سنہ 1942 میں البرٹ آئن سٹائن آکسفورڈ یونیورسٹی میں پروفیسر تھے۔ ایک دن انہوں نے اپنے فزکس کے آخری سال کے طالبعلموں کو ایک ٹیسٹ دیا۔ ٹیسٹ کے بعد ان کا اسسٹنٹ دوڑا دوڑا ان کے پاس آیا اور ہڑبڑا کر کہا کہ بہت بڑی غلطی ہو گئی ہے۔ آئن سٹائن کے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ یہ تو وہی سوال ہیں جو آپ نے اسی کلاس کو پچھلے سال بھی بعینہ ہوچھے تھے۔ آئن سٹائن نے تسلی سے جواب دیا “ہاں ہاں مجھے معلوم ہے کہ یہ وہی ٹیسٹ ہے”۔ اسسٹنٹ نے پوچھا “آپ نے ایسا کیوں کیا؟” تو آئن سٹائن نے جواب دیا، “سارے جواب تبدیل ہو چکے ہیں”۔ دوسرے لفظوں میں، جو جواب انیس سو اکتالیس میں، ایک سال پہلے، درست تھے اب وہ غلط تصور ہوں گے۔

آئن سٹائن کی یہ بات آج اور بھی اہمیت رکھتی ہے۔ ہم ایک ایسی دنیا میں رہتے ہیں جہاں سوال شاید ہمیشہ ایک ہی رہتے ہیں لیکن جواب تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں، جس راستے پر چل کر آپ یہاں تک پہنچے ہیں، شاید آگے وہ راستہ کام نہ آئے۔ اگر آپ کوئی ایسی چیز یا مقام حاصل کرنا چاہتے ہیں جو آج تک آپ حاصل نہیں کر سکے، تو آپ کو کچھ ایسا کرنا ہو گا جو آج تک آپ نے نہیں کیا۔ یہاں اصل سوال پیدا ہوتا ہے کہ واقعی حیران کن نتائج حاصل کرنے کے لئے ہمیں کیا کرنا ہو گا؟ کیا اس کا کوئی سیدھا سا راستہ یا طریقہ ہے؟ آپ کے لئے خوشخبری یہ ہے کہ اس سوال کا جواب “ہاں” ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ اکثریت ہمیشہ غلط راستہ کیوں چنتی ہے اور اپنی صلاحیتوں اور وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے آپ اپنے نصب العین کو کیسے حاصل کر سکتے ہیں۔

ہم شروعات ایک دلچسپ مشاہدے سے کرتے ہیں۔ لوگ، گروہ یا ادارے جب کسی مشکل میں پھنس جائیں جس سے نکلنے کا راستہ انہیں نہ ملے تو وہ دو میں سے ایک کام کرتے ہیں۔ یا تو وہ ایک ہی طرح سے بار بار کوشش کرتے جاتے ہیں، ہا پھر اسی طریقے پر چلتے چلتے تھک کر ہار مان لیتے ہیں اور کوشش سے باز آ جاتے ہیں۔ لیکن جو چیز اکثر دیکھنے میں نہیں آتی وہ یہ کہ لوگ ایک مسئلے کے حل کے لئے مختلف طریقے آزمائے۔ حیران کن طور پر، ریسرچ یہ بتاتی ہے کہ کسی مشکل میں پھنسنے پر صرف تین فیصد لوگ ہی نئے تجربات کی طرف مائل ہوتے ہیں جب کہ ستانوے فیصد لوگ اسی طرح دیوار سے ٹکریں مار مار کر ہلکان ہو جاتے ہیں۔

