تحریر: صفیہ کوثر

میں نے بار ہا سوچا کہ اگر اچانک مجھے زبردستی گھر بٹھا دیا جائے تو بس تبھی میری زندگی ڈگر پر آئے گی۔ میں لکھنے لکھانے کا کام مکمل کروں گی۔ کئی پڑھنے کی کتابیں یوں ہی دھری ہیں، وہ پڑھ کر عطیہ کروں گی۔ گھر کے چند کونوں میں قیمتی اشیا پھینک رکھی ہیں تا کہ محفوظ رہیں۔ ان کو ٹھکانے پر رکھوں گی اور اس سے قبل الماریوں سے بے کار سامان اور کچرا نکال کر پھینکوں گی جو مہمانوں کی نظر سے چھپانے کی خاطر رکھ کر بھول گئی تھی۔ کچھ دوستوں سے کچھ بحثیں ادھوری چھوڑ رکھی تھیں۔ سوچا تھا فرصت سے حقائق اکٹھے کر کے دوستوں کے چند دانت کھٹے کروں گی۔ ایک آدھ جنگ بھی میرے کاندھوں پر بوجھ تھی، اکثر راتوں کو سونے سے پہلے میں فرصت کی دعا کرتی تھی تا کہ اپنے کچھ نظریات دشمنوں سے چھڑا سکوں اور ان کے غلط نظریات کو تباہ کروں۔ کئی دوستوں سے وعدے تھے کہ آپ کی باتیں سنوں گی اور بیچ میں نہیں بولوں گی۔ امی سے ہمیشہ کہتی تھی کہ آپ کے پاس آوں گی تو پھر کہیں نہ جاوں گی، سب باتیں مانوں گی،اپنے بالوں میں تیل بھی ڈالوں گی اور دن میں 3 وقت ان ٹائم کھانا بھی کھاوں گی۔ صبح صبح فجر پڑھ کر سونے کے بجائے ٹہلنے جایا کروں گی کیوں کہ دفتر نہ جانا ہو تو نیند بھی پوری ہو جاتی ہے اور دن میں وقت بھی بہت ہوتا ہے سو واپس آکر تلاوت کر کے ناشتہ کروں گی۔ امی کے گھر کی صفائی اور سیٹنگ کرواوں گی۔ بھابھی کو اچھی طرح سمجھاوں گی کہ اس گھر کی کیسی سیٹنگ آرام دہ ہوتی ہے۔ پھر سلائی مشین پر کئی کام کروں گی۔ اپنے کپڑے سینا بھی آ جائیں کیا پتا۔ میٹرک سے ہر سال چھٹیوں میں سیکھتی رہی ہوں بس ذرا سی ہی کسر ہے اب وقت ملا تو ماہر ہو جاوں گی۔ 

عبید کو اچھے اچھے کھانے پکا کر دوں گی ابھی غریب آدمی کو مناسب اور متوازن کھانا ہی نہیں کھلا پاتی۔ دال ہے تو تین دن چل رہی ہے۔ ناشتہ میں آملیٹ صرف اتوار کو نصیب ہوتا ہے وہ بھی پیاز اگر وہ خود کاٹ دیں۔ سبزی پسند نہ بھی ہو تو کھانا پڑتی ہے۔ فرصت ملے تو تکے بنا کر دوں گی اور تازہ کباب دیا کروں گی ناشتہ میں۔ کپڑے سارے استری کر لوں گی اپنے بھی ،ان کے بھی۔ سب جوتے پالش اور صاف کر کے رکھوں گی۔ عبید سے بہت سی باتیں کرنے کا پانچ سالہ وعدہ بھی میری توجہ کا منتظر ہے۔ گھر میں کھا پی کر سو جاتے ہیں اور اہم بات کال پر کی جاتی ہے۔ وہ بھی مختصر۔ دیگر مسائل ایک جملے کے ٹیکسٹ میسج سے نمٹ جاتے ہیں۔ ہاں البتہ ملکی اور بین الاقوامی مسائل کے لیے طویل دورانیے کی کالز، آڈیو میسجز اور لنکس بھیج لیتے ہیں۔

