مجھے پتا نہیں کیا ہو گیا ہے۔ میں ایدھیؒ صاحب کا نام سنتی ہوں، ان کی تصویر دیکھتی ہوں، ان کی باتیں یاد کرتی ہوں تو حالت غیر ہو جاتی ہے۔ سینہ سانس کے لیے تنگ محسوس ہونے لگتا ہے، گلے میں آگ ابلتی ہوئی معلوم ہوتی ہے، آنکھیں بھر آتی ہیں مگر رونے کو جی نہیں چاہتا۔ شاید آپ پر کبھی ایسی غم کی کیفیت طاری ہوئی ہو جس میں آنسوؤں سے اعتبار اٹھ گیا ہو۔ شاید آپ سمجھیں کہ یہ میرا وہم ہے یا کوئی عارضی سی حالت ہے۔ ہرگز نہیں۔ میں واقعی ایدھیؒ صاحب کے لیے نہیں روئی۔ مگر ہر بار کیفیت ایسی ہو جاتی ہے جیسے میرے ناتواں جسم میں کوئی دیو سما گیا ہو جو آزاد ہونے کے لیے پوری قوت صرف کر رہا ہو۔ شاید لوگ اس کیفیت میں دھاڑیں مار کے روتے ہیں۔ مگر مجھ میں تو یہ تاب بھی نہیں۔

میرے اندر سمایا ہوا کرب کا دیو خدا جانے کب تک باہر نہ نکل سکے۔ میں چاہتی ہوں اور بڑی شدت سے چاہتی ہوں کہ میں یکبارگی پھٹ جاؤں۔ میرے سینے سے ایک ایسی فغاں نکلے جو صورِ اسرافیل کی طرح نظامِ ہست و بود کا اور خود میرا شیرازہ بکھیر کے رکھ دے۔ پھر اگر نئے سرے سے آفرینش ہو تو نہ ایدھیؒ ہو اور نہ ایدھیؒ کا غم۔ بلا سے میں بھی نہ ہوں۔ مجھے بخوبی علم ہے کہ یہ فغاں مجھ میں بھری ہوئی ہے۔ مگر مجھے یہ خبر نہیں کہ یہ برآمد کیونکر ہو گی۔

اس سے پہلے ایک بار ہی ایسا ہوا تھا۔ ابو فوت ہوئے تھے۔ میں بہت روئی۔ اتنا کہ حواس کھو بیٹھی۔ پھر مہینوں بعد جب دماغ کا فعل بحال ہوا تو معلوم ہوا کہ ابو کے غم کا دیو میری کھال میں گھس گیا ہے۔ دن میں دو چار دفعہ نکلنے کو زور مارتا ہے۔ میں بھی چاہتی ہوں کہ ظالم سے خلاصی ہو۔ مگر ہم دونوں ایک جتنے مجبور ہیں۔ وہ نکل نہیں سکتا۔ میں پھٹ نہیں سکتی۔ میرا بدن ٹوٹ جاتا تھا۔ ہونٹ جلنے لگتے تھے۔ ہڈیاں سوکھی لکڑی کی طرح چٹخنے لگتی تھیں۔ معلوم ہوتا تھا زوروں کا بخار چڑھے گا۔ مگر نہیں چڑھتا تھا۔ دیو کو خدا جانے کس طاقت نے میرے اندر ہی باندھ ڈالا تھا۔ نہ بھاگا جائے ہے مجھ سے، نہ ٹھہرا جائے ہے مجھ سے!

سات آٹھ سالوں کے بعد میری حالت قدرے سنبھل گئی۔ دو چار سال عافیت میں گزارے۔ اور اب پھر وہی ناتوانی ہے اور وہی بدن کو پھاڑ ڈالنے کے درپے ایک غم کا دیو۔ طرہ یہ ہے کہ یہ غم ایدھیؒ کا ہے جس جیسے بھک منگوں کو میں نے زندگی بھر کبھی گھاس نہیں ڈالی تھی۔