تقریباً تین ہفتہ پہلے میری چھوٹی بہن کو بخار کی شکایت ہوئی، جیسا کہ عام طور پہ ہمارے گھروں میں ہوتا ہے کہ پیناڈول اور یخنی یا سوپ وغیرہ کے ساتھ گھریلو علاج شروع کردیا گیا، مگر بخار کی شدت میں کمی نہیں آئی تو پھر اسے محلے کے ڈاکٹر کے پاس لے گئے جس نے سب سے پہلے کورونا وائرس کا ٹسٹ کروانے کو کہا اور ساتھ ہی ایک اینٹی بائیوٹک استعمال کرنے کو دی۔ کورونا کا ٹسٹ کروایا ، وہ نیگیٹو تھا تو ہمیں تسلی ہوئی کہ کورونا نہیں ہے اور ساتھ ہی اینٹی بائیوٹک کا استعمال جاری رکھا مگر پھر بھی بخار کی شدت میں نہ تو کوئی کمی آئی اور نہ ہی مریض کی طبعیت میں افاقہ ہوا۔ ہفتہ کے اندر نوبت اسپتال میں داخل کروانے تک پہنچ گئی کہ بخار 104 تک چلا گیا تھا۔ اسپتال میں ہر طرح کے ٹسٹ کئے گئے تشخیص کی خاطر تاکہ بخار کی اصل وجہ کو معلوم کیا جاسکے مگر وجہ تھی کہ پکڑائی نہ دے رہی تھی ۔کیا ملیریا کیا ٹائیفائیڈ اور کیا کورونا جتنی بھی ممکنہ وجوہات ہو سکتی تھیں ان سب کے لئے ٹسٹ کئے گئے مگر کہیں سے بھی بخار اور انفیکشن کی وجہ کا کھوج نہیں مل پا رہا تھا۔
آخرکار ایک سٹروبیکٹر نامی جرثومہ کلچر ٹسٹ میں آیامگر صرف اس جرثومہ کا پتا چلنا بھی کافی نہیں تھا کیونکہ ایک عدد براڈ سپیکٹرم اینٹی بائیوٹک (براڈ سپیکٹرم وہ اینٹی بائیوٹکBroad spectrum ہوتی ہے جو کہ بہت سارے جراثیم پہ اثر انداز ہونے اور ان کی افزائش روکنے کی صلاحیت کی حامل ہوتی ہے، اس کے مقابلے میں نیرو سپیکٹرمNarrow Spectrum وہ ہوتی ہیں جو کہ کسی ایک یا چند ہی جرثوموں پہ اثر کر سکتی ہیں) تو پہلے ہی دی جارہی تھی مگر اس کا کوئی خاص اثر نہیں ہو رہا تھا۔ تشخیص کے اگلے مرحلے میں اس جرثومہ کے اوپر مختلف اینٹی بائیوٹکس ٹسٹ کی گئیں تا کہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ کونسی دوا اس کے خلاف مؤثر ثابت ہوگی۔ اس ٹسٹ کو عام طور پہ اینٹی بائیوٹک سیسپٹی بلیٹی پروفائیلAntibiotic Susceptibility Profile کہتے ہیں جس میں کسی بھی جرثومہ کی افزائش مختلف اینٹی بائیوٹکس کی موجودگی میں کروائی جاتی ہے اور دیکھا جا تا ہے کہ کس اینٹی بائیوٹک نے اس جرثومہ کو کتنا بڑھنے دیا ہے۔ خیر اینٹی بائیوٹک سیسپٹی بلیٹی پروفائیل ٹسٹ کے نتائج نے ظاہر کردیا کہ ابھی تک جو اینٹی بائیوٹک دی جارہی تھی یہ جرثومہ اس کے خلاف مدافعت کی صلاحیت کا حامل تھا اور یہی وجہ ہے کہ اس کے خلاف جتنی بھی ادویات دی گئیں ان کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکل سکا تھا۔ اس ٹسٹ کی روشنی میں ادویات میں تبدیلی کی گئی اور دوسری مؤثر اینٹی بائیوٹک شروع کروائی گئی ۔ اس نئی اینٹی بائیوٹک کا اثر دو دنوں میں ہی نظر آنے لگا اور بخار اور دیگر علامات میں بہتری آنے لگی ، اور اب بفضلِ تعالیٰ طبعیت کافی بہتر ہے۔
اپنے ایک پچھلے بلاگ میں اینٹی بائیوٹکس اور ان کے خلاف جراثیم کی طرف سے ہونے والی مدافعت پہ کافی مفصل بات کر چکا ہوں کہ یہ کیا ہوتی ہیں ، ان کے خلاف مدافعت کیسے وقع پذیر ہوتی ہے اور اس کے عمومی اسباب کیا ہیں۔ یہ جو واقعہ بیان کیا ہے میں نے وہ اینٹی بائیوٹکس کے خلاف مدافعت کے مضمرات اور ان کے اثرات کا ہے۔ سٹروبیکٹر کوئی بہت زیادہ مہلک یا کوئی سنگین بیماری پھیلانے والا جرثومہ نہیں ہے جیسے کہ ٹی بی ، ٹائیفائیڈ یا ہیضہ کے جراثیم ہیں۔ یہ عام طور پہ کسی انسان کو بیمار بھی نہیں کرتا ہے اور نہ ہی کسی مخصوص بیماری کے ساتھ کوئی تعلق رکھتا ہے مگر اس کیس میں صرف اور صرف اینٹی بائیوٹک کے خلاف مدافعت کی صلاحیت کے باعث اس کے علاج میں دو سے تین ہفتے لگے جو کہ کچھ برس قبل تک تین سے چار دنوں میں ٹھیک ہوجایا کرتا تھا۔