ایسا کیوں ہوتا ہے؟ اس مسئلے کو سمجھنے کے لئے ہمیں ایک اور سوال کا جواب ڈھونڈنا ہو گا۔ ہماری سوچنے کی صلاحیت کا اصل مقصد ہے کیا؟ اگر آپ کسی سائنس دان سے پوچھیں تو آپ کو جواب ملے گا کہ آپ تب تک سوچتے ہیں جب تک آپ کی سوچ ختم نہ ہو جائے، یعنی کوئی جواب نہ مل جائے۔ سوچنے کے عمل میں بہت زیادہ توانائی استعمال ہوتی ہے۔ جب بھی ہم سوچتے ہیں تو ہم کسی ایسے نقطے پر پہنچنا چاہتے ہیں جس میں کم سے کم توانائی لگے۔ ہم جلد از جلد کوئی جواب ڈھونڈ کر اپنی سوچ یا دماغ کے حل ڈھونڈنے کی کوشش کو روکنا چاہتے ہیں۔ اس کے بعد دماغ “آٹو پائلٹ موڈ” پر چلا جاتا ہے جس دوران وہ کام بغیر سوچے سمجھے کر رہا ہوتا ہے۔ کئی دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ آپ کچھ کر رہے ہوں تو اچانک آپ کو خیال آتا ہے کہ “اوہو، اتنا وقت گزر گیا، میں کہاں کھویا ہوا تھا”۔ اصل میں اس دوران آپ کے دماغ نے سوچنے کی صلاحیت کو کم ترین سطح پر رکھا ہوا تھا۔

ایک اور مثال اس کی یہ ہے کہ یہ مضمون پڑھتے ہوئے بھی آپ کا دماغ کم سے کم سوچنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس “آٹو پائلٹ موڈ” کو سائنس دان “دماغی قریب نظری” (mental myopia) یا “ٹنل وژن” (tunnel vision) کہتے ہیں۔ اگر آپ “ٹنل وژن” کا شکار ہیں تو یہ بہت بڑا مسئلہ ہے کیوں کہ اس کی وجہ سے لوگ اپنی کارکردگی کو ٹھیک طرح جانچنے کے قابل نہیں رہتے۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر لوگ ساری زندگی ایک جمود کا شکار رہتے ہیں۔ وہ ایک نکمے ریس کار ڈرائیور کی طرح ہوتے ہیں جو گاڑی چلا رہا ہے۔ جب وہ شیشے میں دیکھتا ہے تو اپنے پیچھے کوئی گاڑی نظر نہیں آتی جس کی سے وہ سمجھتا ہے کہ وہ سب سے بہت آگے نکل چکا ہے جب کہ حقیقت میں وہ سب سے پیچھے ہے۔ دوسرے الفاظ میں ہماری سوچ ایک ہی دائرے میں محدود ہوتی ہے۔ ہم اپنی زندگی کا پچانوے فیصد سے زیادہ حصہ اسی دائرے کے اندر سوچتے گزارتے ہیں۔

اگر آپ ایک دائرے کی شکل بنائیں تو آپ دیکھیں گے کہ اس دائرے کی ایک واضح حد ہے۔ ہماری سوچ ان حدود کے اندر بند ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر ایک حد قانون کی ہے۔ ہم میں سے اکثریت قانون کے دائرے کے اندر رہ کر سوچتے ہیں۔ بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اس دائرے سے باہر جا کر دوسرے لوگوں کی جیبیں کاٹنے والی سوچ رکھتے ہوں۔ آپ اپنا نیا کاروبار شروع کرنے کے لئے کسی بینک میں ڈاکہ ڈالنے کا نہیں سوچتے ہوں گے (امید تو یہی ہے)۔ ہم نہ صرف قانون کے دائرے کے اندر بلکہ اور بھی بہت سے دائروں میں بند رہ کر سوچتے ہیں۔ ہم ٹیکنالوجی کی حدود، طبیعاتی حدود، معاشی و معاشرتی حدود سے باہر رہ کر نہیں سوچ سکتے۔ ہم اخلاقی حدود کے بھی پابند ہوتے ہیں۔

ہم سب ہی اپنے ارد گرد موجود ان حدود میں رہتے ہوئے اپنے مسائل کے حل کی کوشش کرتے ہیں اور ہمیں لگتا ہے کہ ہماری سوچ بہت آزاد ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ دائرہ بہت تنگ ہے۔ مثلا اگر میں آپ سے پوچھوں کہ آج رات آپ کھانے میں کیا کھائیں گے تو اکثر کا جواب روٹی سالن ہوگا۔ کوئی برگر، پیزا کھانے کا شوقین ہو گا۔ شاید کسی کی خواہش کسی بہترین ریسٹورانٹ میں کسی بین الاقوامی ڈش کی ہو۔ لیکن آپ میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں ہو گا کہ ہاتھ کھڑا کر کے یہ کہے کہ اس کا موڈ آج ہائی وے کے کنارے جا کر کسی گاڑی سے ٹکرا کر مرے ہوئے جانور کے تکے کھانے کا ہے۔ ہمیں اس خیال سے ہی کراہیت آتی ہے لیکن اس کے برعکس دنیا میں بہت سے لوگ اسی طرح اپنی خوراک حاصل کرتے ہیں! ان کے لئے اس میں کوئی برائی نہیں۔

