ایک روز جب اس کی آنکھ کھلی تو ایک ساعت کے لئے گماں ہوا کہ خواب حقیقت ہو گیا ہے ،گہری نیند سے اچانک جاگنے پر چند لمحے خوف کی کیفیت میں گزارے تھے، بعض اوقات یہ چند لمحے ہی زندگی کا حاصل محسوس ہوتے ہیں۔

اس روز جب آفس میں اچانک اس کی آنکھ کھلی ، تو وہ جلد ہی گھر پہنچنا چاہتا تھا جیسے کوئی پرندہ اڑ کر ایک جگہ سے دوسری جگہ چلا جاتا ہے۔ بس اس طرح،اس نے چھٹی کیلئے درخواست بھی دی تھی لیکن چھٹی منظور نہیں ہو رہی تھی۔ اُسے اس بات کا ڈر تھا کہ اگر درخواست منظور کیے بغیر وہ اپنے گھر چلا گیا تو نوکری چلی جائے گی،اس لیے وہ ابھی نکلا نہیں تھا لیکن اب اس سے صبر بھی نہیں ہو رہا تھا۔آفس میں ابھی بہت کام باقی تھا اور وہ ایک مشین کی طرح کام کرتا جا رہا تھا لیکن کام ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔ اسے ایک گھٹن سی محسوس ہونے لگی اور دل میں ایک چبھن سی ہو رہی تھی۔ اپنی سوچ پر اب اس کا قابو نہیں رہا، بظاہر اس کا جسم کام کر رہا تھا۔لیکن اس کا دماغ کہیں اور تھا۔اس کا سر گھن چکر بن گیا تھا۔ اس نے اپنے سر کو زور سے جنبش دی اور سوچنے لگا کہ بھاڑ میں جائے نوکری، پھر اپنا بیگ اٹھایا اور نکل پڑا۔

وہ سوچنے لگا جب کوئی اس سے لڑائی کرتا تھا۔ اس کا بڑا بھائی ایک ڈھال بن کر سامنے کھڑا ہو جاتا تھا۔ بچپن سے لے کر اب تک بڑے بھائی کی ایک ایک قربانی اسے یاد آنے لگی۔

اور اس احساس کی وجہ سے آنکھوں آنسوؤں بھر آئے۔اس نے آپ کو سنبھالنے کی بہت کوشش کی لیکن ایک کے بعد ایک مسلسل واقعات یاد آتے گئے اور آنسو بادلوں کی مانند برستے رہے،پانچ سال پہلے وہ لندن آیا اور آج گھر جا رہا تھا۔ اس کے دل میں تمنا نے سر اٹھایا اور وہ ان کے آگے جھک گیا تھا۔ بہت پہلے اخبار میں اس نے اپنے ملک کے ایک شخص کی امیر بننے کی کہانی پڑھی تھی کہ ایک شخص نے اپنے ملک میں پڑھائی مکمل کرنے کے بعد لندن چلا گیا اور ترقی کرتے کرتے بہت امیر آدمی بن گیا تھا۔ تب سے اس کے دل و دماغ میں امیر بننے کے خواب نے جنم لیا۔ یہ عشق کا نہیں خوابوں کا فتویٰ لندن جاکر امیر بننا اس کا خواب بن گیا تھا اس نے لندن جانے کے تصور کو آنکھوں میں سجائے اپنی زندگی کے شب و روز گزارے اور اسی خواب کو برسوں جیتا رہا ہوں زندگی میں کچھ کرنا چاہتا تھا۔ بہت پیسے کما کر امیر بننا چاہتا تھا مجھے اپنا کیریئر بنانا ہے بس یہی ایک چھوٹا سا خواب ہے میرا۔ گھر کے سبھی افراد نے سمجھایا دوستوں نے ہمیں روکا پر اس کی ضد کے آگے سب کی کوششیں دم توڑ گی۔ اس کے اندر پیدا ہوا خواہشات کا طوفان کسی طرح سے روکے نہ رکتا تھا۔

