یہ ایک اسپیشل قسم کا مقبول عام کھانا ہے جو دال اور چاول ملا کر پکاتے ہیں۔ اب دال مسور بھی ہو سکتی ہے، تور بھی یا مونگ بھی۔ یہ پکانے والی کے میاں کی جیب پر منحصر ہے۔ جو دال سستی ہے، کھچڑی اسی کی بنے گی یعنی یہ سارا کھیل جیب کا ہے۔

کھچڑی، حیدرآبادی ناشتے کی میز کی آن بان شان ہے۔ بریانی، بگھارا، تہاری، قبولی کے درمیان یہ اپنی انفرادیت یوں برقرار رکھتی ہے کہ اسے کھانے والا بغیر کسی سالن کے، محض اس کی خوشبو پر نثار ہو کر والہانہ ٹوٹ پڑتا ہے، بقول شاعر ع

کیا کسی پکوان میں ہوگا جو مزا کھچڑی میں ہے

ویسے اگر تھوڑا سا گھی اوپر چھڑک دیا جائے تو سونے پہ سہاگا، سب رال ٹپکاتے بول اٹھیں کہ ایسی کھچڑی بھی یارب بس حیدرآباد میں کھائی جائے ہے۔

بڑی بوڑھیاں بوجہ خار کھاتی ہیں جو کھچڑی کو کاہل عورت کی نشانی کہتی ہیں۔ اور کوئی کوئی کمبخت تو اسے بیماروں کے پرہیزی کھانے کا نام دے جاتا ہے۔ یہ سب ان بدذوقوں کا دلی بغض ہے۔ ورنہ کہاں راجہ کھچڑی اور کہاں تیلی خشکہ؟

کھچڑی کے ساتھ ایک محاورہ بھی جڑا ہے۔ محاورہ بولے تو کہاوت، proverb

کھچڑی کے ہیں چار یار
کھٹا، قیمہ، پاپڑ، اچار

کھٹا، املی کے کھٹے پانی نما سالن کو بولتے ہیں، جس میں کتری ہوئی پیاز اور زیرہ مع رائی بگھار کر ڈال دیا جاتا ہے۔ ویسے یہ “کھٹا” تقریباً ہر حیدرآبادی سالن میں پڑتا ہے۔ اسی سبب بیرون ملک حیدرآبادیوں کو “کھٹے” کے لقبِ مبارک سے سرفراز کیا جاتا ہے، ویسے ہی جیسے ہمارے پڑوسی پاکستانی “ناڑے” کا خطاب جھیلتے ہیں۔

تحریر ۔۔۔۔ . انیلہ بی بی .
یونیورسٹی پنجاب