گزشتہ کچھ دنوں سے فون پر ایک دوست کے ساتھ شادی کے فوائد و نقصانات پر طویل بحث کا سلسلہ جاری ہے۔ یہاں دو وضاحتیں ضروری ہیں۔ اول یہ کہ جس دوست سے بات ہو رہی تھی وہ مرد واقع ہوئے ہیں۔ یہ وضاحت اس لئے ضروری ہے کہ کوئی اس کے برعکس گمان کرتے ہوئے بیگم سے مار ہی نہ پڑوا دے۔ دوم یہ کہ پیراگراف پڑھنے کے بعد میرے کئی دوست غصے میں مجھے فون کریں گے کہ تم نے ہمارا راز پوری دنیا کے سامنے فاش کر دیا ہے۔ تو ان کو یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ آپ اکیلے نہیں جن سے میں یہ بحثیں کرتا ہوں، اسلئے شانت رہیئے۔ آپ کا راز ابھی سینے میں محفوظ ہے۔ اس کے بعد ایک تیسری وضاحت کی گنجائش پیدا ہو جاتی ہے اور وہ یہ کہ جی ہاں، میرے ایک سے زیادہ دوست “شادی بیزار” واقع ہوئے ہیں۔ ایسا کیوں ہے اس سوال کا جواب میں خود ابھی تک ڈھونڈ رہا ہوں۔

سو میں یہ عرض کر رہا تھا کہ گزشتہ رات ایک دوست سے کئی گھنٹے اس موضوع پر بحث ہوئی اور پاکستان کی تمام بحثوں کی طرح بات کسی منطقی نتیجے تک پہنچے بغیر فجر کی نوبت آ گئی۔ اس وقت ہمیں احساس ہوا کہ بہت دیر ہو گئی ہے۔ کال بند تو کر دی، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ایسی بحثوں کے دوران اکثر دماغ میں اتنے خیالات جنم لیتے ہیں کہ پھر ان کی وجہ سے گھنٹوں نیند نہیں آتی۔ چنانچہ جب تک نیند کی نوبت آئی تب تک دن کی روشنی اور سورج کی تمازت بہت بڑھ چکی تھی۔

بعض دفعہ نیند میں بھی بیالوجی ہی ستاتی رہتی ہے۔ گویا سوتے ہوئے بھی چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ (بیالوجی) لگی ہوئی۔ چنانچہ بیالوجی کے مسائل سے پیچ و تاب کھاتے، بے سکون نیند کے بعد آنکھ کھلی تو دو انکشاف ہوئے۔ اول تو یہ کہ کمرے کا نائٹ لیمپ اور پنکھا بند تھے۔ بجلی کی سی سرعت کے ساتھ دماغ نے دو تین پے در پے نتائج اخذ کیے۔ بجلی ندارد۔ رات کپڑے استری نہیں ہو سکے تھے اسلئے کالج جانا مسئلہ بن جائے گا۔ پانی بھی نہیں آ رہا ہو گا۔ دوسرا انکشاف تب ہوا جب موبائل کی سکرین آن کی۔ معلوم ہوا کہ عین لیکچر کا وقت شروع ہو چکا ہے۔ ابھی پچھلے روز ہی تو پرنسپل صاحب نے میٹنگ میں کلاسز کی مانیٹرنگ کا طریقہ کار وضع کیا تھا۔ اور ان کی تقریر سنتے ہوئے مجھے لمحہ بہ لمحہ یہ محسوس ہو رہا تھا کہ شاید عین میرے لیے یہ سارا کشٹ کیا جا رہا ہے۔ اس تنبیہ کے باوجود پہلے ہی دن جواب طلبی کی نوبت آن پہنچی تھی۔

