اپریل یا مئی کا مہینہ تھا۔ گرمیوں کا موسم اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ آن پہنچا تھا۔ کالج میں طلبا کی تعداد تقریبا نہ ہونے کے برابر تھی۔ وہ مجھے ایک ہاتھ سے پکڑ کر قریب قریب کھینچتا ہوا سیڑھیوں کی جانب لے جا رہا تھا۔ میں لنگڑاتے ہوئے مشکل سے اپنا توازن سنبھالنے کی کوشش کر رہا تھا۔ میرے بار بار پوچھنے کے بعد بھی اس نے نہیں بتایا کہ ہم کہاں جا رہے تھے اور اتنی ایمرجینسی کیا تھی۔ میری اس سے پہلی ملاقات چند ہی دن پہلے اسلامیہ کالج ریلوے روڈ کی لائبریری میں غالبا مستنصر حسین تارڑ کا کوئی سفرنامہ پڑھتے ہوئے ہوئی تھی اور میں نے حسب عادت کوئی خاص بے تکلفی کا اظہار بھی نہیں کیا تھا لیکن شاید اس نے مجھے زبردستی یکطرفہ دوستی کے لئے چن لیا تھا۔ وہ کالج کے ان چند لڑکوں میں سے تھا جو شلوار قمیض پہن کر کالج آتے تھے۔ کالج میں اکثر لڑکے اس کو “مولوی” کے نام سے جانتے تھے جو شاید اس کے حال حلیے پر طنز تھا۔

سیڑھیوں پر بھی وہ مجھے ایسے ہی کھینچتا رہا اور جب وہ پہلی منزل آنے کے باوجود اوپر جاتا گیا تو میں نے ہلکی سی التجا کی کہ چھت کے دروازے کو تالا لگا ہوتا ہے لیکن اس کے کان پر جوں نہ رینگی۔ اس روز حیرت انگیز طور پر چھت کا دروازہ کھلا تھا یا شاید اس نے دروازہ کھولنے کا طریقہ ڈھونڈ لیا تھا۔ چھت پر پہنچ کر وہ ایک ٹوٹا سا سٹول ڈھونڈ لایا اور اس پر چڑھ کر ایک محراب میں ہاتھ ڈال کر ٹٹولنے لگا۔ نیچے اترا تو اس کے ہاتھ میں کبوتر کے دو چھوٹے چھوٹے بچے تھے۔ اس نے مجھے دکھایا کہ ان کی چونچ کسی بیماری کی وجہ سے خراب ہو گئی ہے اور اگر ان کو دوائی نہ دی گئی تو وہ کچھ دن میں بھوکے رہ کر مر جائیں گے۔ وہ روز کالج خالی ہونے کے بعد چھت پر جاتا ، ایک برتن میں پانی میں دوائی ملاتا اور ان کو زبردستی پلاتا۔ شاید دس پندرہ دن گزرے ہوں گے کہ اس نے مجھے دوبارہ وہ کبوتر دکھائے جو اب بالکل تندرست ہو چکے تھے۔

کچھ دن بعد میں نے کالج جانا بند کر دیا۔ مجھے پڑھائی میں کوئی خاص دلچسپی باقی نہیں رہی تھی اور کالج میں طلبا کی تعداد نہ ہونے کی وجہ سے اکثر کلاسز خالی جاتی تھیں۔ جب میں ہفتہ دس دن کالج نہ گیا تو اس نے شاید میرے کسی کلاس فیلو سے میرا نمبر لے کر مجھے کال کی اور نہ آنے کی وجہ پوچھی۔ میں نے حسب معمول بیماری کا بہانہ بنا کر فون بند کر دیا۔ لیکن میری حیرت کی انتہا تب ہوئی جب اگلی صبح وہ میرے گھر کے دروازے پر کھڑا تھا۔ مجھے حیرت اس بات پر تھی کہ یہ شخص مجھ سے اتنا فری کیوں ہو رہا ہے، حالانکہ میں نے اس سے دوستی کا کوئی اشارہ بھی نہیں دیا تھا۔ میں عموما اپنی کلاس کے علاوہ کسی کو دوست نہیں بناتا تھا۔ نہ اپنے محلے میں مجھے کسی لڑکے کا نام معلوم ہوتا تھا نہ خاندان میں۔ میں ہمیشہ سے اپنی ذات میں مگن رہتا تھا۔ لیکن یہ لڑکا زبردستی مجھ سے دوستی بڑھاتا جا رہا تھا۔ اس نے شاید مجھے کسی کتاب کا تعارف کروایا اور کہا کہ کل سے کالج میں بیٹھ کر ہم مل کر وہ کتاب پڑھیں گے۔ جس پر میں نے کالج جانے کی حامی بھر لی۔ آج تک مجھے سمجھ نہ آ سکا کہ اس نے مجھ میں کیا دیکھ کر دوستی کا ہاتھ بڑھایا تھا۔ میں نے زندگی میں اپنے جیسا بے مروت، ضدی اور جذبات سے عاری انسان کبھی نہیں دیکھا۔

