انسان بہت خود غرض واقع ہوا ہے اور ہمیشہ اپنی یا اپنے متعلق کی بات ہی کرتا ہے۔ لیکن کبھی کبھی اسے خیال تو آتا ہے کہ دوسروں کے جذبات بھی ہوتے ہیں اور انہیں بھی بیان کئے جانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن حضرتِ انسان کے پاس اپنی بات کرنے یا سننے کا بھی وقت نہیں تو وہ کسی اور کی بات کیا کرے گا۔

انسان اپنے جذبات کی ترجمانی کے لئے کئی ایک چیزوں کا سہارا لیتا رہتا ہے۔ اور ان کے سہارے اپنے احساسات کو چار چاند لگانے میں کامیاب بھی ہو جاتا ہے۔ دوسروں سے مسکرا کر پیش آنا، دوسروں کی خوشیوں میں خوشی سے شرکت کرنا اور دوسروں کے غم میں غمگین انداز میں شامل ہونا اس کے جذبات کی ترجمانی کرتا ہے۔

انسان کے حساس ترین جذبات کی ترجمانی کرنے والی فطرت کی بہترین سوغات پھول ہیں۔ پھولوں سے زیادہ کوئی بھی چیز انسان کے حساس جذبات کی عکاسی نہیں کر سکتی۔ انسان کو جب خوشی میسر آتی ہے تو انسان اس کا اظہار پھولوں کی مدد سے کرتا ہے، وہ خود پھولوں کے ہار پہنتا ہے یا دوسرے لوگ اسے ان ہاروں سے مزین کر دیتے ہیں۔ اسی طرح غم کے شدید جذبات کا اظہار بھی پھولوں کے حصے میں آتا ہے۔ کسی پیارے کی تربت پر پھول بکھیرنا انسان کے جذبات کی فزیکل عکاسی ہے۔

لیکن انسان نے پھولوں کے جذبات جاننے کی کبھی کوشش ہی نہیں کی۔ شادی کے موقع پر پیاروں کے سروں پر سے نچھاور کئے جانے والے پھولوں کا اگلے ہی لمحے کیا حال ہوتا ہے اسے جاننے کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی۔ ابھی پھول اتنے معزز تھے کہ دوسروں کے سروں پر سے نچھاور کئے جا رہے تھے۔ کسی کے سر، کسی کے کندھے، اور کسی کی دستار پر نظر آ رہے تھے اور پھر ان بچاروں کو پاؤں تلے یوں روند دیا جاتا ہے جیسے ان سے بُری کوئی چیز ہو ہی نہ۔ اگلے ہی لمحے خاکروب انہیں جھاڑو سے یوں گھسیٹ رہا ہوتا ہے کہ جیسے انہیں بن بلائے شادی ہال میں داخل ہونے پر سزا دی جا رہی ہو۔ اور اگلے ہی لمحے انہیں کوڑے دان کی بد بودار بستی میں پھینک دیا جاتا ہے۔ کوئی نہیں سوچتا کہ ان بچاروں کے ساتھ اس قدر ناروا سلوک ،اس مخلوق کے ساتھ اخلاقی زیادتی ہے۔

یا تو ان کو اتنی عزت سے نوازا ہی نہ جائے یا پھر انہیں اس قدر بے قدری سے گھسیٹ گھسیٹ کر باہر کوڑے کے ڈھیر کی نذر نہ کیا جائے۔ ان کے جذبات سمجھنے کی کوشش کی جائے وہ فطرت کی سلطنت کے شہزادے اور شہزادیاں ہیں ان کی عزت کا کچھ تو بھرم رکھا جائے۔ مسکراتے چہرے پھولوں کی مانند کہے جاتے ہیں لیکن مسکراتے پھولوں کے چہروں پر جوتوں کی ایڑیاں بلڈوزر کی طرح پھیر کر ان کو زخمی کر دیا جاتا ہے۔ ستم یہ کہ معزز مہمانوں کو اتنی عزت کے ساتھ ہار وں سے دوچار کیا جاتا ہے لیکن ان ہاروں کو غیر ضروری اور بوجھل سمجھ کر فورا اتار کر میز یا کسی اور چیز پر رکھ دیا جاتا ہے۔ اور پھر تھوڑا سا مرجھانے پر ان ہاروں کو کوڑے کے ڈھیر کے گلے میں ڈال دیا جاتا ہے.

پھول کے پودے کی شاخ کا حصہ بننے سے لے کر بکھرنے تک،اس کی زندگی کے مراحل آہستہ آہستہ طے ہوتے ہیں۔وہ بلکل انسان کی طرح جوان اور بوڑھے ہوتے ہیں۔ان کا بڑھاپا یکدم نہیں آتا۔اگرچہ ایسے پھول بھی ہوتے ہیں جن کی زندگی ایک دن سے بھی کم ہوتی ہے لیکن یہ مراحل زندگی کی طرح طے ہوتے ہیں۔لیکن جب ان کو شاخوں سے عین جوانی کے وقت توڑ لیا جاتا ہے،تو یہ عمل ایسے ہی ہے جیسے محازِ جنگ پر جا کر لڑنے کا ارادہ نہ رکھنے والوں کو زبردستی فوج میں بھرتی کر دیا جاۓ اور پھر ان کی لاشوں کو میدانِ جنگ سے اٹھا کر دشمن کے حوالے کر دیا جاۓ،یا کسی جگہ بے احتیاطی سے دفن کیا جاۓ۔