اس مثال سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ جس دائرے میں ہم سوچ رہے ہیں وہ بہت ہی چھوٹا ہے۔ اگر آپ اپنے شعبے، صنعت یا کاروبار کو دھیان سے دیکھیں تو یہاں بھی آپ کی سوچ بہت چھوٹے سے دائرے میں محدود نظر آئے گی۔ آپ اپنے شعبے کے پہلے سے طے کردہ معیارات اور معمولات کے مطابق کام کرتے ہیں۔ مثلا اگر آپ ایک ریستوران چلاتے ہیں تو اس کا عمومی طریقہ کار یہ ہے کہ آپ کھانا تیار کرتے ہیں، لوگ آ کر بیٹھتے ہیں، کھانا کھاتے ہیں، پیسے دیتے ہیں اور چلے جاتے ہیں۔ ایک اور مثال یہ کہ اگر آپ بینک میں کام کرتے ہیں تو لوگ آکر آپ کو پیسے پکراتے ہیں، آپ ان کا شکریہ ادا کرتے ہیں، اور وہی پیسے کسی اور کو ادھار دے دیتے ہیں!

ہر شعبے کے اپنے اپنے عمومی قواعد اور طریقہ ہائے کار ہیں۔ سب ان طریقوں پر کاربند ہیں اور جب تک آپ ان اصولوں پر چلیں تو ایک مخصوص طریقے سے آپ کو بھی وہی نتائج ملیں گے جو دوسروں کو اس طریقے پر چل کر ملے ہیں۔ اس کا منطقی نتیجہ یہ ہے کہ اگر آپ دوسروں سے مختلف یا حیران کن نتائج لینا چاہتے ہیں تو آپ کو کام بھی دوسروں سے مختلف اور حیران کن کرنے ہوں گے۔ لیکن آپ اپنے آپ کو اس دائرے سے باہر کیسے کھینچ کر نکال سکتے ہیں؟ آپ کو اپنی انڈسٹری، اپنے شعبے کے اس آرام دہ، پرسکون دائرے سے باہر نکل کر جدت کے اتھاہ گہرے سمندر میں غوطے لگانے ہوں گے۔ لیکن ایسا کیسے کیا جا سکتا ہے؟

آئیے ہم لندن کے ٹیکسی ڈرائیوروں کے دلچسپ معاملے کو دیکھتے ہیں۔ اگر آپ لندن میں ٹیکسی کی کمپنی چلانا چاہیں تو آپ کو ایسے تجربہ ڈرائیور چاہیئیں جو پورے شہر کی سڑکیں اور گلیاں زبانی یاد رکھ سکیں۔ اس چھے میل کے دائرے کے شہر میں ساٹھ ہزار گلیاں اور سڑکیں اور ایک لاکھ سے زیادہ اہم کاروباری مقامات ہیں۔ پورے شہر کے اس علم کو اپنے ذہن میں سمونے میں کئی سال لگ جائیں گے۔ لیکن تجربہ کار ڈرائیور مشکل سے ملتے ہیں اور زیادہ تنخواہ مانگتے ہیں۔ اگر آپ اپنا کاروبار تیزی سے ترقی کی منازل تک لیجانا چاہتے ہیں تو یہ ایک بڑا مسئلہ ہے۔ لہذا کمپنی مالکاں نے سوچا کہ وہ کیسے نئے ٹیکسی ڈرائیور بھی بھرتی کریں اور ان کو لندن شہر کے بارے میں سیکھنے میں وقت بھی نہ لگے۔ انہوں نے اس مسئلے کا حیران کن حل نکالا۔

