ہم جس کرۂ ارض پر زندگی گزار رہے ہیں اور زمان و مکان کی جن کیفیات میں ہمارے شب و روز بسر ہوتے ہیں یہ عالمِ دنیا کہلاتا ہے، اس کے بعد موت ہے اور ایک نیا عالم شروع ہوگا جس کو ہم عالمِ برزخ کہتے ہیں پھر ہمیں دوبارہ جی اٹھنا ہے، ایک بڑی عدالت میں پیش ہونا ہے، یہاں حساب وکتاب قائم ہوگا، یہ عالمِ محشر ہے اور اس کے بعد پھر جنت یا جہنم میں سے کوئی ایک ٹھکانا انسان کی منزل قرار پائے گی اور اس کا مقدر ٹھیرے گی، جنت یا جہنم کی ابدی منزلیں حقیقت ہیں اور یہ معاملات عالمِ آخرت کے ہیں۔

انسانوں کے معاملات ان تمام عالمَوں میں ایک دوسرے سے جُڑے ہوئے ہیں۔ میرا گھر تو اس عالمِ انسانی اور عالمِ دنیا میں ہے اور جنت کا معاملہ عالمِ آخرت کا ہے، لیکن ان دونوں کا آپس میں گہرا تعلق ہے؟ بنیادی بات یہ ہے کہ جنّت میں جانے کا راستہ دنیا سے ہو کر ہی گزرتا ہے، مجھے اس حقیقت کو جاننا چاہیے کہ میری جنّت کا سامان سات سمندر پار نہیں ہے، بلکہ آس پاس ہی بکھرا ہوا ہے، میرے گھر کے اندر ہی موجود ہے، اس کے لیے کسی جنگل نشینی کی ضرورت نہیں ہے، کسی صَحرا نَوَردی کی حاجت نہیں ہے، ہم سب جانتے ہیں کہ ماں کے قدموں تلے جنّت ہے، میرے گھر میں اگر ماں موجود ہے تو جنّت کا سامان گھر میں ہی موجود ہے۔ والد کی ناراضی میں ربّ کی ناراضی ہے اور والد کی خوشی میں ربّ کی خوشی ہے تو جنّت کا یہ راستہ بھی میرے گھر سے ہی نکلتا ہے۔

آگے بڑھیے! میاں اور بیوی کا انتہائی حسین اور مقدس رشتہ! ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنا، ایک دوسرے کو محض الفت اور انسیت کی نگاہ سے دیکھنا بھی ثواب، دونوں کے درمیان محبت بھی نعمت، ایک دوسرے کا جی خوش کردینا، فضیلت ہے اور بشارت ہے، پھر دیکھیے اولاد کا معاملہ کیسے عالمِ آخرت اور جنّت سے جُڑا ہے؟ انسان جب قبر میں چلا جاتا ہے تو اس کا دفتر بند ہوجاتا ہے، اعمال کا کھاتا رُک جاتا ہے، لیکن حدیث نبویؐ یہ بتاتی ہے کہ اس کے کچھ اعمال کا حصہ کھلا رہتا ہے اور ان میں سے ایک نیک اولا د ہے۔ یہ اجرِ جاریہ ہے، اولاد نیک اور صالح ہوگی تو انسان کو قبر کے اندر بھی سکون واطمنان میسّر ہوگا اور آخرت میں بھی اس کے درجات بلند ہوں گے، وہ حیران ہو جائے گا کہ اسے یہ اعزاز کیوں کر نصیب ہو رہا ہے تو بتایا جائے گا کہ تمہاری نیک اور صالح اولاد کی دعاؤں اور اعمالِ صالحہ کی وجہ سے یہ مقام تم کو ملا ہے۔ چنانچہ نیک اولاد بھی اجرِ جاریہ ہے، جنت کا سامان ہے، ذرا سوچیے کہ اگر انسان اپنی بیٹیوں کی بہترین تعلیم وتربیت کا اہتمام کردے، نبی کریمؐ نے جنّت کی بشارت دی ہے، پھر بعض گھروں میں ضعیف العمر افراد موجود ہوتے ہیں، کچھ خونی رشتے اور کبھی دور پرے کے رشتہ دار بھی گھرکے مستقل مکین، ان کمزور اور ضعیف العمر افراد کی دعائیں عافیت کا سبب بنتی ہیں، بلاؤں کو ٹالنے کا باعث بنتی ہیں، ان کی موجودگی سے ہمارے رزق میں اضافہ ہوتا ہے، بوڑھے ساس اور سسر کی خدمت بڑی فضیلت کی بات ہے، اس خدمت کی فرضیت کا فتویٰ حاصل کرنے کے بجائے فضیلت اور اجر کو دیکھنا چاہیے، یہ بڑی سعادت مندی اور خوش بختی ہے،