پھولوں نے کچھ دن گزارنے تھے۔ہم انہیں اپنی خوشی کے لیے توڑ لاۓ اور ابھی انہوں نے ہماری خوشی میں مکمل شرکت بھی نہیں کی تھی کہ ان کو دکھے مار مار کر بلکہ زخمی اور رسوا کر کے گھر سے باہر کسی ناپسندیدہ جگہ پر یوں پھینک دیا جیسے وہ دیشت گرد ہوں اور اب ان کی سزا کے مراحل شروع ہو گۓ ہوں۔

کہتے ہیں غم زندگی کو کھا جاتا ہے۔یہ بات سب سے زیادہ پھولوں کے علاوہ اور کون جان سکتا ہے۔جب ان کے ساتھ اتنا بُرا سلوک کیا جاتا ہے تو وہ بچارے اپنی ندامت سے ہی مر جاتے ہیں۔اگر ان کے ساتھ اشھا سلوک کیا جاۓ تو زیادہ زندگی سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔اچھا سلوک زندگی کو بڑھا دیتا ہے چیز کی بھی، تعلق کی بھی اور انسان کی بھی۔

پھولوں کے ساتھ اچھا سلوک یہ ہے کہ ان کو زمین پر گرنے نہیں دیا جاۓ۔ان کو گلدانوں میں سجا کر تحاںؑف میں پیش کیا جاۓ۔اور پھر ان کو شیشے کے برتنوں میں پانی ڈال کر ان میں تیرتے ہوۓ چھوڑ دیا جاۓ۔اس طرح ان کی زندگی بڑھ جاۓ گی اور ان کی عزت مجروح نہ ہو گی۔پتیوں کو گلاسوں میں ڈال کر رکھ دیا جاۓ یا ان سے کسی طریقے سے عطر کشید کر لیا جاۓ اور باقی بچنے والے پھولوں اور پتیوں کی گلکند بنا کر استعمال کر لی جاۓ۔یا ان کو کسی ویرانے میں اس جگہ سپرد کر دینا بہتر ہے جہاں لوگوں کے پاؤں نہ آتے ہوں۔اس طرح پھولوں کی عزتِ نفس بھی برقرار رہے گی جو کے ہر روز مجروح ہو رہی ہے۔

شاعروں کی نظر میں پھولوں کا کیا مقام ہے،ملاحظہ فرماںؑیں:

١۔ پھول تجھے بھیجا ہے خط میں۔۔۔۔ پھول نہیں یہ میرا دل ہے

٢۔ یہ آرزو تھی تجھے گل کے روبرو کرتے۔۔۔ میں اور بلبل بیزار گفتگو کرتے

٣۔ پانی کو چھو رہی ہو جھک جھک کے ٹہنی۔۔۔ جیسے حسین کوئی آئینہ دیکھتا ہو

کوشش کیا کریں کہ کاغذ کے پرزوں اور پھولوں کی پتیوں پر قدم نہ ہی رکھے جاںؑیں۔ ان حساس چیزوں کے جزبات مجروح ہوتے ہیں۔پھولوں کے جزبات کا رونا کیا رویا جاۓ،ہم تو وہاں رہتے ہیں جہاں انسانوں کے گھروں میں جنم لینے والے پھولوں کو بھی بے دردی سے کچل نہیں دینا چاہیے۔

ہمیں اس معاملے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ انسانوں کے پھولوں اور فطرت کے پھولوں ، دونوں کی قدر کی جاۓ۔

عام طور پر جانوروں کو بے زبان کا درجہ دیا جاتا ہے جبکہ وہ تو زبان رکھتے ہیں اور کئی ایک آوازوں میں اپنے جذبات کا اظہار بھی کر دیتے ہیں۔ لیکن اصل بے زبان پودے، درخت اور جڑی بوٹیاں وغیرہ ہیں کیونکہ ان کا نہ منہ ہوتا ہے اور نہ ہی زبان۔پھول مسکراتے ضرور ہیں لیکن بولتے نہیں۔ یہ ادا ہی ان کی محبوبی کی سند بن جاتی ہے۔ان سے کوںؑی شاعر ہی ہم کلام ہو سکتا ہے۔ پھولوں کی بے زبانی کا بھی لحاظ رکھنے کی ضرورت ہے کہ ان بیچاروں کی تو جانداروں کی طرح کوںؑی آواز بھی نہیں نکلتی اور دوسری بات کہ وہ جان نکلتے وقت جانوروں کی طرح تڑپتے بھی نہیں۔ کیسا صبر، استقلال یے کہ جیسے وہ اس طرح پاؤں تلے روندے جانے پر اپنی شہادت سمجھ رہے ہوں اور پاؤں تلے روندے جانے کے باوجود خوشبو ہی بکھیر رہے ہوں کہ وہ کسی سے دشمنی رکھ ہی نہیں سکتے اور بُراںؑی کے بدلے بھی اچھائی ہی کرتے ہیں بلکل فطرتی طور پر نیک انسانوں کی طرح جو بُرائی کا جواب بھی اچھائی سے ہی دیتے ہیں کہ بُراںؑی ان کی فطرت میں ہوتی ہی نہیں۔