اور اب آخر میرا آئیڈیل وقت آیا ہے، آج خدا جانے کتنے دن گزر گئے، معلوم نہیں کیا تاریخ ہے، کون سا دن ہے، دن کا کون سا پہر ہے۔ دوستوں کو دن کے 2 بجے صبح بخیر کہتی ہوں، 3 بجے ناشتہ کرتی ہوں، رات کو اخروٹ کھا کر لیٹ جاتی ہوں، ایک رات میں کسی فلم کا پورا سیزن دیکھ کر رات کے آخری پہر بھوک سے بےقرار ہو جاتی ہوں تب کسی کا قول یاد آتا ہے کہ پانی بھی بھوک مٹاتا ہے۔ پانی پی کر سوشل میڈیا میں تاک جھانک کرتی ہوں۔ پوری دنیا خوابوں میں کھوئی رہتی ہے اور مجھے بہت پریشانی کا سامنا ہوتا ہے۔ شاید کوو ایڈیٹ (Cov idiot) کی طرح دل کرتا ہے سب کو جگا دوں۔” کیوں میں جاگوں اور وہ سپنے بو رہا ہے”۔

اب جو جوتے صاف کرنے کے لیے قبل از وقت نکال لیے تھے وہ پیر کی ٹھوکروں سے صوفے کے پیچھے لڑھکانے پر مجبور ہو گئی تھی اب بھی ادھر ہی پڑے ہیں۔ کپڑے ہر کرسی، میز اور ہموار سطح پر رکھے ہوئے ہیں۔ دال تک پکانا بھول گئی تھی سو نوڈلز کھا رہی ہوں۔ ناشتہ کرتی ہوں تو رات کے 2 بجے بھوک سے لوٹ جاتی ہوں۔ فریج میں سوائے شہد کے فوری کھانے کا کوئی سامان نہیں۔ ہاں آلو پیاز ہیں۔ لکھنے کے نام پر فیس بک اور وٹس ایپ پر پوسٹس اور کمنٹس لکھ رہی ہوں۔ وہ بھی اجنبیوں کو۔ سب دوست قرنطینہ کے لیے انڈر گراونڈ ہو گئے ہیں۔

امی نے پہلے ہی کال کر کے منع کر دیا کہ آپ کے علاقے میں وائرس کا زیادہ امکان ہے۔ سو ادھر کا رخ ابھی نہ کریں آپ کے بھائی کے چھوٹے بچے کہیں بیمار نہ پڑ جائیں۔

سسرال سے بھی ایسا ہی پیغام آیا۔دن میں فیس بک کو دیکھ دیکھ کر دل اوب جاتا ہے۔کسی کام سے لیپ ٹاپ لے کر بیٹھوں تو دیر تک کام یاد نہیں آتا اور جب عبید بھوک سے جاں بہ لب ہوں تو محض میری نرم دلی مجھے کچن میں لے جاتی ہے تو وہاں مجھے لیپ ٹاپ پر کرنے کا کام یاد آتا ہے۔ سو کچن کا کام جیسا تیسا نمٹا کر پھر لیپ ٹاپ اٹھاتی ہوں تو عبید کسی فلم کی فرمائش کر دیتے ہیں۔ عبید مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے۔ ان کے ساتھ فلم دیکھنا بھی صبر کی آزمائش ہے۔ عبید نے بھلے وقتوں میں کچھ فلمیں اور گانے سن لیے تھے ۔ آج تک ان کو وہی پسند ہیں۔ ان کے خیال میں ان کے علاوہ اب کوئی فلم دیکھنے کے قابل نہیں اور کوئی گانا سننے کے لائق نہیں۔ میں کج بحثی پر مائل ہوں یا میرے پاس فالتو وقت ہو تو میں ضرور بات آگے بڑھاتی ہوں۔ جیسا کہ آج کل دونوں ہی باتیں ہیں۔ تو میں نے کہا کیا آپ نے سب فلمیں دیکھ لی ہیں؟ ماہرین تو ٹریلر بھی نہیں دیکھتے کہ وہ اصل فلم کے تاثر کو خراب کرتے ہیں۔ شائقین تبصرے نہیں پڑھتے کہ کسی خبطی نے چھوٹے سے نکتے ہر پوری فلم کو جانچا ہو گا۔ وہ فلم دیکھتے ہیں۔ ابتدائی حصے کی اکتاہٹ کو سہتے ہیں۔ آپ کبھی تو فلم کے نام پر اعتراض کرتے ہیں۔ کبھی اداکار آپ کو پسند نہیں۔ کبھی فلم کا دورانیہ زیادہ ہے۔ ابتدا کا تعارفی حصہ تک آپ ہضم نہیں کرتے۔ آپ کو فلم سے لطف اندوز ہونا آتا کہاں ہے؟ میں زور خطابت میں تخت یا تختہ کی طرف جاتی ہوں۔ عبید البتہ ہم آہنگی کا رحجان رکھتے ہیں۔ ایسے موقعے پر ٹوک دیتے ہیں، اچھا چلو بتاو پھر اب کون سی فلم دیکھوں۔ کارٹون فلم نہ ہو۔ اب کون سمجھائے کہ اینی میٹڈ فلم عام فلم سے زیادہ مکمل اور پر اثر ہوتی ہے۔ لیکن میں عبید کی پسندیدہ فلموں کی فہرست میں اضافے سے آج تک قاصر رہی ہوں۔

