بیکٹیریا یا جراثیم بہت سی مختلف بیماریاں پھیلاتے ہیں جن میں ٹائی فائیڈ سے لیکر ہیضہ، اسہال، ٹی بی اور دیگر کئی  شامل ہیں۔  ان جراثیموں کے خلاف ڈاکٹر ہمیں اینٹی بائیوٹکس تجویز کرتے ہیں جن کو کھا کر ہم صحت یاب ہوجاتے ہیں۔   یہ بات تو اکثر لوگوں کو پتہ ہے کہ سب سے پہلی   دریافت ہونے والی اینٹی بائیوٹک پنسیلین تھی جس کو  ایک برطانوی سائنسدان سر الیگزینڈر فلیمنگ نے پہلی جنگ عظیم کے دوران حادثاتی طور پر دریافت کیا تھا۔ لیکن اینٹی بائیوٹکس کا باقاعدہ استعمال دوسری جنگ عظیم کے اختتام  سے ذرا پہلے ایک جنگی ضرورت کے طور پر شروع ہوا تھا  جب  اتحادی افواج نے نازی جرمنی کے خلاف نارمنڈی کے ساحل  پر تاریخ کا سب سے بڑا حملہ کیا تھا جس میں لاکھوں فوجی شامل تھے۔ اس حملے کے لئے پہلی بار پنسیلین صنعتی پیمانے پر امریکہ میں بنائی گئی تاکہ زخمی ہونے والے اتحادی فوجیوں کا علاج کیا جاسکے اور ان کے زخموں کو جراثیموں کی وجہ سےخراب ہونے سے بچایا جا سکے۔ اس عالمگیر جنگ کے خاتمے کے بعد دنیا بھر کے سائنسدانوں نے اس کرشماتی دوا پر انتھک اور شبانہ روز کام کیا اور پنسیلین کے علاوہ بھی کئی دیگر اقسام کی  اینٹی بائیوٹکس  دریافت ہوئیں اور یوں سمجھا جانے لگا کہ روزِ ازل سے جاری بیماریوں کے خلاف جنگ میں حضرتِ انسان کو ایک اور فتح حاصل ہوگئی ہے۔ اور بلاشبہ حقیقت بھی یہی تھی کہ پہلی بار معالجین کے پاس جراثیم کے خلاف کوئی مؤثر دوا تھی جس کی مدد سے وہ پہلے ناقابل علاج سمجھی جانے والی کئی بیماریوں کا شافی علاج کر سکتے تھے۔ اب قصہ یہ ہے کہ صدیوں تک جراثیموں کے وار سہنے کے بعد ہم اپنے پہلے وار میں کامیاب ہو تو گئے، مگر ہم  اپنی فتح کے جوش میں یہ بھول گئے    جراثیم بھی جاندار ہیں اور اب ان کی باری ہے جوابی وار کی۔

آخری دریافت ہونے والی اینٹی بیاٹیک  کو دریافت ہوئے  تقریباً  دو  دہائیاں گزر نے کو ہیں اور جراثیم پر تحقیق کرنے والے سائنسدانوں نے یہ چشم کشا انکشاف کیا ہے کہ کس بھی نئی اینٹی بائیوٹک کے پہلی دفعہ استعمال کے بعد اندازاًچار سے پانچ برس کے اندر اندر جراثیم میں اس کے خلاف مدافعت کی صلاحیت آجاتی ہے۔  اس کی آسان مثال یہ دی جا سکتی ہے کہ اگر آپ کو کچھ عرصہ (تقریباً آٹھ سے دس سال)  پہلے تک اگر کوئی  بیکٹیرئل  انفیکشن ہوتا تو آپ کسی بھی اینٹی بیاٹک کی ہلکی  پھلکی  خوراک سے جلدی ہی ٹھیک ہوجاتے تھے مگر اگر آج آپ کو کسی  ایسے جرثومے کا انفیکشن ہوجائے تو نہ تو دس سال پہلے والی اینٹی بائیوٹک آپ کے کسی کام آئے گی اور نہ ہی وہ  ہلکی پھلکی خوراک۔

