• Post author:
  • Post category:Life

آم کے بارے میں حضرت غالب کہہ گئے ہیں

انگبیں کے بحکم ربّ الناس
بھر کر بھیجے ہیں سر بمہر گلاس​

 

مرزا غالب کا عقیدہ تھا کہ آم ہوں اور بہت سارے ہوں یہی عقیدہ ہمارا بھی ہے، صحرا میں پیاسے جیسے العطش العطش پکارتے ہیں اسی طرح غالب کے مقلدین جون جولائی کی گرمی میں الامبش الامبش پکارا کرتے ہیں۔

میں نے ایک ولایتئے سے پوچھا وہاں آم کیا کلو ملتے ہیں، اس نے حیرت سے کہا کلو؟ … بھیا وہاں ہر آم پہ ٹیگ لگا ہوتا ہے، ایک لے کے کھا لیں، زیادہ طلب ہو تو ایک اور لے کے کھا لیں، وہاں کلو کا کوئی حساب نہیں بلکہ کیلوریز کا حساب ہوتا ہے۔

ہمارے ہاں فراوانی اتنی ہے کہ بڑی بالٹی میں آم ڈالتے ہیں پھر پانی، پھر چارپائی کنارے بیٹھ کر اسی میں پاؤں ڈال لیتے ہیں اور رکتے اس وقت ہیں جب بالٹی کا پیندا یا اپنے پاؤں نظر آنے لگیں، ہمارے ہاں اتنی ساری کیلوریز ہضم کرنا بھی کوئی مشکل بات نہیں بس ایک بار بیوی سے جھگڑا ہو جائے تو دو کلو مزید آم کھانے کی گنجائش پیدا ہو جاتی ہے اور اگر بیوی سے محبت ہو تو منا پیدا ہونے کی گنجائش نکل آتی ہے۔

شاعروں کو محبت میں جس قدر رقیب زہر لگتا ہے اسی قدر آم خوری میں ہمیں شراکت دار برا لگتا ہے بلکہ بموقع امب خوری ہمیں رقیب برداشت ہے نہ دوست، اس مبارک موقع پر نہ کوئی رقیب ہو نہ کوئی قریب ہو تو ہی آم کھانے کا مزا ہے۔

مرزا غالب اور صاحباں والے مرزا جہاں ایک ہی خاندان کے چشم و چراغ تھے وہاں ان کا ذوق بھی کچھ مختلف نہ تھا، مرزا غالب کو صرف آم پسند تھے لیکن مرزا صاحب کو چوری کے آم پسند تھے، مرزا غالب آم گھر لے آتے تھے جبکہ مرزا صاحب جنگل کی طرف لے جاتے تھے، مرزا غالب کو موسم کے بعد آم میسر نہیں ہوتے تھے لیکن مرزا صاحب کو سارا سال یہ سہولت میسر رہتی تھی، بلآخر یہی اوور ڈوز ہی ایک دن ان کی جان بھی لے گئی۔

آم کھانے میں سب سے اہم کام آم کو پولا کرنا ہے، یہ بہت آرٹسٹک کام گردانا گیا ہے، زرا سی بے احتیاطی سے آم پولا ہونے کی بجائے ایسے پچک جاتا ہے جیسے کوئی سہانا سپنا اچانک ٹوٹ گیا ہو، آم پولا کرنا کب، کیسے، کہاں اور کس نے ایجاد کیا اس کی تاریخی حیثیت پر ایک نظر ڈالتے ہیں

آم پولا کرنا ایک مسلمان بھینسدان نے ایجاد کیا تھا جس کا نام نجم الدین، کنیت آمبروسا اور لقب بھینسدان تھا، نجم الدین آم بروسا بھینسدان کا اصلی وطن ترکی تھا، ترک امیر البحر خیرالدین باربروسا آپ کے گرائیں تھے اس لئے انہوں نے آپ کی برکت سے اپنا نام باربروسا رکھا تھا، بچپن میں کسی کو پتا نہیں تھا آمبروسا بڑے ہو کر کتنا بڑا کارنامہ سرانجام دیں گے لیکن اپنی والدہ محترمہ کی دعاؤں سے آپ نے ایکدن وہ کچھ کر دکھایا جو اس سے پہلے کسی سے نہ ہو سکا بلکہ آج اس کارنامے پر ساری ہندوستانی قوم کا منہ اور سر فخر سے لتھڑا ہوا ہے,