بعض گھروں میں معذور افراد بھی ہوتے ہیں، کبھی مستقلاً بیمار اور صاحب فراش افراد بھی۔۔۔ ان سب سے حسنِ سلوک! یہ سب جنّت کے راستے ہیں، گویا جنّت کا سامان اِرد گِرد ہی بِکھرا ہوا ہے، ماں باپ کی صورت میں اور زَوج اور اولاد کے رِشتوں میں۔ گھر میں موجود ہر فرد اور ہر رشتہ محبت اور احترام کا حق دار۔ میرا گھر میری جنّت! کیسا پیارا تصور! میرے ربّ کی وسعتِ رحمت کے کیا کہنے، سُبحان اللہ!

میرا المیہ یہ ہے کہ مجھے معلوم ہی نہیں کہ میرا اپنا گھر جنّت میں داخلے کا اہم راستہ ہے، المیہ یہ بھی ہے کہ مجھے ساری دنیا کی خَبر ہے اور فِکر بھی، لیکن خَبر اور فِکر نہیں ہے تو اپنے ہی گھر کی نہیں ہے، یہ وہ مقام ہے جو ہمیں دو میں سے کسی ایک ابدی منزل کی طرف لے جا سکتا ہے، کون سی ابدی منزلیں؟ انسان کی ساری زندگی کا جو کچھ بھی حاصل ہوگا وہ جنّت یا جہنّم میں سے کوئی ایک ہے۔ انسان کی ساری سرگرمیاں، ساری سعی و جہد، ساری عمر، ساری توانائیوں کا حاصل بہرحال ان دونوں میں سے ہی کوئی ایک ٹھکانا ہے۔ لہٰذا دانش مندی کا تقاضا تو یہی ہے کہ ہمیں معلوم ہو کہ آخری اور حتمی منزل کے لیے زادِ سفر کیا ہے اور کیسے جمع کیا جائے گا۔

آئیے تخلیقِ انسانی کی طرف، اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے سب سے پہلے سیدنا آدمؑ کو تخلیق کِیا، اس کے بعد سیدہ حوّاؑ کو تخلیق کیا۔ آدمؑ اور حوّاؑ کی تخلیق دراصل اس بات کا اعلان ہے کہ کرّۂ ارض پر انسانی زند گی کی اب جو بقا ہے، اس کی جو کچھ بھی بڑھوتری اور ترقی ہے، اس کا انحصار ایک مرد اور ایک عورت پر ہے اور ان کے درمیان رشتہ کیا ہے؟ آدم اور حوّا یعنی شوہر اور بیوی۔ گویا قدرت کی جانب سے یہ اسکیم بنادی گئی کہ دنیا میں میاں بیوی کا یہ رشتہ جتنا مضبوط ہوگا اور اس میں جتنی پختگی ہوگی، اتنا ہی گھر کا نظام ٹھیک ہوگا، اتنا ہی خاندان کا نظام مضبوط ہوگا، معاشرتی نظام کی بقا کا تعلق بھی اسی رشتے کی مضبوطی اور پائیداری سے ہے اور یہاں تک کہ دنیا کے نظام میں سنوار و نکھار یا فساد و انتشار کا تعلق بھی میاں بیوی کے رشتے سے ہے۔ اس رشتے کے اندر جتنی تلخی آئے گی، دراڑ پڑے گی، دوری ہوگی اتنا ہی گھر، خاندان، معاشرے اوریہاں تک کہ اس دنیا کے نظام میں فساد پید اہو گا۔