انہوں نے دو طرح کی ٹیکسیاں بنا لی۔ ایک وہ جو عام ٹیکسی تھی اور دوسری وہ جس کے اوپر بڑا بڑا کر کے لکھا تھا “اس ڈرائیور کو لندن شہر کے بارے میں کچھ نہیں پتہ، لیکن وہ آپ کی ہدایات پر عمل کرنا چاہے گا”۔ حیران کن طور پر یہ بہترین حکمت عملی ثابت ہوئی۔ کیونکہ اب لندن کے رہائشی (جو گلیوں اور سڑکوں کے بارے میں جانتے تھے) ان ٹیکسیوں کی طرف کھنچنے لگے جہاں وہ ٹیکسی والے کو اپنی مرضی کے راستے پر لے جا سکتے تھے۔ بہترین! یہ کہانی بہت معصوم اور دلچسپ محسوس ہوتی ہے لیکن اس سے حاصل ہونے والا سبق انمول ہے۔ کیونکہ اس سے ہمیں معلوم ہوا کہ دوسروں سے محتلف رزلٹ حاصل کرنے کے لئے آپ کو اپنے شعبہ کے طریقوں سے ہٹ کر چلنا ہو گا۔

آپ کو بہت سی جگہوں پر یہی اصول بار بار کار فرما نظر آئے گا۔ مثلا ایک فرنیچر بنانے والی کمپنی نے فیصلہ کیا کہ وہ فرنیچر کو اسیمبل نہیں کرنا چاہتی، تو Ikea وجود میں آئی۔ اسی طرح کمپیوٹر بیچنے والی ایک کمپنی جس کے بے تحاشہ سٹور تھے، نے فیصلہ کیا کہ سٹور چلانا بہت مہنگا پڑ رہا ہے اور اس نے اپنے سٹور ختم کر دیے۔ آج آپ اس کو Dell (کمپوٹر بنانے والی کمپنی) کے طور پر جانتے ہیں۔ خواتین و حضرات، اس کا مطلب یہ بنتا ہے کہ راتوں رات امیر ہونا ایک پاگل پن ہے اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ دیکھا جائے کہ دوسرے کیا کر رہے ہیں اور پھر وہ کام بالکل نہ کیا جائے۔

جب آپ یہ سمجھ جائیں گے کہ اکثریت ہمیشہ غلط ہوتی ہے اور بہترین رزلٹ کا راز یہ ہے کہ ایک ہی طریقے پر چلنے کے بجائے جدت کو اپنایا جائے۔ رومی بادشاہ مارکس آریلئس نے ایک دفعہ کہا تھا کہ “زندگی کا مقصد یہ نہیں کہ وہ کیا جائے جو سب کرتے ہیں، بلکہ زندگی کا مقصد یہ ہے کہ اس دائرے سے نکل کر پاگل پن کی حدوں کو عبور کیا جائے”۔ اگر آپ کچھ ایسا کر رہے ہیں جو باقی سب بھی کرتے ہیں اور آپ اپنے کیے پر خود حیران نہیں ہوتے تو آپ شاید جمود کا شکار ہو گئے ہیں۔ اسلئے بہترین نتائج لینے کے لیے اس اصول کو اپنائیں کہ اکثریت ہمیشہ غلط ہوتی ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ تین فیصد لوگ دماغ کی بنائی ان حدود سے باہر نکل کر شاندار نتائج تک پہنچتے ہیں۔ آپ سب بھی ان تین فیصد کا حصہ بن سکتے ہیں۔ آج ہی فیصلہ کیجئے کہ اپنے شعبہ کے عام طریقہ کار کو بدلیں گے اور اس میں جدت لائیں گے۔

دوسرا راستہ ظاہر ہے یہی ہے کہ ستانوے فیصد جمود کا شکار لوگوں کا حصہ بن جائیں، جو ان تین فیصد کی نوکری کرتے ہیں۔ انتخاب آپ کی مرضی پر منحصر ہے۔

سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں
ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں

تحقیق: Paul Rulkens

ترجمہ: محمد بلال

Why the majority is always wrong | Paul Rulkens | TEDxMaastricht

Muhammad Bilal

I am assistant professor of biology at Govt. KRS College, Lahore. I did my BS in Zoology from University of the Punjab, Lahore and M.Phil in Virology from National University of Sciences and Technology, Islamabad. I am Administrator at EasyLearningHome.com and CEO at TealTech