نجم الدین آمبروسا بچپن ہی سے انتہائی ذہین اور درویش صفت انسان تھے اس لئے آپ قسطنطنیہ کے مضافات سے بھینسیں چُرایا کرتے تھے، آپ کے پاس چونکہ ہر ورائیٹی کی بھینس موجود ہوتی تھی اس لئے کوتوال شہر نے آپ کو بھینسدان کا لقب عطا کیا تھا، ایک بار جب آپ کے پاس دس سے زیادہ بھینسیں اکٹھی ہوگئیں تو انہیں سنبھالنا دن بدن مشکل ہوتا جا رھا تھا لہذا اپنی بھینسیں بیچنے کی غرض سے ایک قافلے کے ساتھ آپ اناطووووووولیہ کی منڈی مویشیاں چلے گئے، وہاں جا کر پتا چلا کہ راتوں رات ترکی کا بادشاہ بدل گیا ہے اور نئے بادشاہ نے اعلان کیا ہے کہ سب آلتو فالتو لوگ میری سلطنت سے باہر نکل جائیں ورنہ تین دن بعد ان سب کو حورم سلطان کی بھینٹ چڑھا کر ملکہ عالیہ والیہ وغیرہ کا صدقہ اتار دیا جائے گا، چنانچہ اس اعلان کو سن کر آپ تبلیغ کی غرض سے ہندوستان تشریف لے آئے۔

آپ کو پہلے سے پتا تھا کہ ہندوستان میں اس کام کیلئے کافی کھلی جگہ میسر ہے اس لئے آپ نے یہ بات ٹھان رکھی تھی کہ توبہ کے بعد ایک دن وہاں جا کر تبلیغ کیا کروں گا لیکن قدرت کو کچھ اور ہی مقصود تھا اس لئے وہ وقت بہت جلدی سر پہ آگیا اور آپ کو ہندوستان جانا پڑا، یہاں پہنچ کر تھکاوٹ کے پیش نظر ابھی آپ نے تبلیغ کا کام شروع نہیں کیا تھا کہ آپ کو آم کے ایک باغ میں مالی کا عہدہ پیش کر دیا گیا جو آپ نے مالک کا دل رکھنے کیلئے دو وقت کی روٹی کے عوض خوشدلی کے ساتھ قبول کرلیا۔

ایک دن آپ حسب معمول آم کے باغ میں لیٹے ہوئے کچھ ایسا کرنے کا سوچ رہے تھے جس سے آپ کا نام رہتی دنیا تک قائم رہے نیز آپ کے والدین کا نام بھی روشن ہو جائے، پھر آپ کی والدہ محترمہ کی دعاؤں سے وہ لمحہ بھی آگیا کہ اتنے میں ایک پکا ہوا آم آپ کے سر کے بلکل پاس آکر گرا، آپ نے اٹھ کر سب سے پہلے تو خدا کا لاکھ لاکھ شکر ادا کیا کہ آپ کا سر زخمی ہونے سے بچ گیا ہے۔

بعد ازاں آپ نے غور سے دیکھا تو چوٹ لگنے سے وہ آم ایک طرف سے پولا ہوا پڑا تھا چنانچہ آپ نے اپنی ذہانت سے فوری طور پر یہ بات محسوس کرلی کہ اگر اسے چاروں خانے چِت یعنی چاروں طرف سے پولا کر دیا جائے تو اس میں موری نکال کے اس کا جوس باآسانی پیا جا سکتا ہے لہذا آپ نے موقع غنیمت جان کر اسے باقی اطراف سے بھی پولا کرکے رکھ دیا۔

پھر وہ آم لے کر باغ کے مالک کو دکھانے کیلئے سرپٹ بھاگتے ہوئے آپ اس کے گھر پہ پہنچ گئے، وہاں آپ نے اس طریقہ کار کی تفصیلات بتائیں اور آم کے اوپری حصے میں موری نکال کے بھی دکھائی نیز آپ نے یہ بھی واضع کیا کہ آم کے اوپر یہ جگہ بنیادی طور پر موری نکالنے کیلئے ہی بنی ہے جبکہ شاخ کے ساتھ آم کو لٹکانے کا کام بھی اسی جگہ سے اضافی طور پر لیا جاتا ہے۔