یوں روز کالج جانا اور کلاسز بنک کر کے کسی لان یا برآمدے میں بیٹھ کر کتابیں پڑھنا ہمارا معمول بن گیا۔ ہر دوسرے تیسرے روز ہم کوئی نئی کتاب لائبریری سے نکلواتے اور گھنٹوں ایک دوسرے کو پڑھ کر سناتے۔ پتہ ہی نہیں چلا کہ کب ہم اچھے دوست بن گئے۔ اپنے سبجیکٹس سے تو مجھے کوئی دلچسپی باقی نہیں تھی لیکن تاریخ، جغرافیہ اور ادب میں دلچسپی اس کی وجہ سے بڑھنے لگی۔ اس نے بی اے کے امتحان دیے اور میں ایک دفعہ پھر گھر بیٹھ گیا۔ یہ وہ دور تھا جب میں اپنے مستقبل کے حوالے سے بالکل مایوس تھا۔

اسی دوران اس نے کسی دوست سے سنا کہ میرا داخلہ پنجاب یونیورسٹی میں ہو سکتا ہے۔ خود تو وہ گھریلو حالات کی وجہ سے اپنی تعلیم جاری نہیں رکھ سکتا تھا لیکن اس نے زبردستی چار مختلف شعبہ جات میں میرے داخلہ فارم جمع کروائے، میرٹ لسٹوں کی معلومات لیتا رہا اور جب میرا نام انٹرویو کے لئے لسٹ میں آ گیا تو زبردستی مجھے سائیکل پر بٹھا کر پندرہ کلو میٹر دور یونیورسٹی انٹرویو کے لئے لے گیا۔ اس کو ایک اور کبوتر اور دوا مل گئی تھی۔

یوں میرا داخلہ پنجاب یونیورسٹی میں ہو گیا جبکہ میری اپنی نظر میں میری حیثیت شاید کسی چوراہے یا بس میں رومال بیچنے کی بھی نہیں تھی۔ اسی دوران اس کی نوکری واپڈا میں ہو گئی۔ وہ چھٹی کے بعد حسب معمول مجھ سے ملنے یونیورسٹی آ جاتا اور ہم لائبریری میں بیٹھ کر کتابیں پڑھتے۔ ہر سمسٹر کے بعد وہ مجھ سے امتحان میں ٹاپ کرنے پر انعام کی شرطیں لگاتا، ہر دفعہ انعام کی رقم بڑھا دیتا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ آہستہ آہستہ میری پوزیشن کلاس میں بہتر ہوتی گئی یہاں تک کہ میرا شمار کلاس کے بہترین سٹوڈنٹس میں ہونے لگا۔ یوں اپنی لگن سے اس نے ایک ناکارہ بوجھ کو معاشرے کا ایک کارآمد شہری بنا دیا یہاں تک کہ میں پنجاب میں تیسری پوزیشن لے کر لیکچرار بن گیا۔

