زندگی کے بہت سے مرحلوں سے گزرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچی ہوں کہ محبت بھی ہوش و حواس میں رہ کر کرنی چاہیے کسی ایک شخص یا کسی ایک چیز کے پیچھے پاگل نہیں بننا چاہیے۔
اکثر لوگ اپنے محبوب کے پیچھے یوں دیوانے ہو جاتے ہیں کہ انہیں لگتا ہے کہ اِنکی زندگی کا بس ایک یہی مقصد رہ گیا ہے، ان میں سے بہت سے لوگ اپنے مقصد میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور کئی ناکام ہو جاتے ہیں، اور جو ناکام ہو جاتے ہیں ان میں سے کوئی شرابی بن جاتا ہے کوئی پاگل ہو جاتا ہے اور کچھ لوگ ایسے سمجھدار بھی ہیں جو کہہ دیتے ہیں کہ ” چلو یہ نہیں تو کوئی اور سہی” ایسے لوگ مجھے بہت پسند ہیں۔
ویسے تو انسان کو اپنی پہلی آرزو یا پہلی محبت کو بھولنا نہیں چاہیے کیوں کے اس کے لیے اس نے بہت سے خواب سجائے ہوتے ہیں۔ لیکن پہلی محبت میں ناکامی کو اپنی زندگی کی ناکامی سمجھنا بھی پاگل پن ہی ہے۔
کچھ تو ایسے نادان بھی ہیں جو اپنی ناکامی پہ خودکشی کرنے کا سوچ لیتے ہیں، کئی خودکشی کر بھی لیتے ہیں۔ مثلاً ، اگر کسی کی بچپن سے یہی آرزو ہو کہ وہ بڑا ہو کر ڈاکٹر بنے گا لیکن اسے میڈیکل کالیج میں داخلہ نہیں ملتا تو وہ خودکشی کا سوچ لیتا ہے، بندہ پوچھے ارے بھئی خدا کے بندے کیا اس دنیا میں بس یہی کام رہ گیا ہے۔
بعض لوگ تو ایسے بھی ہیں کہ جو کہتے ہیں کہ فلاں شخص میری محبت ہے لیکن اس فلاں شخص سے ان کی کوئی شناسائی بھی نہیں ہوتی اور پھر ایسے لوگ سبزی کی ٹوکڑی اٹھا کر اس فلاں شخص کے گھر کے سامنے بیٹھ جاتے ہیں کہ وہ آئے گا اور مجھ سے سبزی خریدے گا اور وہ شخص جب باہر آتا ہے تو اس سبزی والے کو دیکھے بغیر ہی گزر جاتا ہے اور وہ سبزی کی ٹوکڑی اٹھا کر گھر چلا جاتا ہے کہ اگر اُس نے سبزی نہیں خریدی تو کسی کو بھی فروخت نہیں کروں گا، ارے بھئی خدا کے بندے اگر تو گھر سے سبزی فروخت کرنے ہی آیا ہے تو اُسے نہیں تو کسی اور کو ہی فروخت کر کے جا۔
میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ انسان کو ایک مقصد میں ناکامی کے بعد اس سے بھی اچھا مقصد ڈھونڈ لینا چاہیے، اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایک ناکامی کے بعد اس سے بھی بڑی کامیابی آپ کی دہلیز پہ ہو اور آپ پہلی ناکامی کے غم میں ڈوبے ہوں اور وہ دہلیز پہ آئی کامیابی بھی وہاں سے رخصت ہو جائے۔
اور بقول آتش
“یہ جنس مکرر اک نظر اس کو دکھا دیں گے
جو کوئی مشتری بازار عالم میں حسیں آیا”
اور میں بھی کسی خوبصورت منزل کی تجسس میں ہوں اور ہونا بھی چاہیے، کیوں کے جو لوگ اپنی ایک تمنّا کی خاطر اپنی زندگی برباد کر دیں تو وہ پھر جہالت ہی ہوئی اور ایسی جہالت کو نام محبت کا دے دیتے ہیں۔ اور کچھ ایسے بھی ہیں جو ناکامی کے بعد اپنے محبوب کو نقصان پہنچانے لگ جاتے ہیں کہ اگر میرا نہیں تو کسی کا نہیں، ارے بھئی محبت تو وہ ہوتی ہے جس میں عاشق اپنے محبوب کی خوشی کی خاطر محبوب کے محبوب کے لیے دعا مانگتا ہے۔
خیر بات کہاں سے کہاں تک پہچ گئی میں تو بس یہ کہہ رہی تھی کہ، محبت کریں پاگل نہ بنیں۔
تحریر: فلزہ مجید
پنجاب یونیورسٹی