لیکچر کا وقت شروع ہونے میں ایک منٹ بھی باقی نہ تھا۔ یعنی اتنا وقت بھی نہیں تھا کہ اٹھ کر پسینے سے بھرا منہ دھو ہی لیا جائے یا قمیص ہی پہن لی جائے۔ گھڑی نے بتایا کہ پلنگ سے اترنے کا بھی وقت دستیاب نہیں۔ میری بچپن سے ہی یہ عادت رہی ہے کہ نامساعد سے نامساعد ترین حالات میں بھی شکر ادا کرنے کا کوئی نہ کوئی پہلو ڈھونڈ ہی لیتا ہوں۔ یہ عادت اتنی راسخ ہو گئی ہے کہ اکثر دوستوں یا عزیز و اقارب کے سامنے اپنی شکر گزاری پر شرمندگی بھی اٹھانی پڑ جاتی ہے۔ مثلا آپ دوستوں کے ساتھ کہیں جا رہے ہوں اور عین ویرانے میں گاڑی کا ٹائر پنکچر ہو جائے، سب ٹینشن میں ہوں اور آپ کے بے ساختہ قہقہے آؤٹ آف کنٹرول ہو جائیں۔ یا پھر کبھی کمیشن کے کسی امتحان سے باہر نکلیں اور آپ کو اور آپ کے دوستوں کو احساس ہو کہ کتنی بری طرح فیل ہونے والے ہیں اور اس پریشانی میں آپ ہنس ہنس کے دوہرے ہو جائیں۔ اگر آپ کے ساتھ کبھی ایسا نہیں ہوا تو میری بات پر اعتبار کیجئے کوئی بہت زیادہ قابل فخر صورت حال نہیں ہوتی۔

خیر دماغ نے اس دفعہ بھی تمام تر ناممکنات کے درمیان ایک مثبت پہلو ڈھونڈ لیا تھا۔ کرونا کی وجہ سے زیادہ تر لوگ کالج نہیں آتے، تو میں بھی اپنی روٹین کے برعکس آج نہیں جاؤں گا تو کون سی قیامت آ جائے گی۔ جہاں تک لیکچر کا سوال ہے تو وہ گھر سے، اور پلنگ پر، اندھیرے میں اور بغیر منہ ہاتھ دھوئے یا قمیص پہنے بھی تو دیا جا سکتا ہے۔ یہ سوچتے ہی میں نے موبائل پر اپنے لیکچر کی سلائیڈز کھول لیں اور بچوں کو گروپ میں زوم پر آنے کی دعوت دے دی۔ زوم کھولا تو لیکچر میں حاضر ہونے والوں میں سب سے پہلا نام وائس پرنسپل صاحب کا تھا۔ لو جی، ایک دفعہ پھر سے قدموں تلے زمین نکل گئی۔ پرنسپل صاحب کے احکامات کے مطابق وائس پرنسپل صاحب فردا فردا کلاسز میں جا کر باقاعدہ چیکنگ کر رہے تھے۔

ایک تو اپنے حالات ایسے ہوں کہ نیند سے جاگنے کے چند سیکنڈ کے اندر آپ کو لیکچر دینا پڑے، اور اوپر سے کوئی سینئر آپ کی کلاس میں موجود ہو تو بندے کی ویسے ہی گھگھی بندھ جاتی ہے اور حلق سے آواز نکلنا مشکل ہو جاتی ہے۔ خیر تھوڑی بہت ہمت کر کے میں نے لیکچر شروع کیا۔ وقفہ وقفہ سے دیکھتا رہا کہ وائس پرنسپل صاحب موجود ہیں یا چلے گئے۔ تھوڑی دیر میں یقین ہو گیا کہ ان کے جانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے تو اندر سے ڈر بھی خود ہی ختم ہو گیا۔ جو چند شمعِ علم کے پروانے موبائل کی روشنیوں سے آنکھیں سینک رہے تھے ان پر اپنے علم کی ندیاں بہائیں۔ اندھیرے میں پانی پینے کے چکر میں میز سے ہاتھ ٹکرا گیا اور موبائل گر پڑا تو اٹھا کر بچوں کو تسلی دے دی کہ آج انٹرنیٹ میں مسئلہ ہے جس پر ان بیچاروں نے یقین بھی کر ہی لیا ہو گا۔ جیسے تیسے لیکچر مکمل کیا۔ لیکچر ختم ہونے کے بعد واٹس ایپ کھولا تو وائس پرنسپل صاحب کی طرف سے میسج آیا ہوا تھا “ایکسیلنٹ”۔

میرے خیال میں تو یہ کرونا لاک ڈاؤن کا اپنا ایک اعجاز ہے کہ آپ ایسے حالات میں گھر پر اندھیرے کمرے میں بیٹھ کر اس طرح لیکچر دے کر بھی ایکسیلنٹ کا کمنٹ حاصل کر سکتے ہیں۔ اس صورتحال کا بھی شکر ادا کیا جانا چاہیئے۔ آپ کا کیا خیال ہے؟

Muhammad Bilal

I am assistant professor of biology at Govt. KRS College, Lahore. I did my BS in Zoology from University of the Punjab, Lahore and M.Phil in Virology from National University of Sciences and Technology, Islamabad. I am Administrator at EasyLearningHome.com and CEO at TealTech