عدم سے وجود میں آئے تو آنکھ ایک چارپائی پر کھلی ۔اماں کی گود کے بعد ایک چارپائی ہی تو ایسی تھی جس نے ہمیشہ اپنی محبت کی گود میں سُلایا جبھی سے اِسے ہم اپنی ساری دنیا سمجھنے لگے ۔اماں ہماری ننھی سی جان کو اس کے حوالے کر کے ہانڈی روٹی اور گھر کے کاموں میں جُت جاتیں اور ہم اِس پر پڑے ہوئے اسے گیلا ،پیلا کرتے اماں کے کے کاموں میں اضافہ کرتے رہتے اور خوشی سے قلقاریاں مارتے ۔ جب چلبلی عادتوں نے سر ابھارا تو اماں ہوشیار ہو گئیں ۔اور ہم ’چارپائی سے گِرا ۔۔۔۔۔۔۔جھولے میں اٹکا کی مثال پر صادق آئے اور اس کے بعد ہمارے دن چارپائی سے نیچے اور، راتیں چار پائی کے اوپر بسر ہونے لگیں جیسے جیسے زندگی اپنی رفتار بڑھا رہی تھی ویسے ویسے ہم چارپائی کے نزدیک آتے جا رہے تھے دن بھر کی مصروفیات اور تکان کے بعد یہ ہماری واحد جائے پناہ تھی جو کھلے دِل اور بندھے مونجھ کے ساتھ ہمیں اپنی آغوش میں سمیٹ لیتی اور یہ آغوش ہمیں اتنی نرم گرم اور بھلی لگتی کہ صبح اٹھ کر اسے چھوڑنا اور اسکول جانا ہمیں بہت بار گزرتا ۔۔۔

دو پڑوسنوں میں کمیونیکیشن کا واحد ذریعہ یہی چارپائی ہوا کرتی وہ اسے دیوار کے ساتھ کھڑا کر کے سیڑھی کا کام لیتیں اور ایک دوسرے کے گھر آنے جانے کا وقت بچا کر دو ،دو گھنٹے اس چارپائی کی بدولت ساری باتیں کر لیا کرتیں ، آج کیا پکائیں سے لے کر ،منّے کے ابا کے دکھڑے اور ساس نندوں کی چٹپٹی باتیں سب یہیں ہو جاتیں اس سے اُن میں ذہنی عدم توازن کی شکایات کا ازالہ ہو جاتا۔

ان سب کاموں سے چارپائی کا حلیہ خراب ہو جاتا اور اس کی مونجھ ڈھیلی پڑجاتی تو ہم بچوں کو اور بھلی لگتی اور ہم بشمول تمام محلے کے بچے اس جھلنگے میں خود کو گرا کر جھولے لیا کرتے اور دعا کرتے کہ ابا کو فرصت ہی نہ ملے کہ وہ اس کی ادوائن کس کے دوبارہ قابل استعمال بنائیں۔

چارپائی سے ہماری محبت کے قصے عام ہونا شروع ہوئے تو اماں نے سوچا جھٹ پٹ ہماری شادی کر دی جائے کہیں لوگ بیٹی کو سُست اور کاہل نہ سمجھ بیٹھیں مگر انھیں کیا معلوم تھا اس کی چاہ میں ہم کہیں کے نہ رہے تھے شادی کے بعد اتنے بڑے سُسرال میں ہمیں اس چارپائی نے بڑا سہارا دیا دس جنوں میں ہم اکلوتی بہو پہنچے تو گویا ہمارے ارمانوں پر اوس پڑ گئی لیکن باوجود اس کے بھی ہم چارپائی کی محبت کونہ بھول پائے ، بوڑھی ساس نے ہمیں دیکھ کر سُکھ کا سانس لیا مگر ہم نے بھی ٹھان رکھی تھی کہ ان کی زندگی میں تبدیلی ہرگز نہ آنے دیں گے اور بلا وجہ ان کے پہلے سے چلتے کامو ں میں خلل نہ ڈالیں گے تو جو جیسا تھا ویسا ہی رہنے دیا تاکہ سب خوش رہیں اور ہم بھی ۔۔۔۔:)

شادی کے بعد ہماراسارا دن ہمارا چارپائی پر گزرتا یا پھر اپنے ملنے ملانے والوں کے ساتھ باتوں میں آخر اخلاق بھی کوئی چیزہے ۔۔۔ 🙂

جیسے ہی شوہر کے آنے کا وقت ہوا اور ادھر ہم جھٹ اٹواٹی کھٹواٹی لئے پڑ رہے۔ہم نہیں چاہتے تھے کہ اس محاورے کو جلدبھلادیا جائے جو ہمیں اکثر اماں کی یاد دلاتا تھا ۔۔۔۔ و ہ ہمیں اکثر کوسنوں سے نوازا کرتی تھیں اور اٹواٹی کھٹواٹی پر لیکچر بھی ایسا جھاڑتیں کہ کیا کوئی پروفیسر جھاڑے گا بلکہ میں تو کہتی ہوں پروفیسروں کو کچھ سبق اماؤں سے بھی لینا چاہیے وہ زیادہ اچھا لیکچر دیتی ہیں ۔ اب پتا نہیں چارپائی سے ہماری محبت میں زیادہ شدت اسی موئے لیکچر سے شروع ہوئی یا کچھ دخل ہماری سُست طبیعت کا بھی تھا بہر حال جو بھی تھا ہمارے حق میں تو اچھا ہی تھا ۔۔۔ 🙂

ہم نے جانا کہ سو مسئلوں کا حال صرف ایک چارپائی ہے ۔۔۔ ہے بھلا اس سے بڑھ کر کوئی کام کی چیزتو بتلائیں ۔۔۔۔!!!