ان دنوں پاکستان میں لوڈ شیڈنگ اپنے عروج پر تھی اور جس جگہ اس کی پوسٹنگ تھی وہاں ماہانہ “اوپر کی آمدن” تنخواہ سے زیادہ ہوتی تھی جو پوری “ایمان داری” سے اسکے دفتر کے ملازموں میں بانٹی جاتی تھی۔ ایک دو دفعہ اس نے اپنا حصہ لینے سے انکار کیا تو سخت نتائج کی دھمکی دی گئی۔ مجبورا اس نے بھاگ دوڑ کر کے اپنا تبادلہ لاہور میں ایک ایسی جگہ کروا لیا جہاں “صرف تنخواہ” ملتی تھی۔ دن مہینے اور سال گزرتے رہے، اور وہ اپنے روئیے سے لوگوں کے دل میں جگہ بناتا گیا۔ ہر کسی سے مسکرا کر ملنا، ہنسی مذاق کرنا، کام آنا، رشوت نہ لینا، یہ سب اس کی فطرت کا حصہ تھا۔ کچھ روز پہلے میں اس سے ملنے اسکے دفتر گیا تو اس نے میرے لیے دوپہر کا کھانا منگوایا۔ اس وقت صرف دو لوگ ڈیوٹی پر تھے۔ ایک وہ اور ایک وہاں کا خاکروب اسحاق مسیح۔ کھانا کھاتے وقت وہ زبردستی جتنا سالن میری پلیٹ میں ڈالتا اس سے زیادہ اسحاق مسیح کو ڈال کر دیتا۔ ساتھ اس سے مذاق بھی کرتا جاتا کہ مہمان کی خیر ہے لیکن میرا چاچا زیادہ اہم ہے۔

میرا نہیں خیال کہ ہمارے یہاں کوئی بھی ایسا ہو گا جو واپڈا والوں سے خوش ہو۔ ہماری نظر میں وہ سب راشی، حرام خور، کام چور اور بد لحاظ ہوتے ہیں۔ میں نے اس روز تین چار گھنٹے گرڈ سٹیشن پر گزارے اور وہاں کے حالات دیکھ کر اندر سے کانپ گیا۔ اتنی سی دیر میں تین دفعہ بجلی کا بریک ڈاؤن ہوا (جو عموما پتنگ بازی یا ایسی ہی کسی غفلت کی وجہ سے ہوتا ہے)۔ ہر دفعہ بریک ڈاؤن پر گرڈ اندھیرے میں ڈوب جاتا اور درجنوں الارم چینخنے لگتے، کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی اور ملازموں کی دوڑیں لگ جاتیں۔ امجد کلمے اور درود کا ورد پڑھتا ہوا ایک ایک کر کے مشینوں کو دوبارہ چالو کرتا اور پھر گھنٹہ بھر فون پر افسران وضاحتیں دیتا کہ کہاں خرابی ہوئی اور کیا کیا نقصان ہوا۔ وہاں زیادہ تر مشینری سالوں پرانی اور اللہ توکل چل رہی تھی اور کئی ملازم ان مشینوں کو چلاتے یا ٹھیک کرتے جان کی بازی ہار چکے تھے۔ ہم کنڈیاں ڈالتے، پتنگ بازی کرتے شاید کبھی سوچتے بھی نہیں کہ اس حرکت سے کسی کی جان بھی جا سکتی ہے۔ ہماری غیر ذمہ داری کی وجہ سے ان کی جان ہر وقت سولی پر ٹنگی ہوتی ہے۔ ہماری نظر میں وہ غلط ہیں اور ہم ٹھیک۔

رمضان کی ستائیسویں رات تھی۔ امجد علی اور اسحاق مسیح کی ڈیوٹی رات آٹھ بجے شروع ہونی تھی۔ افطاری کے بعد امجد کے والد نے اپنی تینوں بہوؤں کو ہزار ہزار روپے عیدی دی۔ امجد حسب عادت اپنے والد سے جھگڑنے لگا کہ میں نے دوسروں سے زیادہ عیدی لینی ہے۔ پہلے دو ہزار، پھر پندرہ سو اور بالاخر ہزار روپے پر راضی ہو کر اور سارے گھر والوں کے چہروں پر مسکراہٹیں بکھیر کر ایک تکیہ اور ایک چادر بغل میں دبائی اور ڈیوٹی پر روانہ ہو گیا۔ ڈیوٹی پر پہنچ کر اس نے عثمان سے چارج لیا اور معمول کے مطابق کام شروع کر دیا۔ رات گزر گئی، اسحاق اپنے کمرے میں سونے چلا گیا۔ امجد سحری کے لئے ہاتھ دھونے گیا۔ ہاتھ دھو کر پلٹا ہی تھا کہ قریب ہی درختوں کی اوٹ سے عثمان باہر آیا جو رات آٹھ بجے سے موقع کی تاک میں چھپا بیٹھا تھا اور گھر واپس نہیں گیا تھا۔ ایک سال سے ہتھیار اٹھائے پھرتے بالاخر اسے آج وہ لمحہ میسر آ گیا تھا جس نے اس کو ذہنی مریض بنا دیا تھا۔ دفتر میں داخل ہوتے ہی اس نے امجد پر گولی چلا دی۔ وہ دو سال سے حسد کی آگ میں جل رہا تھا۔ اسکے خیال میں امجد کا یہ قصور کافی تھا کہ وہ سب میں مقبول اور معزز تھا، اور خود اس کو ایسی پذیرائی نہیں ملتی تھی۔ اس قصور کی سزا اس کی نظر میں موت تھی۔