موسیقی کا تو ذکر ہی کیا۔ وہ اس کو حرام سمجھتے ہیں۔ سوائے ان کی پسند کے چند گیتوں کے۔ جن میں سے ایک اقبال بانو کا گایا ہوا کلام فیض ہے۔ ارے نہیں۔۔ اس کا عنوان ہے “ہم دیکھیں گے”۔

لیکن اس پر میں نے کبھی بحث نہیں کی۔ ہمیشہ یہی کہتی ہوں کہ اس گھر کی فضا پر میرا بھی آدھا حق ہے۔ جیسے کرکٹ کا شور گونجتا ہے تو کبھی کبھی گیت بھی گونجے گا۔ اور ہاں اسلام میں لعو لعب اور کھیل کود بھی حرام ہے۔

اب عبید کو کئی گانے ان کے ساز سمیت حفظ ہو چکے ہیں کیوں کہ پسندیدہ گانے میں بار بار سنتی ہوں۔ انسان کی نفسیات تکرار پر الگ طرح ردعمل کرتی ہے۔ لہذا بار بار سن کر عبید کو بھی وہ گانے اچھے لگتے ہیں۔ بیویوں کو ہمیشہ غیر روایتی اور ففتھ جنریشن وار لڑنی چاہیے۔ روایتی جنگ میں مرد ہی جیتتا ہے اور معاشرہ بھی اسی کا ساتھ دیتا ہے تو ان کو ایسا موقع دینے کی بےوقوفی نہ ہی کریں۔

اب تو میں نے کئی اور بوجھ بھی سر سے اتار پھینکے ہیں۔ مثلا آٹا گوندھنے کے لیے مشین تو پہلے سے لے لی تھی۔ کیوں کہ سنا ہے موبائل فون کی سکرین پر جراثیم اس قدر ہوتے ہیں کہ ٹوائلٹ سیٹ بھی اس سے کم گندی ہو گی۔ اور پھر صابن صرف 99% جراثیم صاف کرتے ہیں۔ اب عبید کو سکھایا ہے کہ مشین میں آٹا کیسے گوندھا جاتا ہے۔ ہاں روٹی پکانے کی طرف ان کا کوئی رحجان نہیں۔ مرد کس قدر کام چور ہوتے ہیں۔

اب وقت ہو گیا ہے کہ میں گھر میں ذرا سی چہل قدمی کر لوں اور ورزش کے لیے فرش صاف کر لوں۔ آپ بھی اٹھ جائیں ورنہ قرنطینہ کے بعد آپ کے پھولے ہوئے چہرے کو دیکھ کر دیگر پھولے ہوئے چہرے ہنسیں گے اور اس سے بھی زیادہ ظلم کی بات یہ ہو گی کہ آپ کو غلط سلط مشورے دیں گے جن میں سے ایک بھی ان کا آزمودہ نہ ہو گا!

Safia Kaosar

نام تو میرا آپ جان ہی گئے ہیں۔کالج میں اردو پڑھاتی ہوں جس میں ذرا بھی محنت نہیں لگتی اس لیے محنت پسندی کی تسکین کے لیے کبھی لکھ لیتی ہوں، کبھی بول لیتی ہوں، گھر والے کسی صورت میں نہیں سنتے۔ اس لیے دوستوں کے مجمعوں میں بات کہنے کے موقع تلاش کرتی ہوں ویسے اصل مومن کی طرح کم آمیز اور سچے مسلمان کی طرح سادہ دل ہوں۔ My Email : [email protected]