمیت 5 افراد پر مشتمل تھا, اسد صاحب, ان کی اہلیہ دیبا بیگم اور تین بچے عمر, علی اور شیبا, تینوں میں ایک ایک سال کا فرق تھا شیبا منجھلی تھی, اور واحد بیٹی ہونے کی وجہ سے کم عمری سے ہی اپنے ناتواں کندھوں پر پڑھائی کے ساتھ ساتھ گھرداری اور مہمان داری کی ساری ذمہ داریاں اٹھائے ہوئے تھی. شیبا کو اچھی طرح علم تھا کہ بلال, اس کا تایازاد اس میں دلچسپی رکھتا ہے اور وہ خود بھی اس کی اتنی ہی متمنی تھی مگر نہ جانے کیوں, کس انجانے خوف کے زیرِاثر وہ اس کی موجودگی میں, اس کی نظروں کے حصار سے بچنے کی اس سے چھپنے کی ہر ممکنہ کوشش کرتی تھی. بلال اس سے عمر میں چھے سات سال بڑا تھا, اس سے زیادہ ہوشیار, سمجھدار اور جذباتی طور پہ اس سے زیادہ با اختیار بھی, مگر نہ جانے کیوں وہ سامنے ہوتی تو بلال بچوں کی سی حرکتیں کرنے لگتا, اس کی توجہ کی طلب میں, ہنستا, گاتا, اپنی بہنوں اور بھتیجے بھتیجیوں سے بلاوجہ چھیڑ خانی کرتا اور ایسا کرتا ہوا بلا کا معصوم لگتا, اس دوران بےدھیانی میں جب بھی شیبا کی نظر بلال کی طرف اٹھتی وہ اس کی طرف ہی دیکھ رہا ہوتا, نظروں کے ایک ثانیے کے ٹکراؤ میں ہی اس کی نظر چندھیا جاتی وہ فوراً نظر جھکا لیتی یوں لگتا جیسے اس نے جون کی دوپہر میں تپتے سورج کو دیکھ لیا ہو, حدت سے اس کا چہرہ تمتما اٹھتا اور کافی دیر تک پسینے کی ننھی بوندیں اس کے ماتھے پر چمکتی رہتیں. اس وقت بھی بظاہر بےخبر مگر وہ اس حدت کو محسوس کر رہی تھی جس سے بچنے کے لیے اس نے اماں کی ایک پرانی گھیردار چادر کا سہارا لیا تھا جو پرانے کپڑوں کے ڈھیر سے اس کے ہاتھ لگی تھی. یہ ایک مستطیل کمرہ تھا, جس کے ایک طرف بڑی کھڑکیوں کے ساتھ چھوٹا سا کونہ باورچی خانے کے لیے مختص تھا جو فی الحال خالی ہو چکا تھا, اماں وہیں بیٹھی چچی کے ساتھ باتوں میں مشغول تھیں, ادھر. دوسری طرف اسد صاحب اور چچا بیٹھک جمائے بیٹھے تھے بلال بھی آ کر اس میں شامل ہو گیا تھا, بلال کی آمد پر اسد صاحب نے چائے کی آواز لگائی, بلال کا شدت سے دل کیا کہ چائے شیبا خود بنائے, ‘جی اچھا ابو جی! بناتی ہوں’ جیسے شیبا نے بلال کے دل کی آواز سن لی, جبکہ بلال کی آمد کے بعد, کچھ دیر کو ہی سہی دراصل وہ خود یہاں سے ہٹ جانا چاہتی تھی, مگر ادھر سے چچی نے چائے کے لیے حامی بھری اور شیبا کو جلدی جلدی سب کچھ کرنے کی تلقین کرتی ہوئی نیچے چلی گئیں.
چچی کے جانے کے بعد بلال دیبا بیگم کے پاس آ کر بیٹھ گیا اور شیبا, جو قریب ہی پرانے سامان کو ٹٹولنے میں مصروف تھی, کو احساس ہوا کہ جون کی دوپہر کا سورج گویا سوا نیزے پر آ گیا. سامان میں کچھ دھاتی اشیاء تھیں, مٹھائیوں کے کچھ دھاتی ڈبے, بجلی کے تاروں کے الجھے ہوئے گچھے, متروک برتن, زنگ آلود مشینی پرزے, ٹوٹے پھوٹے کھلونے, اور کچھ ناکارہ دیواری گھڑیاں. اس نے بےترتیب سامان کو عجلت سے دیکھا اور اعلان کیا یہ سب بےکار سامان ہے اور وہاں سے اٹھ کھڑی ہوئی.
اس کا اعلان سنتے ہی بلال نے اس ڈھیر کی سمت دیکھا تو پل بھر کو اس کی نظر ایک ٹوٹی پھوٹی پرانی گھڑی پر ٹھہر گئی.