اس کی بنیادی وجہ  جراثیم میں اینٹی  بائیوٹکس کے خلاف مزاحمت اور مدافعت ہے۔ یہاں اس بات کا ذکر کرنا ضروری ہے کہ یہ مدافعت کوئی نئی چیز نہیں ہے بلکہ یہ صلاحیت تو جراثیم میں ہزارہا سال سے موجود ہے،لیکن آج کل اس مدافعت کی شدت اور پھیلاؤ میں اضافے کی وجہ ہماری بے احتیاطی اور لاپرواہی کے سوا کچھ اور نہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ یہ مدافعت ان جراثیم میں موجود تھی جو کہ آج سے دس یا بیس برس پہلے ہمیں بیمار کرتے تھے، نہیں ان جراثیم کی اکثریت کا کبھی بھی اینٹی بائیوٹکس سے واسطہ ہی نہیں پڑا تھا اس لیے وہ ہمارے اس حملے کے لیے تیار نہیں تھے مگر وقت کے ساتھ ساتھ ہمارےغیرذمہ دارانہ طرز عمل نے جراثیم میں اس مدافعت کی صلاحیت کو ابھارنے   میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا ہے۔

اب بات کرتے ہیں کہ ہم نے ایسی کیا بے احتیاطی اور لاپرواہی کا مظاہرہ کیا ہے جس کی وجہ سے ہمیں آج یہ دن دیکھنا پڑرہا ہے۔ پہلی اور سب سے بڑی لاپرواہی تو اینٹی بائیوٹک کا ادھورا کورس ہے، یہ چیز آپ نے لازمی نو ٹ کی ہوگی کہ جب تک ہماری طبعیت خراب رہتی ہے تب تک ہم باقاعدگی کے ساتھ دوا لیتے رہتے ہیں مگر جیسے ہی طبعیت میں بہتری آتی ہے ہم سے دوا کی خوراک بھولنے لگتی ہے۔ آپ یہ بات کر سکتے ہیں کہ جب طبعیت ٹھیک ہوگئی ہے تو پھر دوا لینے کی کیا ضرورت ہے، منطق کے اعتبار سے تو یہ بات بالکل ٹھیک ہے اور ویسے بھی ان دواؤں کے اپنے ‘سائڈ افیکٹ’ ہوتے ہیں لہٰذا  جتنا اجتناب ہوسکے کرنا ضروری ہے۔ مگر اصل بات یہ ہے کہ جس معالج نے آپ کو اینٹی بائیوٹک تجویز کی ہے وہ بھی یہ بات جانتا ہے مگر پھر بھی وہ آپ کو ایک مخصوص مدت کے لیے اینٹی بائیوٹک کھانےکو کہہ رہا ہے، اور یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ یہ مشورہ اپنے ‘کمیشن ‘کی خاطر آپ کو دے رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آج سے کچھ برس پہلے تک جب بھی ہم پر جراثیم حملہ آور ہوتے تھے تو ان کی اکثریت میں مدافعت کی صلاحیت بہت کم یا نہ ہونے کے برابر ہوتی تھی۔ اس انفیکشن کے علاج کے لیے جب ڈاکٹر  نے مثلاً   چھ دن کے لیے اینٹی بائیوٹک   کھانے کو دی تو پہلے دن اینٹی ب بائیوٹک کا سب سے زیادہ اثر ان جراثیم پر پڑا جن میں مدافعت نہیں تھی  اور وہ اِکا دُکا  جراثیم جو اینٹی ب بائیوٹک کے خلاف مدافعت کی صلاحیت رکھتے تھے  پہلے حملے سے محفوظ رہے، اب ان بچ جانے والے جراثیم کے خاتمے تک اگر اینٹی ب بائیوٹک کا استعمال نہ کیا جائے تو پھر آپ خود اندازہ لگائیے کہ کیا نتیجہ نکلنا چاہیئے، اور اسی لیے آج کے جراثیم کی اکثریت مدافعت کی صلاحیت سے مسلح ہے۔