گولی کی آواز سن کر اسحاق مسیح چاہتا تو اپنے کمرے کو اندر سے بند کر لیتا۔ لیکن اپنے پر خلوص دوست کی مدد کے لئے وہ فورا باہر نکلا۔ اٹھاون سالہ اسحاق نے جوان عثمان کو دبوچ کر بے بس کر دیا۔ دونوں کے درمیان کشمکش کافی دیر جاری رہی۔ لیکن بالاخر عثمان ایک دفعہ پھر ہتھیار چلانے میں کامیاب ہو گیا اور اسحاق مسیح  نے اپنی جان دوستی اور خلوص پر نچھاور کر دی۔

میری زندگی میں درجنوں دفعہ ایسے مواقع آئے جب لوگوں نے مجھے شدید تکلیف میں دیکھ کر آنسو بہائے، مدد کی پیشکش کی، یا پیسوں سے درد کا مداوا کرنا چاہا۔ مجھے ان کے خلوص پر کوئی شک نہیں ہے۔ لیکن سینکڑوں جاننے والوں میں واحد امجد ایسا انسان تھا جس نے باتوں اور آنسوؤں سے آگے بڑھ کر عملا میری تکلیف ختم کرنے کی کوشش کی۔ پہلی دفعہ جب وہ میرے لیے خون کا عطیہ دینے لیٹا تو اس کے ہاتھ پاؤں خوف سے کانپ رہے تھے اور وہ کوئی ورد پڑھ رہا تھا۔ میں نے اس کو روکنا چاہا کہ اس کی ضرورت نہیں، میرا گزارا ہو جاتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود اس نے خوف پر قابو پا کر خون کا عطیہ دیا اور بار بار دیا۔ اکثر لوگ اس خیال کو بھی قریب سے نہیں گزرنے دیتے۔ جس قوم میں لوگ اپنے سگے بہن بھائیوں کو خون دینے سے ڈرتے ہوں وہاں امجد جیسوں کو شاید مار ہی دینا چاہیئے!

بیس سال کی رفاقت میں میں نے کبھی اس کے منہ سے کسی کے خلاف، کسی کو تکلیف دینے، کسی کا نقصان کرنے کی بات نہیں سنی۔ اس نے اپنی دوستی سے مجھے دوسروں کے لئے فائدہ مند بننا اور حلال رزق کمانا سکھایا۔ میں آج جو کچھ بھی ہوں اس میں میرے والدین کے بعد سب سے زیادہ کردار امجد علی فرزند کا ہے۔ آج تک اگر کسی کو مجھ سے کوئی فائدہ ملا ہے تو یہ اللہ کے اس ولی کا فیض تھا۔ فیس بک پر اس کی آخری پوسٹ اپنے پیشے اور کام کی جگہ سے محبت کے متعلق تھی۔  وہی جگہ جہاں اس سے جینے کا حق چھین لیا گیا۔ میرے ساتھ آخری ملاقات میں اس نے اپنے بچوں کو زندگی میں “فئیر چانس” دینے کے بھرپور عزم کا اظہار کیا تھا جو شاید صرف وہی دے سکتا تھا۔ اللہ اس کو جنت میں اعلی مقام عطا کرے۔ سوگواران میں دو سال کی ایک بیٹی، دو بیٹے، بیوہ، بوڑھے والدین اور بہن بھائی شامل ہیں۔ اللہ لواحقین کو غم کا یہ پہاڑ برداشت کرنے کی ہمت دے۔ اللہ اس قوم کو ہدایت دے جس کی نظر میں چھوٹی چھوٹی باتوں کا جواب گولی نکلتا ہے۔

 

جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے سوا کسی اور وجہ سے قتل کیا اس نے گویا تمام انسانوں کو قتل کردیا

القرآن

Muhammad Bilal

I am assistant professor of biology at Govt. KRS College, Lahore. I did my BS in Zoology from University of the Punjab, Lahore and M.Phil in Virology from National University of Sciences and Technology, Islamabad. I am Administrator at EasyLearningHome.com and CEO at TealTech