بڑی سی چادر میں لپٹی دور جاتی ہوئی شیبا, بلال کو ایک ہیولہ سا دکھائی دے رہی تھی جس کے خد و خال بالکل واضح نہیں تھے. بلال اسے جبکہ وہ دوسری طرف رکھے اخباروں اور رسائل کے ڈھیر کو دیکھ رہی تھی تب ہی چچی چائے بنا کر لے آئیں اور اسے بھی بادل نخواستہ چائے پینے کے لیے بیٹھنا پڑا, وہ اس طرح بیٹھی کہ بلال کی پشت اس کی طرف تھی. بلال چچی اور اماں سے محوِ گفتگو تھا جبکہ دوسری طرف ابا اور چچا تبادلۂ خیال کر رہے تھے, درمیان میں وہ مطمئن ہو کر سوچنے لگی کہ اب کیا کیا کرنا باقی رہ گیا ہے. تبھی چچی کی آواز اس کے کان میں پڑی, ‘اے ہے بچے! ہم جو ہیں اللہ رکھے, تم ادھر آنا, ایسے اداس کیوں ہوتے جا رہے ہو’ ساتھ ہی اماں نے بات سے بات ملائی, ‘ہاں تو نئے گھر میں آیا کرنا ناں, بڑے ہو گئے ہو, جوان بچوں کے لیے دور نزدیک کیا, جیسے یہاں آتے ہو وہاں بھی آیا کرنا’. اس اثناء میں شیبا اپنی چائے ختم کر چکی تھی, وہ کپ رکھ کر یہ کہتی ہوئی کمرے سے باہر نکلی, ‘اماں! میں نے چھت پر کچھ کارٹن رکھے تھے وہ دیکھنے جا رہی ہوں’ اور اماں کے جواب کا انتظار کیے بغیر چھت پہ چلی گئی. اوپر جا کر سب سے پہلے اس نے وہ چادر اتار کر ایک طرف رکھی, چھت پہ ڈھلتے سورج کی ٹھہری ٹھہری زرد روشنی پھیلی ہوئی تھی, وہاں عمر اور علی کچھ سامان باندھنے میں مصروف تھے, شیبا بھی ان کے ساتھ مل کر کام کرنے لگی. اتنے میں عمر کو اسد صاحب نے آواز دی کہ دیکھو باہر گاڑی والا آیا ہے, جو سامان باندھ چکے ہو وہ گاڑی میں رکھواؤ, یہ سن کر عمر جو کارٹن باندھ رہا تھا اسے شیبا کے حوالے کر کے دوسرا کارٹن اٹھا کر نیچے چلا گیا, علی نے بھی عمر کی تقلید کی. شیبا بڑے دھیان سے باقی ماندہ سامان کارٹن میں رکھنے لگی, شام بھی گہری ہو رہی تھی, جب سب سامان رکھا گیا تو اب مرحلہ کارٹن کو باندھنے کا تھا, جو وہ اکیلی نہیں کر سکتی تھی, اس نے ڈکٹ ٹیپ کا رول اٹھایا ہی تھا کہ اسے لگا عمر آ گیا, وہ بنا دیکھے ہی کہنے لگی, ‘ادھر آؤ, یہاں سے پکڑو اسے میں ٹیپ لگاتی ہوں’ اور یہ کہہ کر ٹیپ کھولنے لگی, اس کی بات سن کر کارٹن کو ایک ہاتھ نے مضبوطی سے پکڑ لیا, شیبا نے دیکھا, وہ عمر کا ہاتھ نہیں تھا, اس نے یکدم چہرے کی طرف دیکھا تو, گہری شام میں, سوا نیزے کا سورج ہاتھ بھر فاصلے تک آ چکا تھا, شیبا اپنی جگہ بت بنی رہ گئی, ایک لمحہ تو بلال بھی چپ سادھے اسے دیکھتا رہا, پھر کہنے لگا, ‘کیا ہوا, لگاؤ ٹیپ, میرا ہاتھ تھک رہا ہے اسے پکڑے’ یہ سن کر شیبا نے ٹیپ کھولی اور کارٹن پر لگانے لگی, بلال نے دھیمے اور سپاٹ لہجے میں پوچھا, ‘سب سامان چلا گیا یا کچھ رہ گیا؟’ ‘جی, بس سب چلا گیا, ہم رہ گئے تھے ہم بھی جا رہے ہیں بس تھوڑی دیر میں’ وہ بھی بنا تاثر, روانی اور سادگی سے کہتی گئی…وہ اتنا قریب تھے کہ ایک دوسرے کے سانس کا زیر و بم بھی محسوس کر رہے تھے مگر شیبا کو اچانک احساس ہوا کہ بلال کا سانس جیسے رک گیا ہو لیکن نظر اٹھا کر دیکھنے کی جرآت نہ کر سکی, ایک عمودی رخ اور ایک افقی رخ پر ٹیپ لگا کر وہ کہنے لگی, ‘بس رہنے دیں, اب میں کر لوں گی’ بلال نے نظرانداز کرتے ہوئے اپنا ہاتھ بدستور اسی مضبوطی سے دوسرے سرے پر رکھ دیا, شیبا بھی کوئی راستہ نہ پاکر, اسی طرح ٹیپ لگانے لگی, ٹیپ لگاتے ہوئے, اس کے ہاتھ کی پشت پر ننھا سا ایک قطرہ آ گرا, شیبا نے گھبرا کر اوپر دیکھا تو… سورج کو پگھلتے ہوئے پایا, بلال کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے ضبط کا کرب اس کے چہرے سے عیاں تھا, وہ گھبرا گئی, اور اٹھ کھڑی ہوئی, اسے لگا یہ پگھلتا سورج, اس کے وجود کو بھی موم کر دے گا۔ وہ بنا کچھ کہے تار پر پڑی چادر اتار کر خود پر لپیٹنے لگی. اتنے میں عمر اور علی واپس آئے ان کے آنے سے بلال فوراً سنبھل گیا, وہ دونوں ایک ایک کارٹن اور اٹھا کر جانے لگے, بڑا کارٹن بلال نے انہیں اٹھانے سے منع کر دیا کہ یہ میں لے کر آتا ہوں۔
ان کے جانے کے بعد بلال مضمحِل سے لہجے میں شیبا سے براہِ راست مخاطب ہوا, ‘بہت کچھ کہنا اور سننا چاہتا ہوں مگر فی الوقت فقط اتنا بتا دو, تم جانتی ہو ناں, میں کیوں اداس ہوں؟’ بلال کے مخاطب کرنے پر, شیبا کے ہیولے نے مڑ کر اس کی طرف دیکھا, شیبا کے چہرے کا تذبذب اور تمتاہٹ گہری شام میں بھی نمایاں تھی, جبکہ بلال کے چہرے پر شیبا کو اضطراب نظر آیا, جیسے سورج کی سطح پر تلاطم سے پہلے کی ہلچل, اس کے ہونٹوں سےحیا میں لپٹی ایک سرگوشی سی ادا ہوئی, ‘ہاں….!!!!’ جسے بلال کی سماعتوں نے قطرہ قطرہ چُن کر زہر کے تریاق کی مانند رگوں میں دوڑتے خون میں انڈیل دیا اور ایک ثانیے میں بلال کے مضطرب چہرے پر طمانیت کی لہر دوڑ گئی. وہ دونوں ہاتھ بھر کے فاصلے پر تھے, اس مختصر وقت میں شیبا نے وفورِ شوق سے بلال کے چہرے کے زیر و بم کا یوں جائزہ لیا جیسے ان خد و خال کو حفظ کر رہی ہو, اب بلال ایک قدم اور آگے بڑھا, شیبا گھبرا کر پیچھے ہٹنے لگی تو اس کی گھیردار چادر پاؤں میں پڑی کسی چیز سے الجھ گئی اور وہ بری طرح لڑکھڑا گئی, اس کا ہاتھ جو خود کو گرنے سے بچانے کے لیے کسی سہارے کی تلاش میں ہوا میں لہرا رہا تھا, اضطراری طور پر بلال کی طرف بڑھا اور بلال نے مضبوطی سے تھام کر اسے گرنے سے بچاتے ہوئے جھنجھلا کر کہا, ‘پاگل لڑکی! یہ چادر!!! میں تو یہ کارٹن اٹھانے آگے بڑھ رہا تھا, پیچھے ہٹو, چادر ہٹاؤ, مجھے اٹھانے دو…’ وہ سنبھل کر پیچھے ہٹ گئی.
اس سے پہلے کہ بلال کارٹن اٹھاتا شیبا نے اپنی چادر کی گرہ سے کچھ نکال کر بلال کو تھمایا, اور خود نیچے چلی گئی, اس کے جانے کے بعد بلال نے دیکھا, اس کے ہاتھ میں ایک چھوٹا سا رنگین مگر میلا سا پرانا مجسمہ تھا, جس میں ایک گڑیا اور گڈا ہاتھ پکڑے ایک ساتھ کھڑے تھے, یہ نیچے بےکار دھاتی سامان میں اُس دیواری گھڑی کا حصہ تھا جو ایک عرصے تک تایا ابو کے گھر لگی رہی تھی اور ایک بار شیبا کے مچل جانے پر تایا ابو نے اتار کر اسد صاحب کو دے دی تھی.