دوسری بڑی بے احتیاطی  کسی مستند ڈاکٹر کے مشورے کے بغیر اینٹی ب بائیوٹک کا استعمال ہے ۔ ہم من الحیث القوم  مشورہ دینے اور لینے کا کام فی سبیل للہ کرتے ہیں۔  یقین نہیں آتا تو کسی محفل میں ہلکا سا کھانس کر  اپنے گلے کی شکایت کر کے دیکھیں ، دس منٹ کے اندر اندر آپ کو دس مشورے نہ مل جائیں تو کہئے گا۔  اوپر سے ہمیں ڈاکٹروں سے ویسے ہی ایک چڑ سی ہے کیونکہ وہ ہم سے فیس  جو لیتے ہیں وہ بھی بھاری بھرکم،  اس لیے ہم ڈاکٹر کی بات کم اور  اپنے دوست ، رشتہ دار،  ہمسائےسے لیکر ماتحت  اور  حجام تک ہر کسی کی بات نہ صرف سنتے ہیں بلکہ اس پر تندہی سے عمل بھی کرتے ہیں۔  یہ بات بہت ضروری ہے کہ آپ جان لیں کہ اینٹی ب بائیوٹک ایک ایلوپیتھک دوائی ہے اس کا نہ تو حکمت سے کوئی تعلق ہے اور نہ ہی ہومیوپیتھی سے کوئی واسطہ۔ ان دونوں طریقہ علاج میں اینٹی بائیوٹک کا تصور ہی سرے سےموجود  نہیں ہے  اس لیے اگر کوئی حکیم یا ہومیوپیتھ آپ کو اینٹی  بائیوٹک تجویز کرے تو وہ نا صرف آپ کی صحت کے ساتھ کھیل رہا ہے بلکہ وہ اپنے طریقہ علاج سے بھی بدیانتی کا مرتکب ہو رہا ہے۔

تیسری  بے احتیاطی  بلا سوچے سمجھے ہر انفیکشن میں اینٹی بائیوٹک کا استعمال ہے۔ یہ بات ذہن نشین کر لیں کہ اینٹی بیاٹک  کوئی امرت دھارا  نہیں ہے ناہی کوئی آبِ شفاء ٹائپ کی چیز ہے کہ آپ کو ہر قسم کے انفیکشن میں فائدہ دے گی، ہرگز نہیں۔ اینٹی بیاٹک محض ان انفیکشن میں تجویز کی جاتی ہے جو کہ جراثیم یا  بیکٹیریا کی وجہ سے ہوں۔ آپ کو کسی بھی دواکے استعمال سے پہلے اپنی بیماری کا پتہ ہونا چاہئیے اور ساتھ ہی آپ کو دی جانے والی دوا کے متعلق بھی معلومات ہونی چاہیئں۔ اس حوالے سے ایک مثال کے ذریعے سمجھانا غالباً زیادہ آسان ہوگا۔ مچھروں کے ذریعے پھیلنے والی دو مشہور بیماریاں ملیریا اور ڈینگی ہیں، ان دونوں کی وجہ بیکٹیریا  نہیں بلکہ دو بالکل مختلف قسم کے جاندار ہیں  ملیریا کی وجہ پلازموڈیم نامی ایک جاندار ہے جبکہ  ڈینگی کی وجہ ڈینگی وائرس ہے یہ دونوں بیکٹیریا کی قسم سے  اتنا ہی تعلق رکھتے ہیں جتنا انسان کا مینڈک یا کچھوئے کے ساتھ  ہے  یا شائد  اس سے بھی کم ، اسی طرح سے آپ کو  گلہ خراب ہونے کی صورت میں تو اینٹی بائیوٹک سے فائدہ ہوسکتا ہے مگر فلو یا زکام میں نہیں۔