اینٹی بائیو ٹک کے خلاف مدافعت کا اثر صرف مریض تک محدود نہیں ہے کہ اسے تندرست ہونے میں زیادہ وقت لگتا ہے ، جی نہیں درحقیقت یہ اثر بہت دور تک جاتا ہے۔ اس کیسے کا جواب ہے کہ دو ہفتوں تک اسپتال کا ایک بستر اس جرثومہ کی وجہ سے کسی دوسرے مریض کے استعمال میں نہیں آسکا جو شائد اس انفیکشن سے زیادہ سنگین بیماری کا شکار ہو، جتنے اخراجات مکمل تشخیص سے پہلے کی ادویات اور ٹسٹوں پر ہوئے وہ نظامِ صحت پہ ایک اور اضافی دباؤ پیدا کرتا ہے۔ آپ یہاں یہ کہ سکتے ہیں کہ پانچ دس دن اسپتال میں گزارنا یا دس پندرہ ہزار کے ٹسٹ کروا لینا کسی مڈل کلاس فیملی کے لئے کوئی خاص بات نہیں ہے ، اتنا تو ہم اپنے گھر والوں اور دیگر عزیز و اقارب کے لئے کر ہی سکتے ہیں۔ بالکل بجا ارشاد ہم بالکل کر سکتے ہیں شائد اس سے بھی زیادہ کرگزریں، لیکن اب تھوڑا سا اپنے گھر اور خاندان کے دائرے سے باہر نکل کر سوچئیے محض آپ کو یا مجھے اس خطرہ کا سامنا نہیں ہے بلکہ اس کرہ ارضی پہ بسنے والا ہر انسان اس خطرے سے دوچار ہے ۔ ہمارے اسپتالوں میں (کسی بھی شہر کا کوئی بھی ایک اسپتال تصور کرلیں) روزانہ کی بنیاد پہ بیسیوں کی تعداد میں یہ مدافعت کی صلاحیت کے حامل جراثیم کے انفیکشن کے مریض آتے ہیں۔ اپنی پی ایچ ڈی کے دوران جس ایک جرثومہ پہ میرا کام تھا اس کے 2018 میں اس کے صرف ایک اسپتال میں تقریباً 25000 انفیکشنز آئے جن میں 60- 70 فیصد مدافعت کی صلاحیت کے متحمل تھے۔ یعنی تقریباً 65 کے لگ بھگ یومیہ مریض صرف ایک جرثومہ کی وجہ سے ایک اسپتال آئے۔ آپ خود اس امر کا اندازہ کرلیں کہ مجموعی طور پہ کیا اثر ہوگا تمام جراثیم کا پورے ملک کے تمام ہسپتالوں ، ان کی لباٹریوں اور فارمیسیز پہ۔ پوری دنیا میں لاکھوں نہیں کروڑوں نہیں بلکہ اربوں ڈالرز سالانہ اس مد میں خرچ ہو رہے ہیں اور عالمی طور پہ نظام ہائے صحت اس وجہ سے شدید دباؤ برداشت کر رہے ہیں۔
آپ کہہ سکتے ہیں کہ دباؤ تو کورونا کی وجہ سے بھی ہے، اور باقی تمام بیماریوں کا بھی ہوتا ہے۔ بالکل آپ درست فرما رہے ہیں اس وقت زیادہ دور کیا جائیں انڈیا کی ہی مثال لےلیتے ہیں اس کورونا نے وہاں شدید تباہی مچا رکھی ہے، مگر کورونا کے اس ہنگامے کی اصل وجہ وہاں حفاظتی و احتیاطی تدابیر پہ عمل نہ کرنا ہیں، مزید برآں کورونا کی ویکسین دستیاب ہے جو کہ اس وائرس سے حفاظت کا مؤثر زریعہ ہے۔ اسی طرح باقی تمام بیماریوں کے لئے یا تو ویکسین دستیاب ہے یا پھر علاج کے لئے موثر ادویات یا دونوں۔ جراثیمی انفیکشن میں اصل مسئلہ ان کی مدافعت کی وجہ سے ادویات کا غیر مؤثر ہوتے جانا ہے۔
جب دوا ہی کام نہ کرے تو پھر ڈاکٹر ہو ،تیماردار ہو یانرس یہ سب کیا کر سکتے ہیں۔
اس مدافعت کے خلاف کوئی ویکسین بھی موجود نہیں ہے کیونکہ یہ کورونا کی طرح کوئی ایک مخصوص جرثومہ تو ہوتا نہیں ہے بلکہ ہر جرثومہ باسانی اس صلاحیت کا حامل ہوسکتا اور ہوجاتا ہے۔ مطلب کس کس کے خلاف ویکسین بنائیں گے اور اگر بنا بھی لی تو لگانی تو پھر بھی نہیں ہے کیونکہ کوئی کہیں مقناطیس رگڑنے لگے گا تو کہیں بلب جل اٹھیں گے کیونکہ ہمیں ڈاکٹر اور سائنسدان سے زیادہ یوٹیوب، واٹسایپ اور ٹک ٹاک پہ بھروسہ ہے۔
سوچئیے اور احتیاط کیجئیے۔۔۔۔