رات خود نابینا ہے لیکن ایک فکر و سوچ رکھنے والے انسان کے لیے بہت کار آمد ہے۔ دن کی روشنی دنیا سے متعارف کرواتی ہے جبکہ رات اپنی ذات سے ملاتی ہے۔ رات کی بدولت ہی ہم اپنے قہقہے اور ہچکیوں کو دنیا سے پوشیدہ رکھ سکتے ہیں۔ زمیں پہ رہنے والا انسان آسمان کے کتنا قریب ہوتا ہے یہ اسکو رات کی تاریکی میں پتہ چلتا ہے۔
رات کی بہت سی تہیں اور پرتیں ہیں۔ رات کے انداز جدا جدا ہیں۔ کہیں کلب کہیں کلیسا اور کہیں کوٹھا آباد، کہیں مصنف کا خیال نثرکی منزل مراد، کہیں شاعر کا نظم بنتا خواب، کہیں شبنم کے موتیوں سے سجا گلاب، کہیں کتاب کے پلٹتے اوراق کہیں نہ بھولنے والےمناظر کے سیاق و سباق، کہیں لفظوں میں جھڑپ اور کہیں جسموں میں تڑپ، کہیں چہرے پہ تھکن اور کہیں بستر پہ شکن، کہیں مسجدوں میں رب کی یاد اور کہیں میخا نے آباد، کہیں سوتے میں دیکھنے والے سہانے خواب اور کہیں خوابوں کے ڈر سے نہ سونےوالی آنکھیں۔ کہیں آنسو کہیں قہقہہ ،کہیں سسکی کہیں آہٹ اور کہیں کُرلاہٹ۔
دن بہت سے تضادات کی یکسانیت کے حصول کے لیے ہے کہ ہر شخص اپنے چہرے پر ایسا چہرہ سجا لیتا ہے جو سب کو قابل قبول ہولیکن رات ہوتے ہی سب اپنا اپنا اصل روپ اپنا لیتے ہیں، گویا رات قید سے آزادی ہے۔ رات انسان میں چھپی رحمانیت اور شیطانیت دونوں کو رہائی عطا کرتی ہے۔ رات سفر میں کٹے یا حضر میں یہ جاگنے والے کو کچھ نہ کچھ لوٹاتی ہے۔ رات کو تاریکی کا استعارہ بنا دیا گیا۔ جبکہ رات تو پُر امید اور روشن ہے۔ ہر طرف پھیلی سیاہی کے باجود چمکتا چاند اور ٹمٹماتے ستارے اُمید کےپیامبر ہیں۔ چاند عاشق کی طرح بے چین و بے قرار لیکن منور، عاشق کروٹ بدلتا ہے تو چاند بھی کروٹ بدلتا ہے۔ عاشق کا ہمسفر بس چاند ہی تو ہوتا ہے۔ رات سرمایہ ہے اس کے لیے جس کے پاس خیال کی دولت ہے۔ رات خود جاگتی ہے اور دوسروں کو سلاتی ہے لیکن جاگنے والے کو بہت کچھ لوٹاتی ہے۔رات رب تعالیٰ سے تنہائی میں بات کرنے کا ایک اہم وسیلہ ہے ۔
تنہائی میں اپنے گناہوں کی معافی مانگنا بھی دلی راحت کا باعث ہے ۔ لیکن ان نعمتوں کا ہم کھبی فائدہ نہیں بھی اٹھاتے۔
رات آ کر گزر بھی جاتی ہے
اک ہماری سحر نہیں ہوتی۔
تحریر : انیقہ فاطمہ ۔
پنجاب یونیورسٹی ۔