اس کے اس فیصلے سے سب سے زیادہ دکھ اس کے ماں باپ کو ہوا۔ یہ د دکھ ان کے اندر گہرائی تک اترتا چلا گیا ان کی آنکھوں سے آنسوؤں کی لڑیاں جاری تھی اپنے بچے کی مرضی کے آگے اپنی خوشی کا گلا گھونٹنا پڑا۔ اور باپ بھی اپنے بیٹے کو خوشی سے الوداع کرنے کے لیے ایئرپورٹ تک آ گیا۔باپ نے اسے بہت سمجھانے کی کوشش کی کہ اپنے ملک میں بھی بہت سی نوکریاں مل جاتی ہیں۔مگر وہ اپنی ضد کے آگے کسی کی نہیں چلنے دے رہا تھا ایسا لگ رہا تھا جیسے لندن جاکر نوکری کرنا اس کا خواب سا بن گیا ہے۔جس سے وہ صورت میں پورا کرنا چاہتا تھا۔وہ اپنے خواب کو پورا کرنے کی خاطر کسی کی بھی قربانی دے سکتا تھا۔لندن پہنچنے ہی پر اسے ایک عمدہ نوکری مل گئی ۔جیسے اس کی خواہش تھی وہ اپنے دوستوں کے ساتھ جھوٹا کھانا کھاتا اور پھر سیر و تفریح میں اپنے وقت کو صرف کرتا تھا ۔ان سب چیزوں میں وہ اپنے گھر والوں کو مکمل طور پر بھول چکا تھا وقت ایسے ہی گزرتا چلا گیا۔اور ایک روز اس نے اپنی گھر پر فون کیا تمام اہل خانہ کی نگاہیں خوشی سے بھر گئی۔آخر کار ان سب کا انتظار ختم ہوا،مگر جب اس نے اپنی شادی کی خبر اپنے گھر والوں کو دی تو اچانک ایک سناٹا سا چھا گیا تھا۔

مگر کچھ ہی لمحوں کے بعد ماں نے بیٹے کو اور بہو گھر لانے کی دعوت دی،مگر اس بات پر بیٹے نے اپنے کام کا بہانہ کرتے ہوئے صاف انکارکر دیا۔ماں نے بیٹے کو بہت اصرار کیا کہ وہ اپنے گھر واپس لوٹ آئے۔ بیٹے نے ماں کو کہا کہ تم پھر سے ماں شروع ہوگئی ہو یہ کہہ کر بیٹے نے فون بند کر دیا ۔ وقت یوں ہی گزرتا چلا گیا اور زندگی کے پانچ سال گزر گئے۔اور ماں ہمیشہ اپنے بیٹے کی یاد میں گم رہتی،اور اپنے بیٹے کی یاد میں اس کی آنکھیں نم ہو جاتی تھی۔ایک روز بیٹے کو اس کے ماں باپ کی موت کی خبر ملی تو وہ اپنے معمول کے تمام کام چھوڑ کر کر اپنے وطن واپس لوٹتا ہے،ایئرپورٹ سے سیدھا وہ ہسپتال گیا۔ مگر جب وہاں اسے کوئی نظر نہ آیا تو وہ گھر لوٹ آیا۔ گھر پر ایک ماتم کا ماحول چھایا ہوا ہوتا تھا۔پڑوسی اور خاندان والے ہر کسی نے اس سے منہ موڑ لیا۔ ہر کسی کا رویہ اس کے ساتھ ایسا تھا کہ جیسے ان سب نے اسے پہلی دفعہ دیکھا ہے ۔یہ سب دیکھ کر وہ بہت حیران ہو گیا اور دل ہی دل میں سوچتا رہا کہ شاید یہ سب مجھ سے ناراض ہیں اس لیے ان سب کا رویہ ایسا ہو گیا ہے۔اور خاندان والے اور تمام اہل و عیال سب اس سے منہ موڑ لیتے ہیں اب اس کی زندگی کا جیسے کوئی مقصد ہی نہ رہ گیا ہو۔

اس کی زندگی کے تمام رنگ اور خواب اس کے والدین کے ساتھ ہی ختم ہو گئے۔اور جو ہر وقت اپنے خوابوں کی تعمیر کے پیچھے سر گرداں رہتا تھا وہ اپنے خوابوں کے نقوش میں جھلملاتے ہوئے نظر آتا ہے اب تنہائی اور غم ہی اس کا مقدر بن گئے تھے اور وہ اپنے ماں باپ کی یاد میں ہر دن تڑپ رہا تھا۔ نہ اس سے لندن جانے کا شوق رہا اور نہ زندگی کے دیگر کاموں میں اس کا دل لگتا تھا۔اسے اپنے آپ سے سے اور اپنی زندگی سے اکتاہٹ سی محسوس ہونے لگی۔ اب اس کی زندگی کا حال کچھ یوں تھا:

خواب کی طرح بکھر جانے کو جی چاہتا ہے
ایسی تنہائی کہ مر جانے کو جی چاہتا ہے

اب اس کا دل چاہتا تھا کہ وہ خوابوں کی طرح بکھر جائے مگر ایسا ممکن نہیں تھا کیوں کہ بعض دفعہ آدھے ادھورے خواب بہت زیادہ تکلیف دہ ہوتے ہیں۔اس کے ماں باپ کی ادھوری یاد اس کے دل کی دھڑکن میں اسے سے بہت زیادہ چبھتی تھی ۔مگر یہ احساس اس کی زندگی میں خلش بن کر رہ گیا۔اب اس کے پاس ادھورے پیار اور ادھوری چاہت کے سوا کچھ باقی نہیں رہا تھا۔