یہ بے احتیاطی تو عام عوام کی جانب سے ہوتی ہی ہے لیکن وہ لاپرواہی جو ڈاکٹروں سے  دانستہً یا   نا دانستہً ہوتی ہے وہ ان سے کہیں زیادہ خطرناک ہے۔ یہ لاپرواہی  ہے اینٹی بائیوٹک کا بے جا اور  بےدھڑک  استعمال۔ اس حوالے سے میں اپنی ذاتی مثال  دینا پسند کروں گا۔ آج سے کوئی چار سال پہلے مجھے پاؤں پہ چوٹ لگی تھی اور کچھ وجوہات کی بنا پر وہ تکلیف کافی عرصہ چلتی رہی، اس سلسلے میں میری والدہ مجھے ایک ہسپتال لے گئیں جہاں ڈاکٹر صاحب نے میرا معائنہ کرنے کے بعد بلامبالغہ کوئی درجن کے قریب دوائیں لکھ دیں۔ یہاں یہ بات بتانا ضروری ہے کہ پاؤں کی تکلیف کے علاوہ اس وقت اور کوئی تکلیف نہیں تھی  ، وہ دوائیں میں نے والدہ کی دلجوئی کی خاطر اس وقت تو خرید لیں مگر گھر آکر  والدہ کو بتادیا کہ ڈاکٹر صاحب کی تجویز کردہ دواؤں میں دو طرح کی اینٹی بائیوٹکس ،  درد کے لیے دو پین کلرز، ایک اومپرازول،  دو وائٹامن  اور شائد ایک دو دوائیں اور بھی تھیں مگر اب یاد نہیں کہ وہ کونسی تھیں، ان تمام دواؤں میں صرف وہ دو وائٹامن ہی میرے مطلب کے تھے جن کو میں نے استعمال کیا۔ہمارے ملک میں فارماسیوٹیکل کمپنیوں  کی طرف سے ملنے والا کمیشن ڈاکٹروں کو زیادہ سے زیادہ دوائیں لکھنے پراکساتا ہے۔ مریض کو اس کی ضرورت  سے زیادہ اینٹی بائیوٹکس تجویز کرنا مدافعت کے حوالے سے مریض کے لیے ‘آ بیل مجھے مار’ والی بات ہے۔ یہ بات ذہن میں رکھئیے کہ ہمارے جسم میں ہزاروں یا لاکھوں نہیں بلکہ اربوں کی تعداد میں جراثیم رہتے ہیں جن کو ہمارے دفاعی نظام نے جسم میں چند حصوں میں محدود کر کے رکھا ہوا ہے۔  ہم ان جراثیم سے کئی فائدے حاصل کرتے ہیں  لیکن بیماری یا صحتمندی دونوں  حالتوں میں اینٹی بائیوٹک  کا استعمال ان جراثیم پر بھی اثر انداز ہوتا ہے اور اس کے دو نتیجے نکلتے ہیں، پہلا تو ہمارے لیے جو فائدہ مند جراثیم ہوتے ہیں وہ مرنے لگتے ہیں اور ان کی تعداد کم   ہونے لگتی ہے جس کا اپنا الگ نقصان ہے دوسرا اثر  یہ ہوتا ہے کہ بچ جانے والے جراثیم میں   اینٹی بیاٹیک کے خلاف مدافعت کی صلاحیت آنے لگتی ہے۔  یہاں یہ با ت بتانا ضروری ہے کہ جراثیم ہم سے زیادہ ‘سوشل’ ہوتے ہیں وہ ہم سے کئی گنا زیادہ  اپنے پڑوسیوں کے ساتھ تحفے تحائف کا تبادلہ کرتے ہیں ، اور یقین جانئیے کہ ان تحائف میں مدافعت کی صلاحیت سرفہرست ہے۔

 گزشتہ چند برسوں میں اینٹی بائیوٹکس کے خلاف مدافعت ایک خاموش قاتل کی سی حیثیت اختیار  کرتی چلی جا رہی ہے اور اس کی وجہ اور کچھ نہیں صرف اور صرف اوپر بیان کی گئی بے احتیاطی اور لاپرواہیاں ہیں۔  جنوبی ایشیا اس مدافعت کے پھلنے پھولنے کا گڑھ بن رہا ہے۔ اس وقت تو ہم پر صرف پولیو کی وجہ سے سفری پابندیاں ہیں  لیکن اگر ہم نے اپنا طرز عمل نہیں بدلا تو خاکم بدہن وہ دن دور نہیں جب ہمیں امریکہ اور یورپ کے ویزے تو دور کی بات حج اور عمرے کی بھی اجازت ملنا مشکل ہوجائے گی کیونکہ پولیو کے لیے تو پھر  گزشتہ کئی دہایوں سے ویکسین موجود ہے   مگر یاد رکھئیے اینٹی بیاٹیک کی مدافعت کے خلاف نہ تو کوئی دوا میسر ہے اور نہ ہی کوئی ویکسین۔

آپ اس وقت کیا کریں گے جب آپ کا کوئی عزیز کسی بیکٹیریا کے  معمولی سے انفیکشن میں مبتلا ہوگا اور اس وقت اس کے علاج کے لیے مدافعت کی وجہ سے کوئی مؤثر دواموجود  نہیں ہوگی۔

 زرا سوچئے۔

Dr. Muhammad Ibrahim Rashid Sherkoti

Hi, I am a Ph.D. in biotechnology from National University of Sciences and Technology, Islamabad. I am interested in biotechnology, infectious diseases and entrepreneurship. You can contact me on my Twitter @MIR_Sherkoti.