باغ کے مالک نے آپ کے ہاتھ سے آم لے کر چوپا تو اسے بہت نرم اور میٹھا لگا جبکہ اس طریقے کار میں اسے وہ سہولت بھی نظر آئی جو عام طریقوں میں نظر نہیں آتی تھی، اس شاندار ایجاد پر مالک نے وہ باغ آپ کے نام کر دیا اور خود فقیری اختیار کرلی تاکہ مفاد عامہ کیلئے آپ اس کام پر مزید تحقیقات جاری رکھ سکیں، یوں نجم الدین آمبروسا نے اس نئے سائنسی قانون کی بنیاد ڈالی اور اس کا سہرا اپنے سر پر باندھ لیا۔

ابتدا میں اس طریقہ کار کو آم پولا کرنا ہی کہتے تھے لیکن برصغیر میں آمد کے بعد ایک انگریز محقق نے اسے مینگو پولیفیکیشن کا نام دیا اور اس طریقے کو اپنے نام سے رجسٹرڈ کروانے کی بھونڈی سی کوشش بھی کر ڈالی لیکن برصغیر کی غیور عوام اس سازش کے خلاف متحد ہو کر اٹھ کھڑے ہوئے اور انگریز سائنسدان کے آگے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر بھرپور احتجاج کیا یہاں تک کہ اس گھناؤنی سازش پر پانی پھیر دیا گیا، انگریزوں سے آزادی حاصل کرنے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ وہ آم پولا کرنے کو اپنے نام سے منسوب کرانا چاہتے تھے اس لئے برصغیر والوں نے انگریزوں کو بلآخر اپنے وطن سے ہی باہر نکال دی

یہ قانون منظر عام پر آنے کے بعد اہل مغرب پر مسلمانوں کی دھاک ایک بار پھر سے بیٹھ گئی، جب اس طریقہ کار کی شہرت بلادِ غرب تک پہنچی تو وہاں کے سائنسدان اس بات پر سخت حیران ہوئے کہ فروٹ سے کوئی قانون کیسے ایجاد کیا جا سکتا ہے، یہ وہ دور تھا جب مغربی سائینسدان مسلمانوں کی نقلیں کرکے دھڑا دھڑ نئے نئے قوانین ایجاد کر رہے تھے، انگریز سائنسدان اس ایجاد پر اسقدر حیران تھے کہ کئی دن تک کسی نے کچھ بھی نہ “پیا” بلکہ انگشت بدنداں ہو کر صرف پیٹیز کھاتے رہے، پھر وہ سب آپس میں سر جوڑ کر بیٹھ گئے تاکہ وہ بھی فروٹ سے کوئی قانون ایجاد کر سکیں، بلآخر نیوٹن نامی ایک جیلس قسم کے سائینسدان نے آمبروسا کی نقل کرتے ہوئے سیب گرنے کو بنیاد بنا کر کشش ثقل کا قانون دریافت کر ڈالا۔

اس ایجاد کا توڑ کرنے کیلئے چند سال بعد لاھور کے ایک بندے نے کششِ شکل کا قانون بنا کر ایک بار پھر مسلمانوں کی انگریزوں پر برتری کو ثابت کر دیا تاہم اس قانون کو خفیہ رکھنے کیلئے اسے پؤنڈی کا نام دیا گیا تاکہ اس کی نقل نہ بن سکے یہی وجہ ہے کہ ایک طویل عرصے تک کششِ شکل سے مسلمانوں کا بچہ بچہ بلکہ بچی بچہ سب واقف تھے سوائے انگریز کے، پھر جب کسی طرح سے انگریزوں کو اس قانون کی بھنک پڑ گئی تو ان لوگوں نے اس کے مقابلے میں کپڑے نہ پہننے کا قانون بنا ڈالا، اس قانون کا عملی مظاھرہ دیکھنے کیلئے مسلمانوں کی ایک بڑی ni چڑھتے دکھائی نہیں دیتی، امید ہے کہ کوشش البتہ جاری رہے گی

تحریر: عشاہ نود
پنجاب یونیورسٹی