جب میری عمر دس برس ہو گی۔ امی نے سب بہن بھائیوں کے پیسے میرے ہاتھ میں تھما دیے۔ بڑی بہن ہونے کے ناتے میری ذمہ داری تھی کہ میں سب کو شاپنگ کراؤں۔ جھومتے جھامتے باہر نکلے۔ تھوڑی دیر بجٹ پر بالغانہ بحث ہوئی۔ پھر سب آئسکریم کھانے پر متفق ہو گئے۔ تین کونز خریدی گئیں۔ میں نے سب سے پہلے اپنی کون چاٹ کر اس کے ملکیتی حقوق محفوظ کیے اور باقی دو دونوں منجلے بھا ئی اور خالہ زاد کے حوالے کر دیں۔

ہمارا چھوٹا بھائی حسنین، جسے ہم حسن بلاتے ہیں، یہ تمام غیر اخلاقی حرکات تمام تر جزئیات کے ساتھ اپنی شارٹ ٹرم میموری میں محفوظ کر رہا تھا۔ اس نے طبلِ جنگ بجا دیا۔ ایک دل دوز چیخ کے ساتھ اس نے چھینا چھپٹی کی کوشش کی مگر نا کام۔ اس نے دھائیں دھائیں رونا شروع کر دیا۔ میں نے اسے بہتیرا سمجھایا کہ میاں اگر تمھیں دے دیتے تو ہم کیا کھاتے؟ مگر سفارتی تعلقات منقطع ہو چکے تھے۔

باقی دونوں نے ہمارے معاملات میں دخل دینا مناسب نہیں سمجھا۔ وہ اپنی اپنی آئسکریم کے ساتھ محفوظ مقامات پر منتقل ہو گئیں۔ کوئی چارہ نہ دیکھا تو میں نے بھائی کو کون کا نچلا دھڑ تھما دیا لیکن وہ خوش نہ ہوا۔ میں نے بھی جھگڑے پر لعنت بھیجی اور آرام سے آئسکریم کھانے لگی۔ بس اتنا ہی ہوتا ہے۔ اور کیا کر سکتی تھی میں؟ حسن گلی میں بیٹھا روتا رہا۔ میری آئسکریم ختم بھی نہ ہوئی تھی کہ ابو جان حسن پر جھکے ہوئے نظر آئے۔ پھر وہ میری طرف بڑھے۔ میرے اوسان خطا ہو گئے۔ ڈھیر ساری ڈانٹ پڑی۔ اور پھر ان گناہگار آنکھوں نے حسن کو دو کونز اکٹھی کھاتے بھی دیکھا۔

اس کہانی کا دوسرا رخ ماں جی سے روایت ہے۔ امی بتاتی ہیں کہ جب نیچے گلی میں (ہم چھت پر رہتے تھے) ہمارا جھگڑا ہو رہا تھا تو ابو نماز پڑھ رہے تھے۔ حسن کی چیخ سنائی دی تو ابو کو نجانے کیا ہو گیا۔ امی کو تب احساس ہوا جب انھوں نے ابو کو بار بار کھانستے ہوئے سنا۔ دوڑ کر پہنچیں تو ان کی آنکھوں میں آنسو تھے، گلے میں جیسے کچھ پھنسا ہوا تھا اور چہرہ متغیر تھا۔ پتا نہیں کیسے انھوں نے نماز مکمل کی اور دیوانہ وار دوڑ پڑے۔ امی کہتی رہ گئیں کہ آرام سے سیڑھیاں اتریں مگر ان کا دل زخمی تھا۔ کہاں رکتے تھے!

مجھے یاد ہے حسن کا ایک دفعہ ایکسیڈنٹ ہوا تھا۔ اس کی عمر اس وقت کوئی چار سال ہو گی۔ لیکن تب وہ بہت چھوٹا تھا۔ موٹر سائیکل رکشا سے ٹکرا گئی تھی۔ حسن کے پاؤں پر چوٹ آئی۔ ابو ایک نہایت قابل پولیس افسرتھے مگر ایمرجنسی کی صورت میں وہ رکشہ والے کو ان کی غلطی پر کچھ نہ کہ سکے۔ حسن کو لے کر ہسپتال گئے۔ ڈاکٹر صاحب مرہم پٹی کر رہے تھے کہ ابو کی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا۔ بیٹے کا خون نہ دیکھا گیا۔ ڈاکٹر صاحب ابو کے دوست تھے۔ لیکن یہ رنگ شاید انھوں نے پہلی بار دیکھا تھا۔

حسن ہم سب میں بھولا تھا۔ اور شاید اب تک ہے۔ ابو کا سب سے لاڈلا ۔ ابو اس طرح طرح کے نام رکھتے تھے۔ چھیڑتے تھے۔ یہ سب ہمارے ساتھ نہیں ہوتا تھا۔ کیونکہ ہم سب بڑے ہو گئے تھے۔ماں باپ ہمیشہ چھوٹے بچوں اور معصوم کو زیادہ پیار اور توجہ دیتے ہیں۔اور ذہین پر کم کیونکہ ان کو معلوم ہوتا کہ وہ اپنا خیال رکھ سکتے ہیں۔ بات بھی سچ ہے۔ ماں باپ ذہین بچوں کی قدر کرتے ہیں۔ ان کی تعلیم پر خرچ کرتے ہیں۔ زمانے کے سامنے ان پر فخر کرتے ہیں۔ ان سے امیدیں وابستہ رکھتے ہیں۔ لیکن ایک طرح کی بے فکری بھی ہوتی ہے۔ کہ یہ سمجھدار ہیں۔ اپنا رستہ خود بنا لیں گے۔ جان جن میں اٹکی ہوتی ہے وہ تو معصوم اور چھو ٹے ہوتے ہیں۔ ان کا خیال لازمی ہے ۔کیونکہ ان کو زمانے کے ساتھ ابھی چلنا نہیں آیا۔

تحریر :ملائکہ زین

پنجاب یونیورسٹی